فیمنزم کا لفظ سنتے ہی معاشرے کے ذہن میں ایک ہی خیال آتا ہے ” گندگی ”
بدقسمتی سے پاکستان جیسے خطے میں فیمنزم بدنام زمانہ ہے یہاں کے اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ جو لوگ فیمنزم کی بات کرتے ہیں انہیں آزادانہ جنسی تعلقات چاہیئے اور وہ بے لباس ہو کر معاشرے میں گھومنا چاہتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے
فیمنزم سے انہیں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے احسن بودلہ نے اپنی سی کوشش کی ہے کتاب کا آغاز فیمنزم کی تحریک کا آغاز کب ہوا وہاں سے ہوتی ہے اسکی اقسام پر تفصیلی بات کی گئی ہے کہ فیمنزم کتنی اقسام کی ہوتی ہے اور اسی کے حساب سے لوگ اپنے آپ کو فیممنسٹ کہتے ہیں ہر فیمنزم کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں جیسے مارکسزم فیمنزم میں طبقات کی مساوات کی بات کی جاتی ہے لبرل فیمنزم صنفی مساوات کی بات کرتا ہے جس میں جمہوری نظام کے ذریعے سے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں آج آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف شعبہ جات میں عورت کام کر رہی ہے تو وہ اسی فیمنزم کی تحریک کی بدولت ہے جس نے عورتوں کے لئے راہیں ہموار کی ہے ریڈیکل فیمنزم جس سے تقریباً تمام فیممنسٹ جڑے ہوتے ہیں جو کہ پدرشاہی سوچ اور نظام کے خلاف لڑتا ہے جس میں عورتوں کے استحصال کی بڑی وجہ پدرشاہی سوچ ہے اور اس سوچ کے خاتمے میں ریڈیکل فیممنسٹ تحریک چلاتا ہے تاکہ عورتوں کو بھی انسان ہونے کے ناطے تمام حقوق حاصل ہو ۔
خواتین کا عالمی دن آٹھ مارچ کو کیوں منایا جاتا ہے اسکے پیچھے بھی ایک ارتقائی پہلو ہے اس دن روس میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا تھا جو کہ ایک بڑی تحریک کی وجہ سے ممکن ہوا تھا اور اس وقت اس تحریک سے روس کی حکومت کے برج الٹ گئے تھے یہ وہ خواتین تھی جو بڑی پیمانے پر امن اور سلامتی کے لئے ہڑتال کی تھی اور پھر انہیں خواتین کی جرآت کو دیکھتے ہوئے یہ دن خواتین سے منسوب کردیا گیا اور آج بھی عظیم عورتوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یہ دن منایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ دن بھی فحاشی سے ہی منسوب کیا جاتا ہے
اسکے بعد کتاب کے اگلے مرحلے میں پاکستان میں فیمنزم کی تحریک کی بات کی گئی ہے پاکستان میں حقوق نسواں کی تحریک تین مراحل پر مشتمل ہے جس میں پہلا مرحلہ 1947 سے ہیں اور دوسرا ڈکٹیٹر ضیاء کے بعد اور تیسرا نائن الیون کے بعد لیکن 2018 میں چوتھا مرحلہ شروع ہوا جس میں باقاعدہ عورت مارچ کا آغاز ہوا تھا
فیمنزم سے جڑے مغالطے جو اس کتاب کا موضوع ہے جس میں بیشتر لوگوں کو لگتا ہے فیمنزم مردوں سے نفرت کا نام ہے یہ عورتوں کا آزادانہ جنسی تعلقات کی اِجازت دینا ہے یہ مغربی تحریک ہے جس سے یہاں مغربی قانون نافذ ہو جائے گئے فیممنسٹ مذہب مخالف ہوتے ہیں وہ دین چھوڑ چکے ہوتے ہیں فیمنزم سے فحاشی پھیلے گی حالانکہ یہ مقاصد فیمنزم کی تحریک میں شامل ہی نہیں ہے فیمنزم تو صرف عورتوں کو پڑھائی کا حق ، پسند کی شادی ، نوکری ، کاروبار ، ہراسمنٹ سے بچاؤ ،ریپ سے بچاؤ ، تیزاب گردی اور میریٹل ریپ کے روک تھام کی بات کرتا ہے جس میں عورت کو کھلی فضا میں سانس لینے کی اجازت ملے
پاکستان میں فیمنزم کیوں ضروری ہے یہ مختلف واقعات کے پیش نظر کہا جاتا ہے جس پر مصنف نے تفصیلی مضمون لکھے ہیں جس میں زرینہ بلوچ ، دعا منگی ، سلمیٰ بروہی کی کہانیاں موجود ہے محسن عباس جیسے مساجنسٹ مردوں کا بھی قلع قمع کیا گیا ہے
عورتوں کے نفسیاتی پہلو پر بھی بات کی گئی ہے جس میں وہ کیوں اپنے ساتھ فیممنسٹ ہونے کا لقب نہیں لگانا چاہتی ہے وہ معاشرے سے خوفزدہ کیوں ہے جس میں وہ اپنی صنف کے مخالف جا کر کھڑی ہو جاتی ہے وہ پلے کارڈز پر لکھے نعرے “میرا جسم میرا مرضی ” سے کیوں کتراتی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ایسے شعبہ جات سے ہیں جن میں وہ اپنی مرضی سے لباس کا انتخاب کرتی ہے اور کام کر رہی ہے لیکن خود کو فیممنسٹ کہلوانے سے ڈرتی ہے
اسکے علاوہ کئی اہم موضوعات پر بات کی گئی ہے آپ کو کسی حد تک کتاب میں بے ترتیبی محسوس ہو سکتی ہے لیکن یہ مصنف کی پہلی کتاب ہے اور پہلی کوشش ہے اس لئے یہ عام بات ہے امید ہے انکی اگلی کتابوں میں یہ بے ترتیبی کا عنصر نظر نہیں آئے گا اور ہمیں اس سے بھی اچھی کتاب پڑھنے کو ملے گی
