103

بابل کی تباہی، ہاروت اور ماروت / تحریر حکیم شاکر فاروقی

بغداد شہر سے جنوب کی جانب ساٹھ میل دور دریائے فرات کے کنارے ایک شہر کے کھنڈرات ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں بڑی چہل پہل تھی۔ اونچے اونچے محل، قصرِ شاہی، ایوان، مضبوط قلعے، چھتے ہوئے بازار، لمبی راہداریاں، غلام گردشیں، سٹیڈیم، گودام، منڈیاں غرض انسانی عیش و عشرت اور آسائش و آرام کی ہر چیز موجود تھی۔ صدیوں تک اس شہر کی خوب صورتی، تہذیب و تمدن، بود و باش اور لیاقت و اہلیت کا چرچا رہا۔ آج یہاں مٹی تلے دبی تہذیب کی باقیات کا تماشا دیکھنے دنیا آتی ہے۔ یہ بابل شہر ہے، کلدانیوں کا پایہ تخت…… سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ولادت یہیں ہوئی۔ اس شہر نے بہت نشیب و فراز دیکھے۔ صدیوں تک مرجع عام و خاص بنا رہا۔ اسی سرزمین پر نمرود نے خدائی کا دعوی کیا، سکندر ذوالقرنین نے اسے فتح کیا اور بخت نصر نے بھی یہودیوں کو اسی جگہ غلام بنا کر رکھا، سیدنا سلیمان علیہ السلام کی حکومت بھی اسی جگہ قائم تھی۔
اہل بابل سفلی عملیات Occult Science کے بہت ماہر سمجھے جاتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام نے اپنی قوم میں موجود ایسی تمام کتب ضبط کر لی تھیں تاکہ سحر و کہانت کی حوصلہ شکنی ہو اور لوگ ایک دوسرے سے دشمنی پالنے اور نقصان پہنچانے کی بجائے اللہ وحدہ لاشریک کی جانب رجوع کریں۔ ان کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد شیطان نے ان کی قوم یعنی بنی اسرائیل کو ورغلانے کی پوری کوشش کی۔ انہیں باور کرایا کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی حکومت جادو کے زور پر قائم کر رکھی تھی۔ دلیل کے طور پر ضبط شدہ کتب کی جانب نشان دہی کی۔ حالانکہ یہودی مذہب کے مطابق جادو حرام تھا تو کیسے ایک پیغمبر یہ قبیح حرکت کر سکتے تھے؟ مطلب پرست یہودی انہیں بھی اپنے اوپر قیاس کر بیٹھے اور ان پر نعوذبااللہ شرک کا الزام دھر دیا۔ (سلاطین 1:4)
بابل کا ماحول پہلے ہی سحر زدہ تھا۔ جادو ٹونا آرٹ کا درجہ رکھتا تھا۔ معبد خانے اس کا گڑھ تھے۔ یہاں بڑے بڑے جادوگر رہتے تھے۔ اوپر سے یہودیوں نے بھی کہرام مچا رکھا تھا۔ باوجود کتب سماوی اور دین الہی سے واقفیت رکھنے کے، جادو کو معجزہ پیغمبری جیسا درجہ دیتے تھے۔ یہ لوگ بھائی کو بھائی سے اور شوہر کو بیوی سے جادو کے زور پر لڑاتے۔ نامحرم مرد و خواتین کے ناجائز تعلقات قائم کرواتے۔ کاروبار کی بندش، قطع رحمی اور سفلی علوم کے زور پر کسی کی جان لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ یہ لوگ خاص حالات میں انسانی شکل تک تبدیل کر دیتے۔ شیطان کی کھلے عام پوجا ہوتی اور تعویذات میں اس سے مدد مانگی جاتی۔
ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے جادو کی حقیقت بتانے اور بطور آزمائش دو فرشتوں ہاروت اور ماروت کو بھیجا۔ آرمینیائی زبان میں ہاروت کا مطلب ‘‘زرخیز‘‘ اور ماروت کا مطلب ‘‘بغیر موت‘‘ ہے۔ ان فرشتوں نے آ کر مقامی لوگوں کو جادو کی حقیقت سے آگاہ کرنا شروع کیا۔ شر پسند لوگ بہانے بہانے سے آتے اور ہاروت ماروت سے جادو پوچھتے، یہ بتا دیتے۔ جیسے کوئی کسی طبیب سے پوچھے کہ فلاں زہر کیسے بنتا اور کام کرتا ہے؟ طبیب پورا طریقہ بتا دے، پوچھنے والا اس زہر سے بچنے کی بجائے اسے بنائے اور کسی کو کھلا دے۔ اسی طرح شرپسند ان سے جادو کے بارے میں پوچھتے اور باہر آ کر اس سے بچنے کی بجائے دوسروں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے۔ فرشتے انہیں اچھی طرح باور کراتے کہ ہم تمہارے لیے آزمائش ہیں، لہٰذا اپنے آپ کو اس کام سے بچاؤ لیکن بگڑی عوام ان کی نصیحت ہوا میں اڑا دیتی۔
کچھ مفسرین نے ہاروت ماروت سے منسوب ایک روایت بیان کی ہے کہ یہ بشری تقاضوں سے سرفراز ہونے کے بعد زہرہ نامی خاتون کے ساتھ ملوث ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یعنی ہاروت اور ماروت کو بطور سزا کنویں میں الٹا لٹکا دیا اور یہ سزا ان کی قیامت تک جاری رہے گی۔ لیکن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ اور دیگر مفسرین نے عقلی و نقلی دلائل سے اس واقعہ کا رد کیا اور ثابت کیا کہ یہ سراسر جعلی و من گھڑت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جادو کے نتیجے میں بابل و اہل بابل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ آج اتنی ترقی یافتہ قوم کے تذکرے محض تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ البتہ یہود بے بہبود کو اللہ تعالیٰ نے باقی رکھا ہے۔ آج بھی دنیا کے سخت ترین جادو ‘‘قبالہ‘‘ کے ماہرین یہودی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت و مسکنت مسلط کر دی ہے۔ پیغمبروں کی گستاخی کا خمیازہ ان کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ یہودیوں کے انجام سے وہ نام نہاد مسلمان ڈریں جو وحدانیت الہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی گواہی دینے کے باوجود ٹونے ٹوٹکوں، تعویذ گنڈوں، شرکیہ منتروں اور جادو کے ذریعے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو ساری زندگی مسلمان کہلانے کے باوجود آخرت میں صف دشمناں میں جگہ ملے۔

لکھو کے ساتھ لکھو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں