43

اندھیرے سے اجالے تک/قسط نمبر 6/ناول نگار/عائشہ شیخ

یہ ایک فرضی اور اصلاحی کہانی ہے, جس کو ہلکا سا مزاحیہ انداز دیا گیا ہے۔ کرداروں کے نام فرضی ہیں


*(دو دن کے بعد صبح کالج میں)*
ھبا اور حدیقہ جیسے ہی کالج پہنچی تو گیٹ سے داخل ہونے کے بعد ان کی نظر ایک خاتون پہ گئی جنہوں نے نہایت ہی سلیقے اور نفاست کے ساتھ حجاب و نقاب کیا ہوا تھا, وہ بھی ان دونوں کو ہی دیکھ رہیں تھیں شاید, پہلے تو وہ دونوں پہچان نا پائیں, کیوں کہ اس سے پہلے ان کی ٹیچر ہمیشہ جینز اور coat میں ہی آیا کرتی تھیں۔
ھبا نے حدیقہ کو کہا: یار یہ تو Ma’am لگ رہی ہیں, ہاں مجھے بھی حدیقہ نے کہا۔
تو جیسے ہی کچھ آگے گئیں تو انہوں نے اپنی ٹیچر کو سلام کیا اور ٹیچر نے بہت ہی اچھے انداز میں ان کو جواب دیا, وہ ٹیچرز روم سے باہر ہی کھڑی ہوئی تھیں, شاید assembly conduct کروانی تھی انہوں نے۔
اس کے بعد ٹیچر نے دونوں سے کہا کہ بیٹا میں آپ سے شرمندہ ہوں, میں نے آپ کو بہت ذلیل کیا ہے بلا وجہ۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں(انتہائی عاجزی والا ان کا انداز تھا, شاید *وہ باہر* *سے زیادہ اندر سے بدلیں تھیں* اور جب انسان کا دل بدل جاتا ہے تو پھر ظاہر کی تبدیلی تو آنی ہی ہوتی ہے۔)
*حدیقہ* : نہیں نہیں ٹیچر آپ بالکل بھی معذرت نا کریں💞 بڑے معذرت نہیں دعا کرتے ہیں, آپ ہماری استقامت کے لیے دعا فرمائیں۔
*ٹیچر* : بیٹے اللہ آپ دونوں کو سلامت رکھے, *یوں ہی چراغ سے چراغ جلاتے رہنا۔*
*اندھیروں کو برا کہنے سے کچھ نہیں ہوتا, اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا* *ہوتا ہے۔* (غالبًا اشفاق احمد صاحب کا قول ہے)۔
*ھبا* : مجھے تو رونا آ رہا ہے۔
*حدیقہ* : جذباتی انسان یہاں تو چپ کر جاؤ🙈
(وقت گذرتا رہا تو دین کی وجہ سے ان کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا🤝🏻 اب وہ ٹیچر ان کی ایک مخلص رہنما بن چکی تھیں)
(اس کے بعد امتحانات ہوئے, چھٹیاں ہوگئیں اور سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*اس کے بعد ھبا کا حدیقہ کو ایک واٹس ایپ میسج*
*ھبا* : السلام علیکم, سنو حدیقہ میرے ساتھ مارکیٹ چلو گی ؟
*حدیقہ* : وعلیکم السلام, مارکیٹ چلوں! مارکیٹ میں تھک جاتے ہیں بہت, وقت بھی بہت ضایع ہوتا ہے۔ خیر تمہیں لینا کیا ہے؟
*ھبا* : ہاں وہ ایک ڈریس لینا ہے, ایک عبایا لینا ہے اور بھی کچھ دو تین چیزیں لینی ہیں۔
*حدیقہ* : عبایا لینا ہے, پھر ؟ اس دن ہی تو لیا ہے تم نے!
*ھبا* : ہاں لیکن یہ اسٹائل نیا ہے نا۔ یہ ابھی تک نہیں ہے میرے پاس۔ اور پتہ ہے کیا یہ میں نے ایک ایکٹریس کو دیکھا تھا ٹی وی پہ, تو وہی لینا ہے بس۔
*حدیقہ* : لیکن جہاں تک میرا اندازہ ہے تمہارے پاس ٧ یا ٨ عبایا پہلے ہی ہیں, پھر یہ فضول خرچی نہیں ہے ؟ اور عبایا صحابیات رضی اللہ تعالٰی عنھن کی پیروی سمجھ کے پہنا کرو نا کہ کسی ایکٹریس کی following میں!
*ھبا* : ہاں لیکن یہ بہت اچھا ہے نا, پتہ ہے یہ ریڈ کا ایک نیا شیڈ ہے تو اچھا ہے بہت۔
*حدیقہ* : عبایا ریڈ کلر میں ؟ عبایا ہی ہوگا یا کچھ اور؟
*ھبا* : ارے عبایا ہی ہوگا, اگر ریڈ نا ملا تو پھر پرپل یا ڈارک بلیو کلر میں لوں گی۔
*حدیقہ* : عبایا کو عبایا ہی رہنے دو فیشن نا بناؤ۔
*ھبا* : یہ بن چکا ہے۔
*حدیقہ* : لیکن تم حصہ نا لو۔ ویسے بھی ریڈ کلر کے عبایا میں تم بھوتنی لگو گی 🙈
*ھبا* : کیا؟ کیا کہا تم نے!  بھوتنی لگوں گی میں!  میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں 🙈 اچھا ٹھیک ہے میں بلیک کلر میں لیتی ہوں, پھر تم مجھے تمغہ امتیاز دو گی ؟
*حدیقہ* : نہیں!  میں تمہیں تمغہ بھوتنی دوں گی 🙈
*ھبا* : حد کرتی ہو 🙈 اچھا حدیقہ یہ بتاؤ جنت تو اللہ کے فضل و کرم سے ملے گی نا!  پھر ہم اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ؟ مطلب اتنی زیادہ پابندیاں! کیوں آخر ؟
*حدیقہ* : پہلی بات تو یہ کہ, یہ پابندیاں نہیں بلکہ قوانین و حدود ہیں۔
جس طرح کسی بھی ادارے یا سسٹم کو چلانے کے لیے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے تو ویسے ہی اسلام میں بھی کچھ قوانین ہیں, اسلام الحمداللہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے, کیا اس کے نظام کو ٹھیک رکھنے کے لیے اللہ نے کچھ قوانین و حدود نہیں رکھے ہوں گے ؟ اگر یہ قوانین و حدود نا ہوں تو ہر شخص فرعون بن جاۓ, جو شریعت کے قوانین کو بھول جاتا ہے وہ پھر فرعون بن جاتا ہے۔ پھر جائز اور ناجائز کی پرواہ نہیں رہتی, پھر خیر اور شر میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی, پھر حلال اور حرام ایک سے لگتے ہیں, پھر اللہ کی رضا مطلوب نہیں ہوتی دنیاوی مفادات ہی مطلوب ہوتے ہیں۔ پھر دوسرے کا حق مارنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے, پھر انصاف بہت مشکل سے ملتا ہے, پھر غلط کو صحیح بنا کے پیش کیا جاتا ہے, اللہ حفاظت فرماۓ, آمین۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں