آپ کی ولادت ۔حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے دس سال پہلے جناب ابو طالب کے گھر شعب بنی ہاشم میں ہوئ ۔ علامہ ابن حجر نے الاصابہ میں اور علامہ ابن سعد نے الطبقات میں لکھا ہے کہ “آپ عام الفیل کے تیسویں سال رجب کی بارہ راتوں کے بعد پیدا ہوے ” اور یہ بات ہر خاص و عام میں مشہور تھی چنانچہ امام حافظ تقی الدین (متوفی 832ھ) اپنی کتاب “شفاء الغرام” میں متبرک مقامات کا ذکر کرتے ہوے مولد علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں ” حضرت علی کی ولادت گاہ اس گھر کے بالکل قریب تھی جو حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت گاہ تھی اور یہ اہل مکہ کے نزدیک “بلا اختلاف مشہور ہے ” نیز اس کے دروازے پر لکھا ہوا ہے کہ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جاے ولادت ہے “۔ آپ کانام: علی بن ابی طالب ہے۔ القاب: المرتضیٰ، حیدر کرار، اسداللہ، ہیں ۔ کنیت : ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ والد کا نام: ابو طالب عبد مناف ہے جو مکہ مکرمہ کے اشراف و معززین میں شامل تھے۔ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا ۔ امن پسند اور مصلح انسان تھے اور حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کفالت و خدمت کرنے کے ساتھ سرپرستی کرتے رہے ۔ مشرکین مکہ کے تمام پرو پیگنڈوں اور منصوبوں، سازشوں سے اپنے بھتیجے کی حفاظت بھی کرتے رہے۔ شام کے تجارتی سفر میں بھی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر گئے تھے جب مکہ مکرمہ میں قحط کی صورتحال تھی اور معاشی حالات بہت خراب تھے تو اس وقت ابو طالب نے اپنے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کا ہاتھ پکڑ کر بیت اللہ کے ساتھ ٹیک لگا کر بٹھادیا اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل چھاگئے اور ایسی بارش ہوئ کہ وادی میں سیلاب کی سی صورت بن گئ۔ تو بعد میں جناب ابو طالب نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اکثر کہا کرتے تھے” محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) حسن و جمال کا پیکر ہیں آپ کے چہرے سے بارش طلب کی جاتی ہے ۔ آپ یتیموں کے ماوی اور بیواؤں کے محافظ ہیں ” ۔۔ والدہ کانام: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہے یہ وہ پہلی خاتون ہیں جن کا نکاح بھی ہاشمی شخص سے ہوا ۔ اس بناء پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ” نجیب الطرفین “ہوے ۔ یہ بھی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بے حد عقیدت و محبت رکھتی تھیں ، حضرت آمنہ کی وفات کے بعد انہوں نے ماں کا پیار دیا۔ ان کو شرف صحابیت بھی حاصل ہے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی ۔ جناب ابو طالب کثیر العیال تھے اور تنگ دست ہوگئے تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی کفالت کرنے کا کہا یہاں تک وہ وقت بھی آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تصدیق کی اور ایمان قبول کیا ۔ آپ رض کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے بچپن میں اسلام قبول کرکے عملی طور پر جاھلیت کے رسم و رواج سے محفوظ رہے ۔ پھر دعوتی زندگی میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے ۔ جب اللہ کے رسول نے ہجرت کی تو اس وقت اپنا بستر مبارک پر ان کو سلایا اور امانتیں بھی ان کے حوالے کیں۔ تین دن بعد حضرت علی بھی مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے کہ دن کو کہیں چھپ جاتے اور رات کو سفر کرتے جب مدینہ پہنچے تو پاؤں پھٹ چکے تھے اور چلنا دشوار ہوگیا تھا ۔ جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ان کی حالت کا علم ہوا تو ان کے پاس آئے گلے سے لگایا اور اس حالت میں دیکھ آنکھوں سے آنسو مبارک جاری ہوگئے ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک ہاتھوں پر لگا کر پاؤں پر لگایا تو ایسی شفاء ملی کہ شہادت تک تکلیف نہ ہوئ۔ مسجد نبوی کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔ مواخات مدینہ میں حضرت علی کو حضرت سہل بن حنیف انصاری رض کا بھائی بنایا گیا تھا ۔ سن 2ھجری میں حضرت فاطمہ بنت محمد کا نکاح سیدنا علی المرتضیٰ سے تجویز ہوا تاریخ و سیر کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مہاجرین و انصار اس نکاح پر بے حد خوش تھے ۔ خاص طور پر حضرات ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم اجمعین کی مخلصانہ مشاورت، مکمل معاونت اور حمایت حاصل رہی ان حضرات نے اس موقع پر شاندار خدمات سر انجام دیں ۔ اس مبارک نکاح کے پاکیزہ ثمرات حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما، حضرت زینب اور ام کلثوم کی صورت میں ظاہر ہوئے ۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قدرت نے جرات و شجاعت ،جانبازی، جاں سوزی،بے خوفی اور بے مثال استقامت سے نوازاگیا تھا، اسلامی غزوات میں آپ کی شجاعت کے واقعات تاریخ کا روشن باب ہیں۔
جس کو تو للکارتا تھا جنگ کے میدان میں ۔ اس کے سینے اور گردن سے لپٹ جاتی تھی موت ۔
غزوہِ بدر 9 افراد بالاتفاق آپ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوے۔ اس موقع پر فرشتوں کے اترنے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان کی معیت میں قتال بھی کیا تھا ، احد میں لشکر اسلام کے میمنہ کے امیر بناے گئے اور اس جنگ میں بھی متعدد مشرکین آپ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوے، صلح حدیبیہ میں صلح نامہ لکھنے کا اعزاز بھی ملا، خیبر کے موقع پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سفید رنگ کا جھنڈا آپ کے ہاتھ میں دیا ۔ جیسے ہی میدان میں آئے تو مقابلہ کے لیے مرحب یہ کہتے ہوے نکلا ” تحقیق خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اور ہر وقت ہتھیار بند رہتا ہوں اور ایک تجربہ کار جنگجو ہوں “۔ تو حضرت علی نے جواب میں کہا: “میں وہ شخص ہوں جس کا نام اس کی ماں نے حیدر رکھاہے اور میں جنگل کے اس شیر کی مانند ہوں جو ایک ہیبت ناک منظر کا حامل ہو”۔ پھر مقابلہ شروع ہوا کچھ ہی دیر میں مرحب کے پر ضرب کاری لگائ کہ وہ اسی وقت ہی جہنم واصل ہوگیا۔ اس طرح فتح حاصل ہوگئ اور مال غنیمت میں حضرت علی اور حضرت عمر کا حصہ برابر برابر تھا۔۔۔
اسلام کے پہلے حج میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں شریک ہوئے تھے اور قربانی کے دن عقبہ میں حضرت ابوبکر صدیق کو سورہ توبہ پڑھ کر سنائ ، حجۃ الوداع کے موقع پر سیدنا علی المرتضیٰ احکامات کی تنفیذ میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ترجمان کی حیثیت سے کام کررہے تھے اور اس موقع پر 63اونٹ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کیے تھے اور باقی 37 اونٹوں کو حضرت علی نے نحر کیا تھا۔ پھر ہر اونٹ سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لے کر ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور حضرت علی دونوں نے اس گوشت میں سے کھایا اور اس کا شوربا پیا ۔ حجۃ الوداع سے واپسی پر “غدیر خم” (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان جحفہ سے کم و بیش 5کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ،کچھ حضرات کی طرف نے غلط فہمی کی بنا پر حضرت علی کی شکایتیں لگائیں تو ان کا جواب دینے کے لیے )پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا: “اے اللہ ! (تو گواہ رہ کہ) میں جس کا دوست اور محبوب ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست اور محبوب ہیں۔ اے اللہ! میری تجھ سے دعا ہے کہ جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت کا معاملہ فرما اور جو اس سے عداوت رکھے تو اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما”۔۔۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بہت سے علوم میں مہارت حاصل تھی، قرآن مجید سے اجتہاد اور استنباط کرنے میں خوب ملکہ حاصل تھا، ناسخ و منسوخ ، تفسیر و تاویل کے علوم میں خوب دسترس حاصل تھی، حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ادائیں ، دعائیں اور شمائل و خصائل بھی یاد تھیں ، فقہ پر گہری نگاہ رکھتے تھے، قضاء (فیصلہ) میں خدا داد صلاحیتوں کے حامل تھے، تقریر و خطابت میں فصاحت و بلاغت ہوتی تھی، علم نحو کے بانی تھے ، 586احادیث کے راوی ہیں، نہایت عبادت گزار تھے اور یہی ان کا مشغلہ حیات تھا، صوم و صلوٰۃ کے اتنے پابند تھے کہ قرآن مجید “تراھم رکعا سجدا” کے مصداق ٹھرے، دل کے غنی تھے کبھی کوئی سائل ان کے در سے خالی ہاتھ نہیں گیا، سادگی اور تواضع کا پیکر تھے، پانچ موقعوں پر ہمیشہ پیدل ننگے پاؤں چلتے 1 جب کسی بیمار کی عیادت کے لیے جاتے 2 جب جنازہ کے ساتھ چلتے 3 عید الفطر کے لیے جاتے 4 عید الاضحی کے لیے جاتے وقت 5 جب نماز جمعہ کے جاتے وقت ، رعایا کے ساتھ شفقت کرتے تھے ، عمال کی سخت نگرانی کرتے ، ۔۔
اقوال حکیمانہ :
(1). 1۔ تین چیزیں حافظہ کو زیادہ کرتی ہیں۔ 1: مسواک کرنا۔2: روزہ رکھنا۔ 3: قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
(2). اگر پانچ بری عادتیں نہ ہوتیں تو سارے لوگ نیک ہو جاتے ۔ 1: جہالت پر قناعت کرنا۔ 2: دنیا پر حریص ہونا۔ 3: علم کے خرچ کرنے میں بخل کرنا۔ 4: عمل میں ریا کاری۔ 5: اپنی راے پر اترانا۔۔
(3)۔ حقیقتاً نعمتیں چھ چیزیں ہیں ۔ 1: دین اسلام۔ 2: قرآن مجید۔ 3: حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات۔ 4: امن و عافیت۔5: پردہ پوشی۔ 6: لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔
(4)۔ 1: ایسی نماز خیر سے خالی ہے جس میں خشوع نہیں۔ 2:اور ایسا روزہ بھلائ سے خالی ہے جس میں فضولیات سے اجتناب نہ ہو۔3: اور ایسی تلاوت میں کچھ فائدہ نہیں جس میں غور وفکر نہیں۔4: اور ایسا علم بے فائدہ جس میں پرہیزگاری نہیں۔5: اور اس مال میں خیر نہیں جس میں سخاوت نہیں ۔6: ایسے بھائ چارہ میں کوئ خیر نہیں جس میں ایک دوسرے کی مدد نہیں۔7: اور ایسی نعمت برکت سے خالی ہے جو ہمیشہ نہ رہے۔8: اور ایسی دعا بےکار ہے جس میں اخلاص نہ ہو ۔۔
(5)۔ 1: علم الٰہی بہترین میراث ہے۔ 2: ادب بہترین مشغلہ ہے۔3: تقوی بہترین توشہ ہے۔ 4: عبادت بہترین سرمایہ ہے۔5: عمل صالح بہترین رہنماء ہیں۔6: اچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں۔7: بردباری بہترین معاون ہے۔8: قناعت بہترین مالداری ہے۔9: توفیق الٰہی بہترین مددگار ہے۔10: موت بہترین عبرت ہے ۔
شہادت: 19 رمضان المبارک شب اتوار کو63سال کی عمر میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر وہیں کوفہ میں ہی ” دارالاماراۃ “دفن کردیا گیا
