”چلو چلو فریحہ!جلدی سے اٹھ جاؤ اماں بی اسٹور روم کی صفائی کروا رہی ہیں۔“
سونیا نے فریحہ کو سوتے سے اٹھایا تو وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر جمائی روکتی ہوئی اٹھی تھی۔
”اب اسٹور روم کی صفائی کون کرتا ہے؟“
بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تو سونیا جھینپ کر ہنس دی۔
”اماں بی کرتی ہیں نا!اب ان کو مت کہہ دینا اسٹور روم کی صفائی کون کرتا ہے۔بقول ان کے اسٹور ہی سے تو سارے کیڑے چھپکلیاں، چوہے نکلتے ہیں۔“
وہ ابھی تک فریحہ کے بستر کے ساتھ کھڑی تھی۔
”تو اگر سب کیڑوں کی فوج ادھر ہے تو کیڑے مار اسپرے کریں،یہ سوتے سے سارے گھر کو اٹھانے کی کیا تک ہے؟“
فریحہ کی آنکھیں بھی نہیں کھل رہی تھیں۔
”سارا گھر کب اٹھ رہا ہے؟میں ہوں، رضیہ ہے،تم ہو اور اماں بی۔“
سونیا نے دوپٹہ کمر کے گرد باندھتے خبر دی۔
”یا اللہ! کس گھر میں شادی ہو کر آ گئی ہوں،پہلے پتہ ہوتا کہ زیب کی دادی کو اس قدر خبط ہے صفائی کا تو شادی ہی نہ کرتی۔“
وہ منہ بسورتی بولتی جا رہی تھی۔
بال سمیٹ کر بستر سے اترتے بھی لبوں پہ ڈھیروں شکوے تھے۔
شادی سے پہلے سکون کی زندگی تھی۔دن چڑھے تک سونا،اپنی مرضی کا فاسٹ فوڈ کھانا، دوستوں کے ساتھ شاپنگ اور آوارہ گردی، گھنٹوں موبائل استعمال کرنا۔کیا رنگین دن تھے لیکن پھر زیب سے منگنی کے بعد سب بدل گیا۔اسے پسند آنے کے چکر میں کچھ کچھ خود کو بدلا حالانکہ اسے تو وہ ایسے ہی پسند تھی ہر حال میں تبھی تو رشتہ بھیجا تھا۔
منگنی کے بعد بھی گھر کی تقریبات اور دعوتوں میں وہ دونوں ملتے رہتے۔آنکھوں ہی آنکھوں میں ڈھیروں باتیں ہو جاتی۔اکیلے ملنے کی تو اجازت ملی ہی نہیں کبھی کیونکہ بقول زیب کی دادی اماں کے، دو نا محروموں کے بیچ تیسرا شیطان ہوتا ہے سو خبردار کسی ہوٹل میں کھانا کھانے یا لانگ ڈرائیو کی فرمائش بھی کی۔وہ اپنی دوستوں کی ڈھیروں چھیڑ چھاڑ پر دل مسوس کر رہ جاتی۔کیسا منگیتر تھا؟نہ باہر لے کر جاتا تھا نہ شاپنگ کرواتا تھا۔سارا وقت اماں کی جی حضوری باقی وقت دادی کے پلو میں بیٹھا رہتا۔کبھی کبھی دل کرتا کہ رشتے سے ہی انکار کر دے مگر پھر اس کی اماں ابا کے چہرے آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتے۔
”چراغ لے کر بھی ڈھونڈو گی تو ایسا لڑکا نہیں ملے گا،باادب، باشعور، باتمیز، باسلیقہ“ بابابا کی لمبی گردان تھی۔سو وہ سکون سے اس رشتے پہ قائم رہی کیا کرتی زیب اسے بھی بہت پسند تھا۔
بس فون پہ ڈھیروں باتیں،شکوے شکایتیں ہوتی رہتیں۔وہ ان لائن اس کے لیے پھول اور چاکلیٹس بھیجتا تو وہ سارا دن ان کے ساتھ تصویریں کھینچ کھینچ کر دوستوں دیکھاتی۔لب خودبخود مسکرانے لگتے۔کوئی من کو اچھا لگتا ہو تو لب وقت بے وقت مسکراتے ہیں۔کسی کے بے وقت یاد،بے وقت مسکراہٹ کا سبب بن جاتی ہے۔
شادی ہوئی تو لگتا تھا سب حجاب ہٹ گئے۔زندگی میں بہار آ گئی۔سارے زمانے کی روک ٹوک ختم ہوئی تو وہ دونوں گھنٹوں باہر گھومتے، کھاتے پیتے، بارش میں نہاتے، ہنسی قہقہے چار سو سنائی دیتے کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتے۔زندگی گل و گلزار بن گئی تھی مگر صرف کچھ ماہ۔
نجانے کب سرپرائز سرپرائز کے چکر میں زیب اسے سرپرائز دے گیا۔اس کا دوبئی کا ویزہ لگ گیا تھا دو سال کا کنٹریکٹ تھا۔ سو وہ ہنسی خوشی ٹکٹ کروا کر سارے گھر کو خوش خبری سنا رہا تھا جبکہ فریحہ تو مٹی کا بت بن گئی تھی۔
چند ماہ کی شادی اور سالوں کا انتظار۔۔آنسو اس رفتار سے آنکھوں سے برسے جیسے بے موسم کی موسلادھار بارش۔اسے چپ کرواتے کرواتے زیب کا من بھیگنے لگا۔
”بس کر دو فریحہ!اب اتنی بڑی بات بھی نہیں۔“
”آپ کے لیے نہیں ہو گی۔میری تو زندگی ہی آپ ہیں،میں جیوں گی کیسے؟“
آنسو تو پل بھر کو نہ تھمتے اور پردیسی واپسی کی نوید تھما کر آس کے جگنو دے گیا۔گھر میں سب ہی اچھے تھے بس اماں بی کو صفائی کا خبط تھا سو آئے دن فریحہ اور کام والی رضیہ کی شامت آ جاتی۔جس دن اس کی نند سونیا کی کالج سے چھٹی ہوتی وہ بھی گیہوں کی طرح چکی میں پس جاتی۔بس گھر میں نفاست سلیقہ بولتا تھا۔کچھ دن میں وہ خود بھی اس سگھڑ پن کی قائل ہو گئی کیونکہ اتنا کچھ تو اپنی ماں نے سیکھا کر بھیجا تھا جتنا ساس نے اور ساس کی ساس نے سیکھا دیا تھا۔
اب رمضان کی آمد آمد تھی سو گھر کی رگڑائی صفائی شروع تھی۔دن بھر وہ تھک کر سوتی۔کبھی صوفے کے کور بدلے جاتے، کبھی کمبلوں کو دھوپ لگتی، کبھی درجنوں سموسے رول فریز کیے جاتے،کبھی قیمہ بھول کر تھیلیاں بنائی جاتیں۔بقول اماں بی کے جی بھر کر رمضان المبارک میں عبادت کریں گے۔
رمضان المبارک شروع ہوا تو گھر بھر میں رونق ہو گئی یہ اور بات وہ نمکین سموسوں کو کھاتے اپنے نمکین آنسو چھپاتی رہی۔زیب شدت سے یاد آیا تھا۔رات پھر فون پہ وہ بلک بلک کر رو دی۔
”بس کر دو فریحہ ایسے روتی ہو کہ دل خراب ہو جاتا ہے۔جنگ کے محاذ پہ نہیں ہوں برج خلیفہ کے سامنے بیٹھا ہوں۔روئیں تو وہ جن کے شوہر جنگ پہ گئے ہوئے ہیں۔“
وہ ویڈیو کال پہ آس پاس کی ہل چل دیکھاتا تو وہ بہل جاتی۔
ہاں ٹھیک ہی تو کہتا ہے،وہ مائیں بہنیں بھی تو ہیں جن کے بیٹے،باپ،شوہر،بھائی بارڈر پہ موجود ہیں،حالات جنگ میں ہیں۔وہ بھی تو اکیلے رمضان گزاریں گی اکیلے عید کریں گی۔
رمضان المبارک کے دو عشرے گزرتے پتہ ہی نہ چلا۔آخری عشرے میں عبادتوں اور آنسوں میں شدت آ گئی تھی۔
”جن کے شوہر گھر نہیں کیا خاک ان کی عید ہے؟“
کسی کا کہا جملہ ذہن میں گونجا تو پکا ارادہ کر لیا پہلی عید ہے لیکن نہ نیا جوڑا پہنوں گی نہ مہندی لگاؤں گی نہ چوڑیاں پہنوں گی۔
یہی بات وہ زیب کو فون پہ کہہ بیٹھی تو زیب نے غصے سے اسے دیکھا تھا۔
”نوکری کرنے گیا ہوں،بیوہ نہیں ہو گئی خداناخواستہ!“
وہ جی بھر کر بدمزہ ہوا۔
عید سے دو دن پہلے اس کا کوئی کورئیر آیا تھا۔وہ حیرت سے دروازے پہ ڈیلیوری بوائے کو دیکھ رہی تھی۔جو بڑا سا سرخ گلابوں کا بکے، چاکلیٹ کے ڈبے کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔وہ کارڈ کھول پڑھنے لگی تو پھر آنسو ٹپ ٹپ بہنے لگے تھے۔
وہ عید پہ بھی نہیں بھولا تھا۔بھولتا بھی کیسے؟بھلا محبوب بھی کبھی ایک دوسرے کو بھولتے ہیں؟
”میری عید تم سے ہے!“
عید کارڈ پڑھ کر وہ اسے آنکھوں سے لگا گئی۔تبھی گھنٹی کی آواز اس کی سوچوں کو منتشر کر گئی۔
”کون؟“
اس نے آنے والے سے پوچھا تھا۔
”کورئیر!“
ایک اور کورئیر؟
وہ بڑبڑاتی ہوئی دروازہ کھول گئی اور کورئیر والا دروازہ کھلتے ہی اس کے گلے لگ گیا تھا۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے؟“
وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہوئی اور زیب کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔
”آپ؟“
”ہاں تو میرا آنا منع ہے؟ویسے ہی میری بیوی نے پہلی عید پہ نیا جوڑا پہنے اور مہندی لگانے سے انکار کر دیا تھا۔آنا تو تھا ہی“
وہ ہنستے ہوئے بولا تو وہ بھی کھلکھلا کر ہنس دی۔
”میرا چاند تو چاند رات سے پہلے آ گیا تو میری تو آج سے ہی عید شروع۔“
اس کے چہرے پہ اترتے جگنو دیکھ کر زیب نے سکھ کا سانس لیا اور اس کے بالوں کو پیچھے کرتے کان میں سرگوشی کی تھی۔
لکھو کے ساتھ لکھو”میری بھی صرف تم سے عید ہے۔
