29

عہد فاروقی، امت مسلمہ کی ضرورت/تحریر/حسنین احمد شیخ

آج بندہ ناچیز اس ہستی کے بارے میں قلم طراز ہے جو تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے کم و بیش 24 لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔ یہ وہ ہستی ہیں جن کے لیے جنت کے اندر محل کو رسول اللہﷺ نے مشاہدہ فرما کر خبر دی کہ جنت کا محل تمہارا منتظر ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ان کے فضائل و مناقب کو شمار کرنے کے لیے سیدنا نوح علیہ السلام کی عمر درکار ہے لیکن پھر بھی ان کے فضائل ختم نہ ہوں گے۔ یہ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں اور جنہیں دعائے مصطفیٰﷺ نے فتح کیا تھا۔ پھر دامن مصطفیٰﷺ سے وابستہ ہوئے تو اس کے بعد کفر و شرک کے جتنے معرکے بپا ہوئے یہ ہستی ان میں مجاہدانہ شان سے دکھائی دیتی ہے۔ اس ہستی کا شمار عالم، زاھد، محدث، مفسر، کاتب وحی، شہادت کا مژدہ پانے والے اور مجتہد، اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں تھا۔ جنہیں رسولﷺ کے خسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور جن کی چہیتی شہزادی ابد تک ام المومنین کے شرف سے سرفراز ہوئیں۔ جس کی وسیع و عریض سلطنت میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ جس عظیم حکمران کے دل میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی خدمت، رعایا کی خبر گیری، مخلوق خدا کے احوال سے واقفیت کا عجیب جذبہ پایا تھا کہ رعایا رات کو آرام کرتی اور وہ خود ’’راتوں‘‘ کو جاگ کر رعایا کی خبر گیری کیا کرتا تھا۔ جس کی درویشی اور فقر غیور نے انسانوں کو عزت نفس اور خودداری کا درس دیا۔ یہ ہستی زبردست شجاعت، کمال فصاحت و بلاغت اور سخن فہم کی مالک تھی۔ یہی ہستی حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے جیسے اوصاف حمیدہ کی مالک تھی۔ یہ وہ ہستی ہیں جن کا ذکر آسمانوں پر ملائکہ فاروق کے نام سے کرتے ہیں۔ یہ وہ ہستی ہیں جو اسلام لائے تو ان کے اصرار پر مسلمان کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگے۔ جس کا نام نامی آج بھی عدل و انصاف، دیانت و امانت، حق گوئی و بے باکی اور جرأت و استقامت کا جلی عنوان بن کر چمک رہا ہے۔ جی ہاں، آج کے گلہائے عقیدت خلیفہ دوم، امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات بابرکات پر نچھاور کرنے کے لیے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار عرب کے ان چند افراد میں ہوتا تھا، جو پڑھے لکھے اور اشراف تھے۔ رسول اللہﷺ نے جن پر فخر و مباہات فرمایا:’’پس اگر میری امت میں کوئی محدث ہوا تو وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے۔‘‘ (صحیح البخاری)
عشرہ مبشرہ کے بزم نشین، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام الفیل کے تیرہ سال بعد 583ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا مکمل نام عمر بن خطاب بن نفیل، کنیت ابو حفص، لقب الفاروق یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فضائل کا ایک باب ہیں۔ ان کے القابات اور فضائل کی فہرست میں ایک لفظ آتا ہے، مراد رسول۔ امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا: ’’دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مُریدِ رسول ہیں اور عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرادِ رسول ہے۔‘‘ پیغمبر عظیمﷺ نے عشاء کی نماز ادا فرما کر دامن دعا پھیلایا: ’’اے اللہ (علام الغیوب)! (قریش کے سربرآوردہ اشخاص) ابو جہل یا عمر بن خطاب ان دونوں میں سے جو تیری بارگاہ میں زیادہ پسندیدہ ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔‘‘ جسے ابراہیم نے مانگا، اسے محمد کہتے ہیں جسے محمد نے مانگا، اسے عمر بن خطاب کہتے ہیں۔ پیغمبر اسلامﷺ کی دعا اسی رات قبول ہوئی اور صبح ہوتے ہی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دار ارقم میں پہنچ کر حرم ایمان اور حلقہ غلامی میں داخل ہو کر سابقون الاولون کے وارث بن گئے۔ پس، ثابت ہوا کہ ان دونوں میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ محبوب تھے۔ ایک اور جگہ الفاظ ہیں:’’اللہ! خاص عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو غلبہ و قوت عطا فرما۔‘‘ اس دعائے مستجاب کا عملی اظہار یوں ہوا کہ توحید کے ماننے والے پہلی مرتبہ حرم محترم میں اعلانیہ سجدہ ریز ہو رہے تھے۔ آپ کو اسی جرأت پر دربارِ رسالت سے ’’فاروق‘‘ کا خطاب حاصل ہوا۔ یوں، آپ تاریخ عالم کی فقید المثال شخصیات میں داخل ہو گئے۔ اس میں بڑی عمیق بات یہ ہے کہ غالباً، اسلام کی تاریخ میں دوسری کوئی ایسی شخصیت نہ ہو، جس کے ذریعے رسول نے دین اسلام کی مدد و نصرت اور عزت مانگی ہو۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ شخصیت ہیں کہ جن کے اسلام لانے کی وجہ سے صرف زمین پر خوشیاں نہیں ہوئیں، بلکہ جبرائیل علیہ السلام نے مبارک دی اور کہا:’’اے محمد مصطفیٰﷺ! عمر فاروق کے اسلام لانے سے آسمان والے بھی شاداں و فرحاں ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ورع و تقوی، خلوص و للہیت، سادگی و بے نفسی اور عجز، انکساری و خاکساری کی جو دولت عطا فرمائی، وہ آپ کی بلند فضیلت و برتری اور عظمت شان کی غمازی کرتی ہے۔ ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ درآں حالیکہ، رسول مکرم و معظمﷺ کی زبان’’وما ینطق عن الھوی‘‘ سے یہ مژدہ بھی ملا، آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔‘‘ (جامع ترمذی)۔ جب زبان رسالتﷺ میں سے یہ الفاظ نکل گئے تو سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بھی ان الفاظ پر ایمان رکھنا ضروری ہو گیا کہ رسول اللہ کے بعد کوئی نبی آسکتا تو وہ میں ہوتا۔ مطلب یہ کہ ایک نبی علیہ السلام میں جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ سب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اندر موجود تھیں، بس، ایک نبوت نہیں تھی۔ یعنی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو باطنی کمالات اور فطرت سلیمہ کے ساتھ ساتھ تمام لوازمات عطا فرمائے تھے، لیکن ختم نبوت کا تاج رسول اللہﷺ کے سر انور پر سج چکا تھا۔ الغرض، شفیع اعظمﷺ اشارہ فرما رہے تھے کہ میرے تیار کردہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ظرف نبوت کے حامل تو ہیں لیکن نبی نہیں ہیں۔ یعنی، اگر یہی لوگ بنی اسرائیل میں ہوتے تو ان کی شان رضی اللہ تعالیٰ عنہم نہ ہوتی بلکہ علیہم السلام ہوتی۔ قارئین محترم! یہ محبت ہی کا صلہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیا میں بھی دربار رسالت میں حاضر خدمت رہے اور اب بعد از وصال بھی شافع محشر کی معیت اور حاضر خدمت ہی ہیں۔ وہ نور کی برسات جو اس وقت ہوتی تھی وہ آج بھی اسی طرح ہی ہو رہی ہے۔ پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نےخوب کہا:
نام آنے پہ ابوبکر و عمر کا لب پر
تو بگڑتا ہے، وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں

ناطق حق وصواب، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی بارعب، نڈر و بہادر تھے۔ اعلان نبوت کے چھٹے سال، 27 سال کی عمر میں جب آپ دولت اسلام سے فیض یاب ہوئے تو آپ کا نمبر 40 واں تھا، لیکن کفار و مشرکین نے کہا کہ آج ہم آدھے ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ آیت کریمہ بھیج دی، ترجمہ: ’’اے نبی معظمﷺ! آپ کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کی۔‘‘ قرآن مجید کی یہ آیت حرف بہ حرف سچی ثابت ہوئی کہ پوری دنیا کی جتنی بھی طاقتیں تھیں وہ ان کے قدموں میں آگئیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناموس رسالتﷺ کے عملاً بانی ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے مرشد کریمﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کا عالم یہ تھا کہ آپ کے پوتے کا نام محمد تھا۔ ایک دن باہر گلی میں اس کا نام لے کر کسی نے کوئی غلط بات کہہ دی، تو فرمایا، ’’اس کا نام تبدیل کر دیا جائے کیوں کہ نام محمد کی توہین ہوئی ہے۔اور صحابہ کرام کو بلا کر کہا ’’جن بچوں کے نام محمد ہیں وہ اپنے بچوں کے نام تبدیل کریں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نام محمد کی توہین ہوتی رہے۔”
امام عادل، امیر المومنین، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ محبت اہل بیت کا ایک مجسم پیکر تھے اور اتحاد امت کے بہت بڑے داعی تھے۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نےسیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو ’’اللہ آپ کی عمر دراز فرمائے اور آپ کی تائید فرمائے‘‘ کہہ کر دعا دی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد نبویﷺ میں آیا، میں اس وقت کم سن تھا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، تو میں نے کہا: ’’میرے نانا کے منبر سے اتر جاؤ اور اپنے باپ کے منبر پر جاؤ تو (وہ منبر سے اتر گئے اور) کہا میرے باپ کا تو کوئی منبر نہیں ہے۔‘‘مدائن کی فتح پر جو مال غنیمت حاصل ہوا تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نصف حصہ اس لیے عطا فرمایا کیونکہ آپ حسنین کریمین کو اپنے بیٹے سے افضل سمجھتے تھے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اللہ بزرگ و برتر کی عظیم بارگاہ میں انتہائی برگزیدہ تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب تھے۔ انہوں نے کلمہ تو بعد میں پڑھا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے محبوب پاکﷺ کے لیے عالم ارواح میں پہلے سے ہی چن لیا تھا۔ یہ عظیم شخصیت نگاہ خدا اور عطائے خداوندی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی باکمال فہم و فراست کے مالک تھے۔ تاریخ دور خلافت میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بوڑھی عورت دربار خلافت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی، ’’امیرالمومنین! کافی دن ہو گئے، میرے گھر میں کیڑے مکوڑے نہیں آتے۔‘‘ امیر المومنین نے کہا کہ آپ اپنا پتہ دیجیے آپ کی شکایت ختم کر دی جائےگی۔ عورت کے جانے کے بعد دربار میں موجود تمام لوگوں نے تجسس کی نظروں سے امیرالمومنین کو دیکھا اور کہا ’’امیرالمومنین یہ کیسی شکایت تھی اور اس کو کیسے دور کیا جائے گا؟‘‘ امیرالمومنین کی آواز پورے دربار میں گونجی کہ امیر بیت المال! اس عورت کے گھر پہنچنے سے پہلے اس کے گھر میں کجھور، شہد، جو اور زیتون بھجوا دو۔ پھر دربار سے مخاطب ہوئے کہ جس گھر میں اناج ہی نہ ہو اس گھر میں کیڑے مکوڑوں کا کیا کام۔
خلیفہ ثانی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی نابغہ روزگار اور فقید المثال شخصیت محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً صدیوں بعد جنم لیتی ہیں۔ ان کے کارناموں کی دھوم اور گونج آج بھی زمانے میں باقی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مبارک دور میں بہت سی سیاسی، انتظامی، معاشی، معاشرتی اور تمدنی اصلاحات ایجاد فرمائیں جو تا قیامت دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم کے لیے قابل رشک دور حکومت رہے گا۔ تمثیلا، مسجدوں میں روشنی کا انتظام کرایا، امام، موذن اور اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کیں، ہجری سن نافذ کیا، حرم اور مسجد نبوی کی توسیع کی، نئے صوبے و شہر قائم کیے، دفاع، پولیس، ڈاک، تعلیم، مالیات (خزانہ/بیت المال)، محاصل (ٹیکس) کے محکمے قائم کیے، حساب کتاب(اکاؤنٹس) کا شعبہ قائم کیا، ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی، ججوں کا تقرر کیا، جیل خانہ جات کا شعبہ بنایا، فوج کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں، مکہ و مدینہ کے درمیان سرائیں(Inn) اور چوکیاں (پٹرولنگ پوسٹ) بنوائیں، مردم شماری کرائی، زمین کی پیمائش کرائی، آب پاشی کا نظام بنوایا۔ آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور ضرورت مندوں کے لیے وظائف (امدادی فنڈ، سکالرشپ) جاری کیے۔ تاریخ انسانی میں پہلی بار آپ نے حکمراں طبقے کا احتساب کرنے کا نظام دیا، گورنروں اور سرکاری عہدیداروں کے اثاثے ظاہر کرنے اور ان میں ناجائز اضافوں کو بیتُ المال میں جمع کروانے کا نظام بنایا، نا انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کے عدل کی وجہ سے عدل، عدل فاروقی کہلایا۔ آپ خود راتوں کو تجارتی قافلوں کی حفاظت کے لیے گشت کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتےتھے: ’’جو حکمران عدل کرتے ہیں، وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں۔‘‘
تاریخ کے نامور فاتح سکندر اعظم، چنگیز خان اور تیمور لنگ کے ناموں سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے بھی بڑی بڑی فتوحات کیں، کئی ممالک کو زیر نگیں کیا۔ مگر جب وہ فتوحات سے فارغ ہوتے تو جگہ جگہ انسانی لاشیں، کھوپڑیوں کے پہاڑ، خون کی ندیاں، ہر جگہ ویرانی نظر آتی۔ وہ جہاں سے گزرتے اسے ویران کر دیتے۔ مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا۔ فاتح بیت المقدس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہی دورِ خلافت میں اس وقت کی دو سپر پاورز روم و ایران کو زبردست انداز اور کمال احتیاط سے شکست فاش دے کر اپنی مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت کی عبقری دلیل دی کہ بڑے بڑے تاریخ دان ظلم و ستم کی ایک مثال بھی پیش نہ کرسکے۔ یوں فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے لیے قیصر و کسریٰ کی شہنشاہیت کے تاریک دور کو پیوند خاک کر دیا۔ تقریباً 24 لاکھ مربع میل (کم و بیش آدھی دنیا) کے مقتدر فرماں روا اور منصب خلافت کے مسند نشین، لیکن تقویٰ، سادگی اور زہد و قناعت کا یہ عالم کہ آپ کے دسترخوان پر کبھی 2 سالن نہیں رکھے گئے۔ آپ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر یونہی سو جاتے تھے۔ سفر کے دوران جہاں نیند آتی، کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے اور رات کو ننگی زمین پر دراز ہوجاتے تھے۔ آپ کے اونی کرتے پر 14 پیوند تھے، ان میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔ آپ نرم اور باریک کپڑے نا پسند کرتے تھے اور موٹا کھردرا لباس پہنا کرتے تھے۔ کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا لیتے اور اگر اس کے اثاثوں میں ناجائز اضافہ ہوجاتا تو آپ اس کا کڑاحتساب کرتے۔ کسی کو گورنر بناتے وقت نصیحت فرماتے کہ کبھی ترکی گھوڑے (یعنی شاہانہ سواری) پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دروازے پر دربان نہ رکھنا اور حاجت مندوں پر دروازہ کھلا رکھنا۔ آپ کے یہ اقوال، انسانی حقوق کے چارٹر (منشور) کی حیثیت رکھتے ہیں: ”مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے انہیں کب سے غلام بنالیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی اور احساس ذمہ داری کا احساس اتنا شدید کہ فرمایا: “میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی بھوکا پیاسا مرگیا تو اس کا جواب عمر کو دینا ہوگا۔ ظالم کو معاف کردینا مظلوموں پر ظلم ہے۔“ آپ کی مہر پر لکھا تھا ”عمر! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے۔“
خلیفہ راشد، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بنائے ہوئے نظام آج بھی دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جن سے اقوام عالم ہمیشہ فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ دنیا کے قوانین میں ان کے بنائے گئے قوانین کو بنیادی اہمیت و حیثیت حاصل ہے، خواہ غیر مسلم اس کو تسلیم کریں یا نہ کریں۔ آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے، پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور، بیوہ یا ضرورت مند کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی بے اختیار حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عظیم انسان اور حکمران تسلیم کرتی ہے۔ وہ انہیں تاریخ کا سکندر اعظم مان کر عقیدت کے سلام پیش کرتی ہے۔
26 ذوالحجہ، 23 ہجری، الم ناک دن، جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فجر کی نماز ادا کرنے آئے تو فارسی غلام، مجوسی ابولولو فیروز نے غیض و غضب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر زہر آلود دو دھاری خنجر کا حملہ کر کے آپ کا شکم مبارک چاک کر دیا۔ تین جگہ کاری وار کرکے گھائل کر دیا، خون بہہ رہا تھا، لیکن آپ کی زبان مبارک سے پہلا جملہ نکلا وہ یہ تھا ’’اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو کر رہتا ہے۔” اس ملعون نے دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، 13 صحابی زخمی، جن میں سے 7 جام شہادت نوش فرما گئے۔ اسی لمحے ملعون مجوسی نے خود کشی کرکےاپنےآپ کو بھی جہنم واصل کرلیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب پتہ چلا کہ آپ پر ایک مجوسی نے حملہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا، ’’اللہ! تیرا شکر ہے کہ مجھ پر کسی مدعی اسلام نے حملہ نہیں کیا۔‘‘ امیر المومنین، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین دن تک موت و زیست کی کشمکش میں رہے لیکن جانبر نہ ہو سکے اور یکم محرم، 24 ہجری، بروز ہفتہ، 63 سال کی عمر میں انتقال با کمال اور پہلوئے رسول میں آسودۂ خاک ہوئے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر کا پہلوئے مصطفیٰ کریمﷺ میں موجود ہونے کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس مٹی سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریمﷺ کے بدن پاک کو تشکیل دیا اسی سے ان دونوں کے خمیر کو بھی تیار فرمایا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک با عظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے۔ حتی کہ شہادت کے وقت مقروض تھے، چنانچہ وصیت کے مطابق آپ کا واحد مکان فروخت کرکے آپ کا قرض ادا کردیا گیا۔
امیرالمومنین، حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم المرتبت شخصیت، فہم و تدبر، سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیت، جنگی حکمت عملی، منفرد انداز حکمرانی اور روحانیت کا وہ مہکتا استعارہ، ضرب المثل، حسین امتزاج اور روشن و درخشاں باب ہے۔ یہ آغوش نبوت کے اہتمام تربیت کا نتیجہ ہے کہ جس نے انہیں تاریخ عالم کا منفرد، فاتح اور عادل حکمران بنا دیا۔ آپ ایک عظیم عادل حکمران، فاتح سیاست دان، مدبر، منتظم و معاملہ فہم بھی تھے۔ اگر آج امت مسلمہ کے تقریباً 60 ممالک میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا ایک بھی حکمران ہوتا تو امت مظلومیت اور بے بسی کے اس حال کو نہ پہنچتی۔ شام و فلسطین، کشمیر، برما، آسام اور دیگر اسلامی ممالک لہو لہان نہ ہوتے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قوانین کو اپنانے کا راستہ تو آج بھی کھلا ہے۔ امت مسلمہ کو آج پھر عمر فاروق ثانی کی اشد ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں