219

امیر المومنین عمر فاروقؓ /تحریر/ شکیلہ منظور انصاری شکارپور سندھ

اسلامی تاریخ سیدنا عمر فاروق کے ذکر کے بغیر ادہوری ہے، عمر وہ جو سسر رسول، داماد علی، خلیفہ دوئم نام عمر

والد کا نام خطاب بن نفیل والدہ کا نام حنتمہ بنت ہشام بن المغيرہ کنیت ابو حفص لقب فاروق (یعنی حق اور باطل میں فرق کرنے والا)
قبیلہ بنو عدی حضرت عمرؓ کا نسب کعب بن لوی پر آکر نبیؐ کے ساتھ مل جاتاہے 
ولادت:- عام الفیل سے تیرہ سال بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی
حلیہ مبارک :-رنگ سفید  سرخی مائل قد لمبا لمبے بال گالوں پے گوشت کم
اسلام قبول کرنا:- ٧ نبوی میں دارالندوہ میں مشرکین مکہ کابینہ کا اجلاس ہورہا ہے ابو جھل کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ محمدﷺ نے اپنے آباو اجداد کے دین کو چھوڑ کر نیا دین بنالیا ہے ہمارے دیوتاوں کی برملا توہین وتنقیص کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بت کچھ نہین کر سکتے اب یہ بات ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے کون ہے جو محمد ﷺ  کا قصہ تمام کردے
ایک نوجوان اپنے آپکو پیش کرتا ہے کے میں حاضر ہوں
ادہر رحمت دو عالم  ﷺ جھولی پھیلا کر دعا فرماتے ہیں اللّٰھم اعز الاسلام بعمر ابن الخطاب او بعمرو بن الھشام یااللّٰہ عمر بن خطاب یا عمرو بن ھشام (ابوجھل) میں سے جو تیرے نزدیک بھتر ہو اسے ہدایت عطا فرما کر اسلام کی تائید ونصرت کا انتظام فرما (جامع الترمذی)
ایک صحابی دیکھتے ہیں کہ نوجوان عمر بن خطاب ننگی تلوار لے کر بپھرے ہوئے شیر کی طرح دارارقم کی طرف رواں دواں ہے۔صحابی فرماتے ہیں عمر! خیر تو ہے تیور بدلے ہوئے ہیں غصہ سے چھرہ لال پیلا ہے آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے کہتا ہے محمد ﷺنے پوری قوم کو پریشان کر رکھا ہے آپ کا سر قلم کرنے جارہا ہوں صحابی رسولﷺ فرماتے ہیں پھلے اپنی بھن بہنوئی کی خبر تو لو جو اسلام قبول کرچکے ہیں
عمر اپنی بہن فاطمہ کا دروازہ کھٹکہٹاتا ہے اندر سے قرآن پاک کی آواز آتی ہے جسے سن کر مزید غصہ آجاتا ہے دروازہ کھلتے ہی اپنی بہن پر حملہ آور ہوتے ہیں مار مار کر لہولہان کردیتے ہیں بہنوئی آتے ہیں تو انہیں بھی مارنا شروع کردیتے ہیں بہن فرماتی ہے عمرجس ماں کا تونے دودھ پیا ہے اسی کا مینے بھی پیا ہے جس باپ کا تو بیٹا ہے میں بہی اسی باپ کی بیٹی ہوں اب جان تو جاسکتی ہے لیکن ایمان نہین
بہن کی حالت دیکھ کر ترس آتا ہے اور کہتے ہیں دکھاو تم کیا پڑہ رہی تہی مجھے بہی سناو میں بھی تو دیکھوں اور پڑھ سکوں بہن کہتی ہے یہ کلام مقدس ہے اسے ناپاک ہاتھ نھیں لگا سکتے عمر جاکر غسل کرتے ہیں کپڑے بدل کر صحیفہ پڑہتے ہیں جس میں سورة طٰہٰ لکہی ہوتی ہے جس سے متاثر ہوکر حضور اکرمﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں تلوار ہاتھ میں۔ہوتی ہے صحابہ کرام پریشان ہوجاتے ہیں آپ ﷺ فرماتے ہیں آنے دو گویا آپ کے اس جملے کی کسی شاعر نے عکاسی کی ہے
*وہ آیا ہے تو آنے دو
بچھادو پلکیں وہ پہلا سا نہین لگتا بن کر دعاوں کا جواب آیا*
گویا عمر قاتل بن کر نہین آرہا بلکہ آپ ﷺ کی دعاوں کا جواب بن کر آرہا ہے عمر بن خطاب آکر اسلام قبول کرتے ہیں اور *اللّٰہ اکبر* کی صدائیں بلند ہوتی ہیں
*تائید اسلام*
نماز کا وقت ہوتا ہے تو آپ ﷺ نماز کی تیاری فرماتے ہیں اور صفیں تیار کی جاتی ہیں حضرت عمرؓ عرض کرتے ہیں آقا کیا پروگرام ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں نماز پڑہنی ہے حضرت عمر عرض کرتے ہیں کعبة اللہ میں کیوں نہین؟آپ  ﷺ نے فرمایا تیری قوم کعبہ میں نماز نہین پڑہنے دیتی حضرت عمرؓ عرض کرتے ہیں عمر بھی مسلمان ہو اور نماز چھپ کر پڑہیں یہ نہین ہوسکتا جس نے اپنے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرانا ہو تو میدان میں آئے ہم کعبہ میں نماز ادا کریں گے چنانچہ کعبہ میں نماز ادا کی گئی
فضائل واوصاف:-
حضرت سیدنا عمر فاروقؓ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے۔قرآن پاک کے متعدد احکامات آپؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم اور شراب کی حرمت۔ آپؓ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے
اللّٰہ رب العزت نے حضرت عمر کو حق کی حمایت کا جذبہ عطا فرمایا تھا حق بات کہتے حق بات کی تائید کرنا فطرت میں داخل تھا رحمت دو عالم ﷺ کا فرمان ہے اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی زبان و دل پر حق بات کو رکھ دیا مشکوٰة المصابیح)
ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جہاں سے عمر گذرتا ہے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے
*دور خلافت*
نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ تم میری سنت کواور ہدایت یافتہ خلفائے راشد ین کے طریقہ کو اختیار کرنا ۔(ابن ماجہ
حضرت عمر کا دور خلافت ایک سنہری دور ہے کہ بھیڑیے اور بکریاں ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہر طرف سے انصاف کا دور دورہ تھا
سیدنافاروق اعظمؓ کے دور میں عظیم فتوحات کی بدولت22لاکھ مربع میل تک اسلامی ریاست کی حدود پھیل گئیں اور اس وقت کی دو سپر طاقتوں روم اور فارس کو عبرت ناک شکست دی۔ *محمدﷺ کے صحابی کا وہ شانہ یاد آتا ہے*
*بدل کے بہیس گلیوں میں وہ جانا یاد آتا ہے*
*نجف اس عھد کی مائیں جب آٹے کو ترستی ہیں*
*عمر تیری خلافت کا زمانہ یاد آتا ہے*
سید ناعمر ؓ کی زندگی اور خلافت امت کے لئے امن وسکون اورکامیابی کا زینہ تھی
طبری میں ہے جب سیدنا عمر فاروق سفر حج سے واپس تشریف لائے اور بازار کا گشت فرما رہے تھے تو آپؓ سے ابولولو فیروز مجوسی ایرانی ملا اور کھنے لگا کے اے امیر المومنین مجھے مغیرہ بن شعبہ سے بچائیں یہ مجھ سے بہت خراج لیتا ہے آپؓ نے فرمایا تم اسے کتنا خراج دیتے ہو اس نے جواب دیا دو درہم روزانہ آپؓ نے پوچھا تم کیا کام جانتے ہو اس نے کہا میں کئی کام جانتا ہوں نجاری آہن گری اور نقاشی اس پر آپؓ نے فرمایا تمہارے پیشوں کے اعتبار سے دو درہم روزانہ زیادہ تو نہین مینے تو سنا ہے تو کہتا ہے میں چاہوں تو ھوا سے چلنے والی چکی بہی بنا سکتا ہوں تو وہ کہنے لگا ہاں تو فرمایا کہ مجھے ایک ایسی چکی بنا کے دو اس نے جواب دیا میں زندہ رہا تو آپ کے لیے ایسی چکی بناوں گا جس کو مشرق سے مغرب تک دنیا یاد کرے گی جب وہ غلام چلا گیا تو آپؓ نے فرمایا یہ غلام مجھے قتل کی دہمکی دے کر جارہا ہے چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ ٢٦ ذی  الحجہ ٢٣ ہجری کی فجر کی نماز کے لیے مسجد نبوی تشریف لائے صفیں درست کی گئیں تکبیر کہہ کر نماز شروع فرمائی کے ابولولو آپؓ کے پیٹ میں زھر آلود خنجر کے تین یا چھ وار کیے جس سے آپؓ گر پڑے اس کے بعد وہ مسجد سے بھاگا لوگ اسکے پیچھے بھاگے اسی خنجر سے کئی لوگ زخمی ہوگئے ایک آدمی نے اس پر اپنی چادر پھینکی اور اسے قابو کرلیا تو اس نے اسی خنجر سے اپنے آپکو قتل کردیا تاکہ سازش بے نقاب نہ ہو
زخم بہت گھیرے تہے علاج ومعالجہ کے باوجود یکم محرم الحرام کو جام شھادت نوش فرما گئے امیر المومنین کو روضہ اطھر میں آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر کے برابر میں  دفن کردیا گیا
*جب بھی تاریخ رقم ہوگی شھادت کی*
*عمر تیرا نام سر فھرست ہوگا*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں