93

دو سہیلیاں

تحریر: عائشہ شیخ

https://www.facebook.com/likhoorg?mibextid=ZbWKwL

بچپن کی یادیں ساتھ لے کہ دو سہیلیاں اب بڑی ہوگئی تھیں۔ بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیاں بھی مختلف ہو رہی تھیں۔ طرز زندگی جدا ہو تو مزاج بھی الگ ہی ہوجاتے ہیں۔
رابعہ ایک سلجھی ہوئی لڑکی تھی جو اپنے گھروالوں سے بے حد مخلص تھی۔ اس نے اپنے آپ کو پورے طریقے سے گھر والوں کی مرضی کے مطابق ڈھال لیا تھا لیکن ایک خطا جو اس سے سرزد ہوئی وہ یہ تھی کہ وہ اپنے رب سے زیادہ اپنے گھروالوں کو اہمیت دیتی تھی یوں اس نے اپنی شناخت اور مضبوطی بھی کھو دی تھی۔ انسان تو پھر انسان ہی ہیں! انسانوں کے سہارے کب مضبوط ہوتے ہیں؟ کب پورا بدلہ دے پاتے ہیں؟ کب قدر کر پاتے ہیں؟
رابعہ جو یہ محسوس کر چکی تھی کہ اس نے ناقدروں پہ اپنی زندگی لٹائی ہے وہ ایک بے سکونی سی کیفیت میں آگئی تھی کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ہے؟ اسی سوال کا جواب لینے وہ اپنی بچپن کی سہیلی کے پاس پہنچی جو کہ اب ایک با عمل عالمہ بن چکی تھی۔ دو سہیلیاں یوں ملیں جیسے عرصہ دراز کے بعد دو بچھڑی ہوئی بہنیں ملیں۔ بچپن کی یادیں، مستقبل کی فکریں،حال وقت کے تقاضے اور حال دل کرتے کرتے کب گھنٹوں گذرے کہ دونوں کو محسوس ہی نا ہوا۔ سارہ دل سے رابعہ کے لیے فکرمند اور دعاگو تھی۔ سارہ نے رابعہ کی ساری باتیں سن لی تو رابعہ کو یوں محسوس ہوا گویا اس کا دل ہلکا ہو گیا ہو، سارہ نے اپنی دوست کو سمجھاتے ہوئی کہا “دیکھو رابعہ یہ دنیا ہے، یہ جنت کبھی نہیں بنے گی۔ جنت کو پانے کے تو اللہ کریم کو راضی کرنا ضروری ہے۔ جو انسان اللہ کے ساتھ اپنا دل لگا لے اپنی ہر ضرورت اس کے آگے رکھ دے، لوگوں کے رویوں سے بے نیاز ہو جائے تو وہ انسان پھر پر سکون ہو جاتا ہے۔ اس کو پھر لوگوں کا ستانا، ان کی نا قدری، ان کے برے رویے، اپنی طرف بڑھتی ہوئی تلخیاں پھر اس کو ہلکی لگنے لگتی ہیں، لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں۔ رب سے یہ مضبوطی مانگنی پڑتی ہے۔ تو تم بھی اللہ لے آگے جھک جاؤ، اس سے مانگو کہ وہ تمہیں لوگوں کے رویوں سے بے نیاز کر دے”
رابعہ یہ سب سن کے آبدیدہ ہوگئی تھی۔ سارہ نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور اس کو مسلسل دعائیں دے رہی تھی جس سے رابعہ پر سکون ہو گئی تھی اور اس کو اب سمجھ آنے لگا تھا کہ وہ غلطی کہاں کر رہی تھی!
اب جب اس نے اپنی ترجیحات بدلیں، اپنا مزاج بدلہ، اپنی مضبوطی کا سہارا لوگوں کو بنانے کے بجائے اپنے رب کو بنایا تو وہ خود کو اندر سے بہت پر سکون، مطمئن اور مضبوط سمجھ رہی تھی۔
مخلص تو وہ اب بھی تھی لیکن فرق صرف یہ آیا کہ وہ اب اللہ کو سب سے آگے اور اعلی رکھتی تھی اور پھر جو اللہ کو تھام لیتا ہے اللہ اس کو تھام لیتا ہے۔

دو سہیلیاں کیا ملیں الجھی ہوئی ڈور سلجھ گئی

https://likho.org/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں