19

یوم وفات مع سیرت حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا/تحریر/ ابوبکرصدیق کوہاٹی

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہو کر برستی برسات کی طرح انتہائی تیزی کے ساتھ گزرتا جا رہا ہے، الله ہمیں اس کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے۔
آج صبح، تلاوت کرتے ہوئے اچانک دو واقعات ذہن پر آئے جو دوسرے عشرے میں ہی “17 رمضان المبارک” کو پیش آئیں تھے، ایک “غزوہ بدر” جبکہ دوسرا، جو آج کا میرا عنوان بھی ہے میری مراد، “یوم وفات”۔
اس ہستی کی یومِ وفات جس کو اُم المومنین، اُم المومنات، رفیقۂ حیات، رحمتِ کائنات جس کو میں صدیقہ لکھوں یا آقا کی رفیقہ۔ کائنات میں لئیقہ، زندگی باسلیقہ۔ شاندار طریقہ لکھوں کہ مصطفیٰ کی حبیبہ لکھوں، نبوت کے قریبہ یا شان میں عجیبہ، نبوت کی عندلیبہ لکھوں کیوں نہ حبیبِ خدا کی حبیبہ لکھوں، حمیرا لکھوں، طیبہ و طاہرہ لکھوں، محمد کے دل کی تسکین یا صدیقہ بنت صدیق لکھوں، کائنات میں بہترین لکھوں، محمد کے دل کی تسکین لکھوں جو بھی لکھوں وہ ہے ہی اتنی پاکیزہ، طیبہ، طاہرہ جن کو کسی بھی نام و لقب سے پکارا جائے اس پر پورا اترتی ہیں۔ میری مراد سیدہ، طیبہ، طاہرہ امی عائشہ صدیقہ رضی الله عنها ہے۔

نام، کنیت مع لقب:
آپ کا نام “عائشہ” ہے جبکہ کنیت “اُم عبدالله” جو خود حضور نے یوں کہہ کر منتخب فرمایا: “فاکتنی بإبنِکِ عبدالله بن الزبیر یعنی ابن اختھا”۔ “میں تجھے تیرے بیٹے یعنی تیرے بھانجے عبدالله بن زبیر کے نام کی کنیت دیتا ہوں”.
القبات کی بات کی جائے تو کافی القابات سے آپ کو نوازا گیا جن میں سے چند یہ ہے:
ام المومنین ، رسول کی حبیبہ ، المبراۃ، الطیبہ، الصدیقہ ، الحمیرا وغیرہ

ولادت:
آپ کی تاریخ ولادت میں اگرچہ اختلاف ہے تاہم امام محمد بن سعد (رحمه الله) نے آپ کی تاریخ پیدائش نبوت کے “چوتھے سال “مکہ مکرمہ” میں بیان کی ہے جبکہ بعض نے پانچویں سال کا اخیر بیان فرمایا ہے۔
آپ کے تین بھائی جبکہ دو بہنیں تھی۔

فضائل:
حدیث کے باب میں اگر آپ کے فضائل کو دیکھا جائے، تو فرشتہ آپ کی تصویر لیے حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے نظر آتا ہے،
آپ ہی وہ ذات ہے جس کے لیے جبرائیل علیه السلام بھی “سلام” کیا کرتے تھے (بخاری)
آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رض کی فضیلت کو یوں بیان کیا کہ “حضرت عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت بقیہ تمام کھانوں پر ہے (بخاری)
آپ ہی وہ بابرکت ذات ہے جس کی بدولت امت کےلیے “تیمم” جیسی نعمت نصیب ہوئی۔(بخاری)
آپ کی فضیلت اتنی بڑھ کر ہے کہ آپ ﷺ کسی موقع پر “ام سلمہ (رض)” سے ارشاد فرمایا: “اے ام سلمہ عائشہ (رض) کے بارے میں مجھ کو نہ ستاؤ۔ الله کی قسم! تم میں سے کسی بیوی کے لحاف میں (جو میں اوڑھتا ہوں سوتے وقت) مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی، ہاں (عائشہ کا مقام یہ ہے) کہ ان کے لحاف میں وہی نازل ہوتی ہے۔

نکاح مبارک:
10 نبوی شوال کے مہینے میں پانچ درہم حق مہر طے کر کے حضورﷺ نے حضرت عائشہ (رض) سے نکاح کیا۔ خود حضرت عائشہ کی زبانی ہے کہ “میں چھ سال کی تھی حضورﷺ نے مجھ سے نکاح کیا”
جسے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے خود پڑھایا.

عبادت:
عبادت کا یہ حال تھا کہ تہجد باقاعدگی سے ادا فرماتی رہ جانے ہر دن میں ادا کرلیتی، نماز چاشت کا اہتمام اور رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام کرتی، کبھی ساری رات عبادت میں مشغول ہوکر روتے ہوئے گزجاتی۔

علم:
اگر حضرت عائشہ(رض) کے علم کو دیکھا جائے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ(رض) سے حاصل کرو۔ حضرت عبدالله بن مسعود(رض) فرماتے ہیں کہ پوری امت کا آدھا علم حضرت عائشہ(رض) کے پاس تھا۔ ترمذی میں حضرت ابوموسیٰ(رح) سے روایت ہے صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم پر کوئی مشکل بات پیش نہ آتی مگر اس کا حل ہمیں عائشہ(رض) سے مل جاتا۔ آپ(رض) ان صحابہ میں سے ہے جن سے کثرت کے ساتھ احادیث مروی ہے یہ کل سات صحابہ کرام ہیں جن میں آپ (رض) بھی شامل ہیں، آپ سے تقریباً 2210 روایات مروی ہے۔

پردہ:
آپ پردے کا خصوصی اہتمام فرماتی تھی، “آیت حجاب” کے بعد پردے کا انتہائی اہتمام کرتی تھی یہاں تک کہ طواف کے حال میں بھی چہرے پر نقاب ڈالا کرتی تھی۔ اسحاق تابعی (رح) نابینا تھے سیدہ(رض) کی خدمت میں آئے آپ (رض) نے ان سے بھی پردہ کیا، اس نے کہا میں تو نہیں دیکھتا تو فرمایا “تم نہیں دیکھتے میں تو دیکھتی ہوں”، محارم کے علاوہ سے پردہ کیا حتی کہ حضرت عمر(رض) کے دفن ہونے کے بعد حجرہ نبویﷺ میں بغیر پردہ نہ جاتی تھی۔

چند کمالات خود سیدہ(رض) کی زبانی:
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے الله نے عظیم نعمتیں عطا فرمائیں:
1: میں ہی ہوں جو کنواری حالت میں حضورﷺ کے عقد نکاح میں آئی۔
2: حضور کو مجھ سے اتنی محبت تھی کہ پانی پینے کے وقت برتن کی جس جگہ سے میں منہ لگاتی حضورﷺ اسی جگہ سے منہ لگا کر پیتے۔
3: کبھی ایک لقمہ میں اٹھاتی حضور ﷺ اس کو دو حصے کر لیتے آدھا میں کھاتی اور باقی آدھا حضورﷺ کھاتے۔
4: حضور سے میرا نکاح شوال میں ہوا اور شادی بھی شوال میں ہوئی، شوال میں میرے نکاح سے رسمِ جاہلیت کے بیخ کنی کی گئی۔
5: جب آپ میرے بستر پر ہوتے تو حضورﷺ پر وہی نازل ہوتی، جبرائیل قران لے کر آتے۔
6: میں بستر پر پیغمبر کے ساتھ ہوتی تو جبرائیل مجھ پر الله کا سلام لاتے۔
7: میں وہ ہوں کہ جس پر جبرائیل نے سلام کہا اور میں نے سلام کا جواب دیا۔
8: میں وہ ہوں کہ غزوہ بدر میں حضورﷺ نے میرے دوپٹے کو اسلام کا پرچم بنایا تھا۔
9: میں وہ ہوں کہ مجھ سے حضورﷺ کو طبعی طور محبت تمام بیویوں سے زیادہ تھی۔
10: میں وہ ہوں کہ آخری وقت میں حضورﷺ نے جب مسواک منگوایا تو میں نے چبا کر نرم کرکے دیا پھر مسواک حضورﷺ نے فرمائی۔ تو آخر میں الله نے میرے لعاب اور حضورﷺ کی لعاب کو جمع کر دیا۔
11: میں وہ ہوں کہ مرض الوفات کے آخری ایّام حضورﷺ نے میرے حجرے میں گزارے۔
12: میں وہ ہوں جس پر تہمت لگی تو الله نے صفائی کےلیے خود گواہی دی۔
13: میں وہ ہوں کہ جب سوئی ہوتی اور حضورﷺ اٹھ کر تہجد پڑھتے، جگہ تنگ ہوتی تو حضور محبت سے مجھے بیدار نہ کرتے۔
14: میں وہ ہوں کہ میری وجہ سے تیمم کی آیت نازل ہوئی۔
15: میں وہ ہوں کہ ایک مرتبہ 3 بار دعوت پر جب کسی نے بلایا تو آپ میرے بغیر نہیں گئے یہاں تک کہ ساتھ مجھے بھی مدعو کیا گیا۔
16: میں وہ ہوں جس کے ساتھ حضور نے دوڑ لگائی۔
17: میں وہ ہوں کہ حضور آخری وقت میری گود میں تھے۔
18: میں وہ ہوں کہ حضور کی وفات میرے حجرے میں ہوئی۔
19: میں وہ ہوں کہ حضور کی وفات میری باری کے دن ہوئی۔
20: میں وہ ہوں کہ حضور کا دفن بھی میرے حجرے میں ہوا۔

اشعار:
شرف تیرے دوپٹے نے یہ جنگِ بدر میں پایا
اسے پرچم بنا کر مخبر صادق نے لہرایا
خدائے لم یزل سے بارہا تجھ کو سلام آیا
مبارک ہیں وہ لب ادب سے جن پر تیرا نام آیا
کلام الله کی روح سے ہے صدیقہ لقب تیرا
فقط فرشی نہیں عرشی بھی کرتے ہیں ادب تیرا

وفات:
حضرت عائشہ (رضی الله تعالیٰ عنها) حضرت “امیر معاویہ” (رضی الله عنه) کے دور حکومت، 58ھ ، رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں بیمار ہوئی اور “17 رمضان المبارک” کو “64 سال” کی عمر میں دنیا سے پردہ فرماگئی۔
(انا لله وانا الیه راجعون)

جنازہ مع تدفین:
آپ کی نماز جنازہ حضرت “ابوہریرہ” (رضی الله عنه) نے پڑھائی۔ آپ کو “جنت البقیع” میں رات کے وقت دفنایا گیا۔

دعا:
الله تعالی امی جان پر اس بابرکت مہینے کے توسط سے کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں