خواتین کی عید کی تیاریاں ہوں اور بات صرف کپڑوں تک محدود رہے ایسا ممکن نہیں! کپڑے تو عید کے دن کی تیاری ہیں، لیکن خواتین کی عید چاند رات سے ہی شروع ہوجاتی ہے، اور چاند دیکھتے ہی ہر طرف مہندی کی سہانی سی خوشبو پھیل جاتی ہے، لڑکیاں باقی کام چھوڑ کر اپنے ہاتھوں کو مہندی سے سجانے میں مشغول ہو جاتی ہیں، اس کام کے لیے اکثر تو بہنیں اور کزنیں ہی ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں، لیکن زیادہ تر مشاہدے میں محلے کی کوئی ایک تجربہ کار لڑکی دیکھنے کو ملتی ہے

خواتین کائنات کا رنگ ہیں، اور عید رنگوں کے اظہار کا مضبوط ذریعہ، یہی وجہ ہے کہ عید آتے ہی دو طبقات بڑی شد و مد کے ساتھ عید کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں، ایک بچے اور دوسری خواتین۔ ویسے تو عید الفطر پوری دنیا میں ہی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، ہر ملک اور خطے کے افراد اپنی اپنی ثقافت کے مطابق لباس زیبِ تن کرتے ہیں اور اپنی مروجہ تہذیب کے مطابق ہی رسوم و رواج کی ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو مختلف ممالک میں مخصوص روایتی لباس ہی ہوتے ہیں، جو شاید بہت زیادہ تںوع اور وسعت نہیں رکھتے، جب کہ برصغیر پاک و ہند زندہ دل لوگوں کا خطہ ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر فرد دوسرے سے ممتاز نظر آتا ہے، اور خواتین تو اس معاملے میں باقاعدہ کوشش بھی کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ عید پر رنگا رنگ لباسوں کا انتخاب خواتین کی اولین ترجیح ہوتا ہے۔ ہر خاتون دوسرے سے منفرد نظر آنے کی کوشش کرتی ہے، اس کے لیے خطے کی ثقافت کے مطابق زیادہ تر شلوار قمیض ہی کو ترجیح دی جاتی ہے، بلکہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سی ایسی خواتین جو عام دنوں میں شلوار قمیض کے علاوہ لباس پہنتی ہیں وہ بھی عید کے موقع پر روایتی شلوار قمیض کو ہی ہی ترجیح دیتی ہیں، یہ الگ بات ہے مردوں کی طرح عورتوں کی شلوار قمیض کا ایک ہی ڈیزائن نہیں ہوتا، بلکہ غرارہ، شرارہ، کرتی، لہنگا، فراک، فرشی، عرشی، جیسی بیسیوں اقسام خواتین کے کپڑوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہر خاتون اپنے ذوق کے مطابق لباس کا انتخاب کرتی ہے۔ عید کے لباس کی تیاریاں رمضان کے قبل ہی شروع ہو جاتی ہیں، اور رمضان کے دوران یہ مزید برھ جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ رمضان کی راتوں میں شاپنگ مالز اور مارکیٹوں میں خواتین کا رش بڑھ جاتا ہے، جو ان کے دلوں میں عید کے تہوار کی اہمیت اجاگر کرتا ہے، یقیناً دن بھر کام کرنے کے بعد پورے 4 سے 5 گھنٹے مارکیٹ میں گھومنا، لباس پسند کرنا، ان سے ملتی جلتی لیس اور جھالریں لینا اور پھر میچنگ کی جیولری پسند کرنا کسی مرد کے بس کی بات تو نہیں ہے۔ ویسے آج کل لڑکیوں کا ذوق بزرگوں کے زیرِ اثر چل رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ فیشن جو ہماری دادیاں اور نانیاں اپنے زمانے میں آج سے 50-60 برس قبل کیا کرتی تھیں وہ آج پھر سے زندہ ہوتا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل فرشی شلوار کے چرچے ہیں، اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آج کی لڑکیاں واقعتاً ماضی کا فیشن اپنا رہی ہیں یا ہماری دادیاں ہی پوسٹ فیشن ازم کا شکار تھیں۔ اللہ جانے! خواتین کی عید کی تیاریاں ہوں اور بات صرف کپڑوں تک محدود رہے ایسا ممکن نہیں! کپڑے تو عید کے دن کی تیاری ہیں، لیکن خواتین کی عید چاند رات سے ہی شروع ہوجاتی ہے، اور چاند دکھتے ہی ہر طرف مہندی کی سہانی سی خوشبو پھیل جاتی ہے، لڑکیاں باقی کام چھوڑ کر اپنے ہاتھوں کو مہندی سے سجانے میں مشغول ہو جاتی ہیں، اس کام کے لیے اکثر تو بہنیں اور کزنیں ہی ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں، لیکن زیادہ تر مشاہدے میں محلے کی کوئی ایک تجربہ کار لڑکی دیکھنے کو ملتی ہے، جو محلے کی تمام لڑکیوں کے ہاتھوں پر نت نئے اور من چاہے مہندی کے ڈیزائن بناتی ہیں۔ امیر اور پوش علاقوں کی لڑکیاں یہ خدمات بھاری معاوضے کے عوض بیوٹی پارلرز سے حاصل کرتی ہیں، لیکن متوسط طبقہ گھر یا محلے میں سے ہی کسی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ویسے سوچ کر دیکھیے تو کتنا خوش کن احساس ہے جہاں ایک طرف اجتماعیت کا فروغ اور خوشیوں کی باہمی تقسیم نظر آتی ہے، وہیں محلے کی کسی غریب بچی کی ایک ہی رات میں اچھی آمدنی بھی ہوجاتی ہے، لہذا میرا مشورہ یہی ہے کہ مہندی لگوانے کے لیے بیوٹی پارلرز کے بجائے ایسی ہی کسی سفید پوش خاتون کا انتخاب کیا جائے، تاکہ آپ کے ہاتھوں کے سجانے کے ذریعے اس کی عید کا دن نکھر سکے۔ عید کی مہندی میں چاند ستارہ بںانے یا عید مبارک لکھوانے کا رواج اب دم توڑتا جا رہا ہے، اسی طرح آج سے ایک ڈیڑھ دہائی قبل عید کارڈ کی تقسیم کا رواج ہوتا تھا، یقیناً یہ ایک بہت خوبصورت اور حسین احساس تھا، لیکن افسوس اب اس روایت کی جگہ بھی جدید ٹیکنالوجی اور آن لائن پیغام رسانی نے لے لی۔ لڑکیوں کی عید کی تیاریوں میں لباس اور مہندی کے ساتھ ساتھ میچنگ جیولری خاص طور پر چوڑیاں شامل ہوتی ہیں، گہرے رنگوں کے ساتھ کنٹراس رنگوں کی چوڑیاں اور ہلکے رنگ کے کپڑوں کے ساتھ گہرے رنگ کی چوڑیاں لینا عام رواج ہے، بہت سی خواتین اب چوڑیوں کی جگہ اب بریسلیٹ کا استعمال کرتی ہیں، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ جو سجاوٹ رنگ برنگی کھنکھناتی چوڑیون میں ہے وہ کسی اور چیز میں کہاں۔ اسی طرح چوڑیوں کے ساتھ ساتھ دیگر زیور کا انتخاب بھی بہت سوچ و بچار کے بعد کیا جاتا ہے۔ چاند رات کو ہی مہندی لگا کر اگلے دن کے لیے کپڑے اور جیولری تیار کر کے رکھ لی جاتی ہے، اور عید کے دن علی الصبح انہیں زیبِ تن کیا جاتا ہے۔ یقیناً خواتین پوری زندہ دلی سے عید کی خوشیاں مناتی ہیں، اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو پورا کرتی ہیں، لیکن صرف ایسا ہی نہیں کہ وہ اپنی خوشیوں پر توجہ دیتے ہوئے اپنے قریبی رشتے داروں کو نظر انداز کر دیں، بلکہ وہ ان تیاریوں کے ساتھ ساتھ پوری لگن اور محنت سے گھر کا کام بھی نمٹاتی ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی میٹھا بنانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ گھر کی صفائی اور مہمانوں کی آمد کے انتظامات کرنا بھی خواتین کے اہم امور میں شامل ہے۔ لہذا عید پر سجنا، سنورنا بھی ان کا حق ہے۔ کیوں کہ وہ کائنات کا رنگ ہیں اس لیے ان رنگوں کو چمکائے رکھنا گھر کے مردوں کی ذمے داری ہے۔ یقیناً خواتین کے کپڑوں، مہندی اور جیولری پر چند ہزار ہی خرچ ہوتے ہیں، لیکن ان چند ہزار میں ان کا دل جو تازگی محسوس کرتا ہے اس کا اندازہ عید کے دن بھاگ بھاگ کر گھر کے کام کرنے سے ہو رہا ہوتا ہے۔ عید کے دن کزنوں اور محلے کی دیگر لڑکیوں کے ساتھ عید ملنے کے دوران اپنے لباس اور دیگر اشیائے زینت کے منفرد ہونے کا فخر کسی بڑے محاذ کو سر کرنے کی مانند ہوتا ہے۔ لہذا مردوں کو چاہئے کہ خواتین کی ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا نہ صرف خیال رکھیں، بلکہ اسے اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے از خود اس میں ان کی خوشیوں کی تکمیل کریں۔ عید کے دن کا مخصوص لباس، چوڑیاں، مہندی، جوتے اور جیولری یہ خواتین کے رمضان بھر سحری اور افطاری میں کام کرنے کا ایک۔ چھوٹا سا ہدیہ سمجھیے، اور اس تحفے کی خوشی اور اس کے نتیجے میں گھر کی عورتوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی وجہ بنیے۔ تاکہ ہماری اب تک بچی ہوئی مشرقی اقدار اور روایات قائم رہ سکیں، تاکہ عید کارڈ، لفافوں اور خطوط کی طرح یہ رونقیں بھی معدوم نہ ہوجائیں، لہٰذا گھر میں گونجتی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ اور اس میں جھومتی مسکراہٹیں زندہ رہنے دیںلکھو کے ساتھ لکھو