شاعرہ/مہوش احسن
میں نے ہنسنے کی طلب میں ہیں بہائے آنسو
اس لیے رشتوں کی چوکھٹ سے کمائے آنسو
بے بسی اپنے تناسب سے جڑی رہتی ہے
میں نے چاہا بھی نہیں اور ہیں آئے آنسو
خوش نصیبی کا ہدف کون بنا ہے اب کے
کون ہے جس کے مقدر میں ہیں آئے آنسو
ہمنوائی کا سلیقہ ذرا ان سے سیکھو
قہقہے آتے ہوئے ساتھ میں لائے آنسو
چاہ کر بھی تو میں ترمیم نہیں کر پائ
شوخ سی دھن پہ کسی شخص نے گائے آنسو
ایک رومال وضاحت کیلیے کافی ہے
بیٹے کے زخموں پہ ہیں ماں نے لگائے آنسو
میں نے پتھر کا کلیجہ نہیں پھٹتے دیکھا
اس کی آنکھوں میں خدا مجھ کو دکھائے آنسو
درد ہے ضبط کے دھارے کو پہنچنے والا
آنکھ سے بولو زرا جلدی جگائے آنسو
آئینہ دیکھنا آسان کہاں ہوتا ہے
میں نے خود سے بھی بہت دیر چھپائے آنسو
اسکے دامن میں ہنسی شوخی شرارت بھی تھی
ہم نے تو اپنی خوشی سے ہیں اٹھائے آنسو
درد تہزیب پہ معمور ہے مہوش احسن
اسلیے ہم نے وراثت میں ہیں پائے آنسو