یومِ بدر اسلام کی تاریخ کا وہ درخشندہ باب ہے، جس میں حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہوا۔ یہ محض ایک جنگ نہ تھی، بلکہ ایک الٰہی آزمائش تھی، جس میں ایمان، اخلاص اور قربانی کے اعلیٰ ترین نمونے سامنے آئے۔ یہ وہ دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی سر بلندی کے لیے فرشتوں کو میدان میں اتارا، جب زمین پر اللہ کی مدد کا ظہور ہوا اور جب یہ طے ہو گیا کہ زمین پر اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا، چاہے دشمنانِ اسلام کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے جانثار صحابہ کرامؓ مکہ میں تیرہ سال تک کفار کے ظلم و ستم کا سامنا کرتے رہے۔ انہیں بے پناہ تکلیفیں دی گئیں، ان کے اموال لوٹے گئے، گھروں سے بے دخل کر دیا گیا، حتیٰ کہ کئی صحابہ کو شہید کر دیا گیا۔ جب ظلم حد سے بڑھا تو نبی کریم ﷺ کو مدینہ ہجرت کرنی پڑی، مگر کفار مکہ نے وہاں بھی مسلمانوں کو چین سے نہ رہنے دیا اور برابر جنگ کی تیاری کرتے رہے۔
ابو سفیان کا ایک قافلہ شام سے مالِ تجارت لے کر مکہ واپس آ رہا تھا۔ یہ مال دراصل انہی مسلمانوں کا تھا، جو ان سے زبردستی چھینا گیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس قافلے کو روکنے کے لیے 313 جاں نثاروں کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ مقصد جنگ نہ تھا، بلکہ صرف مسلمانوں کا حق واپس لینا تھا۔ مگر جیسے ہی ابو سفیان کو مسلمانوں کی آمد کا علم ہوا، اس نے اپنا راستہ بدل لیا اور مکہ میں قریش کو جنگ کے لیے اکسا دیا۔ چنانچہ قریش نے ایک ہزار کا لشکر تیار کیا، جس میں جنگی ساز و سامان، گھوڑے، زرہیں اور نیزے شامل تھے۔ ان کے دلوں میں غرور تھا کہ وہ چند مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیں گے، مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ اللہ کی مدد ایمان والوں کے ساتھ تھی۔
جب نبی کریم ﷺ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ بدر پہنچے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت مقدادؓ نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑیں، بلکہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم دیں تو ہم کود جائیں گے۔ ہم آپ کے ساتھ لڑیں گے، دشمن کا مقابلہ کریں گے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جان بھی دے دیں گے!” یہ وہ تاریخی الفاظ تھے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کو خوش کر دیا۔ آپ ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ دعا کی: “اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی، تو پھر روئے زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا!” جنگ کا آغاز مبارزت یعنی تنہا مقابلے سے ہوا۔ قریش کے تین نامور سردار، عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلے۔ ان کا سامنا حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ سے ہوا۔ حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ نے اپنے مقابلین کو فوراً قتل کر دیا، جبکہ حضرت عبیدہؓ کو زخم آئے، مگر مسلمانوں نے میدان مار لیا۔ پھر عام جنگ شروع ہو گئی۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد بھیجی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: “جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کر لی کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو پے در پے آئیں گے۔” (الأنفال: 9) یہ وہ غیبی مدد تھی، جس نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کر دیے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ کفار کی گردنیں خود بخود کٹ جاتی تھیں، جیسے کسی غیبی طاقت نے انہیں مارا ہو۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم دیکھتے تھے کہ دشمنوں کے چہروں پر ایک سفید چمک دار روشنی نظر آتی تھی، اور وہ اچانک زمین پر گر پڑتے تھے۔
ابوجہل جو اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا،اس پر حضرت معاذ اور حضرت معوذ رضی اللہ عنہما دوچھوٹے بچوں نے ایسا حملہ کیا اس کا گھوڑا بھی زخمی ہوا وہ خود بھی میدان میں زخمی ہو کر گرا۔پھر فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس کے پاس پہنچے اور اس کے سینے پر قدم رکھا۔ وہ تکبر سے بولا: “تم نے آج کسی بڑے آدمی کو مارا ہے!”حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: “ہاں، تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا سب سے بڑا دشمن تھا!” پھر حضرت عبداللہؓ نے اس کا سر قلم کر دیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“یہ تھا اس امت کا فرعون!”
اس جنگ میں ستر کفار مارے گئے، جن میں ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید اور امیہ بن خلف جیسے بڑے سردار شامل تھے، جبکہ ستر قریشی قیدی بنا لیے گئے۔ مسلمانوں کے صرف چودہ افراد شہید ہوئے۔
یومِ بدر کا پیغام
یومِ بدر ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ دنیا کی طاقتیں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں، اگر ایمان، اخلاص اور توکل مضبوط ہو تو اللہ کی مدد ضرور آتی ہے۔ یہ دن ثابت کرتا ہے کہ اصل فتح تعداد، اسلحے اور مال و دولت سے نہیں، بلکہ اللہ کی نصرت، استقامت اور قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم اللہ کے دین کے لیے نکلیں، اگر ہم اللہ کی رضا کے لیے اپنی جانیں، مال اور وقت لگائیں، تو اللہ کی مدد آج بھی ہمارے ساتھ ہو سکتی ہے۔
یہ دن ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ اللہ کے وعدے سچے ہیں:
“اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔” (محمد: 7)
یہ دن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو چکا ہے۔ ہر سال 17 رمضان کو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم اپنے دین پر سچے دل سے عمل کریں، اس کی دعوت کو عام کریں، اور مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہیں، تو اللہ کی نصرت ہمارے لیے بھی ایسے ہی آئے گی جیسے بدر کے دن صحابہ کرامؓ کے لیے آئی تھی۔
اقبال کا نغمۂ بدر:
یہ غازی، یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
یہ امت ہوئی زخم خوردہ کبھو تھی
کہ تھی ابتدا ہی سے قربان گاہی
یقین، جہاد اور توکل کی راہ پر چلنے والوں کے لیے، ہر دن “یومِ بدر” بن سکتا ہے۔