تحریر / ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر
ہم نے زندگی میں خدا اور اس کے رسول کے بعد اپنے ملک سے بے پناہ محبت کی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ہم نے این سی سی ٹریننگ شروع کی تو کلو بھر وزنی بوٹ پہن کر قدم اٹھانا دوبھر ہو جاتا تھا۔ ہم قدم کہیں رکھتے تھے پڑتا کہیں اور تھا۔ ہم پلاٹون کمانڈر تھے اس لیے یہ لڑکھڑاہٹ اور واضح ہوتی۔ کچھ دن سر نے، جو فوجی تھے، ڈانٹا بھی مگر مطمئن ہو گئے۔ وہ جان گئے تھے کہ پریڈ کے لیے جیسے ہی ڈرم پر ضرب پڑتی ہے، ہم اور ہمارے قدم بالکل سیدھے ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ضرب اعلان ہوتا تھا اللّٰہ اکبر! اور ہم اس وقت جان دینے کو تیار ہو جاتے تھے۔زندگی میں ایک موقع آیا جب ہمارے میاں کینیڈا منتقل ہو سکتے تھے مگر ہم نے اور امی( ساس) نے صاف انکار کر دیا۔ امی اپنی مٹی میں دفن ہونا چاہتی تھیں اور ہم اس وطن کو چھوڑ کر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آج بھی قومی ترانے اور ملی نغمہ سنتے ہی دل جھوم اٹھتا ہے اور ہم بھی جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں۔ ہمارے ملک کو کوئی برا کہہ دے ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ یہی محبت ہمارے بچوں میں بھی آئی ہے۔ انھوں نے کیمبرج اسکول میں ہونے کے باوجود ابھی تک باہر جانے کا نہیں سوچا۔ مگر آج ہم نے ان سے کہہ دیا کہ جو جا سکے چلا جائے۔ کل سے ہمارا دل پھٹ رہا ہے۔ حملہ آور دو دن وہاں بیٹھا رہا کسی کو پتا نہیں چلا۔ حملے کے بعد چار گھنٹے تک زخمی مدد کے لیے پکارتے رہے مگر ناقص انتظامات اور رابطے کی کمی خدا جانے کتنوں کو قبر میں اتار گئی۔ اتنی کسمپرسی! کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ ملک ہے؟ کوئی نظام نہیں، کوئی انتظام نہیں۔ بے غیرتی اور بے حسی کی دوڑ ہے جس میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں لگا ہوا ہے۔ ہم عوام بھی ایسے ہی ہو چکے ہیں۔ پرسوں ہی ہم نے سنا ایک صاحب فرما رہے تھے کہ کئی دن سے کوئی ویڈیو آڈیو لیک نہیں ہوئی، مزا نہیں آ رہا۔ بے شرمی کی حد ہے کہ جس ملک میں اپنے بیڈ روم تک میں کوئی پوشیدہ نہیں وہاں حملہ آور دو دن نظروں سے پوشیدہ رہا۔ خدا کا گھر لہو لہان کر گیا اور چار گھنٹے کس کرب، کس امید اور ٹوٹتی آس کے بیچ پل پل مرے ہوں گے وہ سب جنھیں ہم آپ شہید کہہ کر مطمئن ہو جائیں گے۔زندگی کی بنیادی ضروریات چھین لینے کے بعد اب زندگی بھی چھن رہی ہے۔ اور ہم سب خاموش ہیں۔ اپنے آپ میں مست و مگن ہیں۔اور ہاں! اگر کسی نے اس پوسٹ پر آ کر اپنے کسی لیڈر یا ادارے کو اچھا/ برا کہا تو ہم اسے بلاک کر دیں گے، ہماری دانست میں یہ سب ایک سے ہیں اور ان کو ایسا بنانے میں ہم سب کا ہاتھ ہے۔