91

ہمارے بچپن کی عید/تحریر/بنت عثمان کراچی

عید اللہ تعالی کا وہ عظیم تحفہ ہے ،کہ جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ عید جب بھی آتی ہے اپنے ساتھ وہ رونقیں، بہاریں اور خوشیاں لاتی ہے، جسے بیان کرنے سے زبان عاجز ہے۔اگر دیکھا جائے تو عید سبہی مناتے ہیں بچے، بوڑھے اور جوان، مگر جن کو سب سے زیادہ اس کا انتظار اور خوشی ہوتی ہے،وہ بچے ہیں۔اس لیے کہ بچپن وہ سنہری دور ہے جس میں انسان ہر طرح کی پریشانیوں اور غموں سے آزاد ہوتا ہے،اسی بنا پر وہ عید کی خوشی سب سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔مقولہ مشہور ہے “فکر نہ فاقہ،عیش کر کاکا”۔ آج اسی مناسبت سے میں اپنے بچپن کی عید ذکر کرنا چاہتی ہوں، جو بلاشبہ نہایت ہی حسین اور خوبصورت ہوا کرتی تھی۔
عید کا ذکر ہو اور چاند رات کا ذکر نہ ہو،تو بات ادھوری سی لگتی ہے۔ تو چلیے جناب شروع کرتے ہیں چاند رات سے۔ اصل میں ہمارے دادا جان اپنی عمر کے آخری ایام میں اللہ کے فضل و کرم سے رمضان کا پورا مہینہ اعتکاف کیا کرتے تھے۔ چونکہ وہ پورا مہینہ مسجد میں ہوتے تھے، اب جیسے ہی چاند نظر آنے کا اعلان ہوتا،وہیں ہماری خوشی دوگنی ہو جاتی۔ ایک چاند نظر آنے کی خوشی اور دوسرا دادا جان کے گھر آنے کی خوشی۔ گھر کے بڑے افراد اور ہم سارے کزنز سب مسجد کی طرف دوڑ لگاتے، اور ایک دوسرے کو چیلنجز کرتے کہ “دیکھو بھئی !کون سب سے پہلے دادا جان سے ملتا ہے؟”۔ مسجد پہنچ کر دادا جان کو اعتکاف کی مبارکباد دیتے اور وہ سب بچوں کو باری باری گلے سے لگا کر اپنی بھرپور دعاؤں سے نوازتے۔ اب یہ سارا قافلہ جب مسجد سے گزر کر گھر کی طرف رواں دواں ہوتا، تو شادی کا سا سماں محسوس ہوتا۔پھر گھر آ کر سب اپنے اپنے کاموں میں جت جاتے۔ کام تھے بھی کیا، ہر کوئی صبح کے لیے اپنے اپنے کپڑے استری کر رہا ہے۔ وہ زمانہ بڑی غربت کا تھا۔ہر گھر میں استری میسر نہیں ہوا کرتی تھی۔ پھر گویا استری لینے والوں کی لائن لگ جاتی۔پھر وہی “پہلے آؤ پہلے پاؤ والا” حکم یہاں بھی چلتا ،اور یوں بغیر شورشرابےکےہنسی خوشی سب کی تیاری ہو جاتی۔ لڑکے تو باہر جا کر اپنے دوستوں کے ساتھ خوب ہلہ گلہ کرتے اور رہ گئی ہم لڑکیاں، تو لڑکیوں کی تیاریاں تو لڑکوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔مہندی لگانے کی باری آتی ،کیونکہ مہندی کے بغیر تو لڑکیوں کی عید ہی نہیں ہوتی۔ اب اس زمانے میں کہاں بیوٹی پالر ہوتے تھے، کہ بندہ جائے اور پیسے دے کر مہندی لگوا لے، اوپر سے رہتے بھی گاؤں میں تھے۔ اب جن لڑکیوں کو اللہ کے فضل و کرم سے تھوڑی بہت مہندی لگانے آتی،تو ان کے نخرے اس رات آسمانوں تک پہنچ جاتے۔ اب مہندی بھی لگوانی ہوتی اور حکم ماننے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا، اس لیے ان کا حکم سر آنکھوں پر رکھ کر بجا لاتے۔یوں مہندی لگاتے لگواتے نصف شب گزر جاتی ،اور ہماری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو جاتیں۔پھر ہم آنکھوں میں عید کے خواب سجائے نیند کی وادیوں میں گم ہو جاتے۔ یہ تو آج کل چاند رات جاگ کر گزاری جاتی ہے،ورنہ ہمارے بچپن میں تو چاند رات کو بھی سونا لازمی ہوتا تھا۔ بڑے کہتے تھے “اگر ابھی نہیں سؤوگے،تو صبح بہت زیادہ نیند آئے گی “۔یہ سنتے ہی ہم جھٹ پٹ سو جاتے۔ دیہاتوں میں تو اب بھی وہی پرانا معمول ہے، لوگ رات کو جلدی سو جاتے ہیں اور صبح فجر کی اذانوں سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ دن بھر وہ تھکان بھی محسوس نہیں کرتے اور تمام کام بڑے احسن طریقے سے وقت پر مکمل کر لیتے ہیں۔ بعض بچوں کو تو خوشی کی وجہ سے نیند ہی نہیں آتی تھی،وہ اس وقت بڑوں کو دکھلانے کے لیے انکھیں بند کر لیتےاور جیسے ہی معلوم ہوتا کہ بڑے سو چکے ہیں، ان کی تو عید سے پہلے عید ہو جاتی۔
رات بڑے آرام و سکون سے گزر جاتی۔ جیسے ہی فجر کی اذان کانوں میں پڑتی، جھٹ سے بستروں سے نکل پڑتے اور اس دن تو ماؤں کے بڑے مزے ہو جاتے ،آخربچوں کو جو نہیں اٹھانا پڑتا تھا۔وہ یہی تمنا کرتیں” “کاش روز روزعید ہوتی، توانہیں بچوں کو جگانے کے لیے اپنا مغز نہیں کھپانا پڑتا”۔اس کے بعد اس کے بعد کا منظر مجھے بڑا ہی حسین لگتا تھا ۔عید کے دن وہ منفرد کام جو ہم تمام بچے مل کر انجام دیتے تھے ،وہ یہ تھا کہ مسجد سے لے کر جہاں تک گاؤں کی کچی سڑک پکی سڑک سے ملتی ہے ،جھاڑو لگاتے۔ اور خوب اچھی طرح صفائی کرتے، اور یہ کام کر کے بڑی خوشی محسوس کرتے تھے۔ دل میں فخر کرتے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس بات کی توفیق دی کہ ہم آنے والے نمازیوں کے لیے راستہ صاف کریں، اور یہ کرنے میں بالکل بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے تھے۔ آج کل تو گاؤں میں بھی یہ رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔کہاں ہم پوری پوری سڑکیں صاف کر لیتے تھے، اب تو لوگ مسجد کے سامنے جھاڑو لگانے میں بھی عارمحسوس کرتے ہیں۔ جلدی جلدی اپنے حصے کے کام کو ختم کر کے گھر آتے ۔نہا دھو کر نئے زرق برق لباس زیب تن کرتے۔ لڑکے تو جھٹ سے تیار ہو جاتے، اور ہم لڑکیاں کسی کا جھمکا نہیں مل رہا، تو کسی کی چوڑیاں۔ اس دن اگر ہماری ایک چیز بھی ادھر سے ادھر ہو جاتی، تو ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ جلدی جلدی تیار ہوتے، آنکھوں میں کاجل، گالوں پہ لالی، ہونٹوں پہ ہلکی سی سرخی، شریف بچوں کی طرح دوپٹے کا بکل مار کر گلے میں پرس کی رسی لٹکائے بڑی شان اور مان سے ہیل کی ٹک ٹک کے ساتھ عید کی نماز سے پہلے پوری گلی کا معائنہ کرتے، اور دیکھتے کہ آج کیا کیا چیزیں بیچنے والے آئے ہیں۔یہ منظر سوچوں تو بے اختیار میرے لبوں پر یہ آیت جاری ہو جاتی ہے ارشاد باری تعالی ہے “لكل امرئ منهم يومئذ شان يغنيه وجوه يومئذ مسفره ضاحكه مستبشره” ترجمہ “ادھر جیسے ہی مسجد کے سپیکر سے عید نماز کے سلام کی آواز آتیتو ادھر ہم گھر کی طرف دوڑ لگاتےاور اپنے بڑوں کے آنے کا انتظار کرتے۔ اس لیے کہ عیدی ہمیں نماز کے بعد ہی ملا کرتی تھی۔ جیسے ہی مرد حضرات تشریف لاتے، فورا سے ان کی طرف لپکتے اور عیدی کا مطالبہ کرتے۔ عید کے دن ہمیں اس بات کی بہت زیادہ خوشی ہوتی تھی، کہ آج ہمیں نوٹ والے پیسے ملیں گے۔ اس زمانے میں نیا نیا پانچ کا نوٹ نکلا تھا، اس سے پہلے ہر جمعہ کو دادا جان تمام بچوں کو پانچ پانچ والا سکہ دیا کرتے تھے۔ اس لیے ہمیں نوٹ کے ملنے کی بہت خوشی ہوتی تھی۔ اسی طرح فردا فردا گھر کے تمام لوگوں سے عیدی لیتے، اور اس کے بعد گھر سے نکل جاتے۔ ابھی ایک قدم دروازے سے باہر ہوتا اور دوسرااندر، کہ باہر کا منظر دیکھ کر حیران و ششد رہ جاتے، لوگوں کا جم غفیر، تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی۔ ہمارا گھر چونکہ جامع مسجد کے قریب تھا اور آس پاس کے گاؤں میں جامع مسجد نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے مکین بھی عیدین کے لیے یہاں تشریف لاتے تھے۔ جب چھ سات گاؤں کے لوگ آپس میں ملتے ،تو یوں محسوس ہوتا گویا لوگوں کا سیلاب امڈ آیا ہو ،اب ہمیں چیزیں بھی خریدنی ہوتی تھی اور اتنا رش۔ مگر کیا کرتے باہر تو جیسے کیسے نکلنا ہی ہوتا تھا۔ ہمت کر کے نکل پڑتے اور یوں لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو جاتے۔ ہمیں سب سے زیادہ اس بات کی ٹینشن ہوتی تھی، کہ کہیں ہماری من پسندیدہ چیزیں جلدی سے ختم نہ ہو جائیں ،جس کے لیے ہم سارا سال انتظار کرتے تھے۔ کیونکہ گاؤں میں دکانیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور جو دکانیں تھیں اس میں بھی کوئی خاص چیزیں نہیں ہوتی تھیں ،اس لیے عید کے دن چیزیں خریدنے کے وقت کا بڑی بے صبری سے انتظار کرتے۔ باہر اتنا شور ہوتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ چیزیں بیچنے والے گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنی اشیاء بیچ رہے ہوتے تھے اور ہم جلدی جلدی اپنی مطلوبہ اشیاء خرید کر گھر آجاتے۔ پھر تمام سہلیاں مل کر ایک ساتھ کھاتے۔ یہ منظر ہمیں بڑا ہی خوبصورت لگتا تھا۔ لڑکے بالے تو باہر مرد حضرات کے ساتھ شہر جا کر عید کی خوشیاں دوبالا کرتے اور ہم سہلیاں کبھی ایک کے گھر، کبھی دوسری کے گھر چکر لگاتیں۔ اسی اثنا میں دوپہر ہو جاتی اور ہماری ٹانگیں چل چل کر شل ہو جاتیں ۔ آخر کار ہم تھک ہار کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیتے۔وہی گلیاں جہاں کچھ دیر پہلے تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ایسی سنسان اور ویران پڑی ہوتی تھیں ،جیسے یہاں سے برسوں کسی کا گزرنا ہوا ہو” فلا تسمع الا همسا ” ترجمہ “جہاں سرگوشیوں کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا”۔ گھر پہنچتے ہی دم سادٹے بستر پر لیٹ جاتے تھکن کی وجہ سے جسم چور چور ہو جاتا،بدن کا انگ انگ درد سے ٹوٹ رہا ہوتا تھا۔ یوں ہم اپنے گزارے ہوئے دن کو سوچتے ہوئے نہ جانے کب نیند کی وادیوں میں اتر جاتے۔بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ ابو جان شام کے وقت ہمیں بائیک پر بٹھا کر شہر لے جاتے، اس وقت ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ ہوتی۔ شہر میں تو عید کی رونقیں کچھ زیادہ ہی ہوتیں۔ یوں ہم گھوم پھر کر عشاء تک واپس آ جاتے۔ آج کل تو عید کے تیسرے دن بھی پارک جاؤ تو اتنا رش ہوتا ہے ،کہ اللہ کی پناہ۔مجھے اچھے طریقے سے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم کراچی میں عید کے تیسرے دن گھومنے گئے۔ اول تو پارک جانے والے راستوں میں گاڑیوں کا اتنا رش تھا کہ لگ نہیں رہا تھا، کہ پہنچ پائیں گے۔اللہ اللہ کرتے وہاں پہنچ تو گئے، مگر وہاں ٹکٹس لینے کے لیے لمبی لمبی لائنیں دیکھ کر بے اختیار کہنا پڑا کہ نہ آتے تو زیادہ اچھا تھا۔ فائدہ کیا ہوا بغیر گھومے پھرے واپس لوٹ آئے ۔لطف اندوز تو کیا ہوتے، اوپر سے اپنے آپ کو بیمار کروالیا۔ میرے خیال میں کراچی میں عید کے شروع کے تین دن گھومنے جانے کے لیے صبر کرنا چاہیے۔ اس کے بعد آرام سے کسی بھی دن چلے جائیں۔
میرا مقصد اپنے بچپن کی عید کو ذکر کرنے سے یہ ہے کہ وقت بدل گیا ہے۔ پہلے چھوٹی چھوٹی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے ترستے تھے، اور آج بڑی بڑی خوشیاں حاصل کرنے کے بعد بھی خوشی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نمود و نمائش، دکھلاوا،شہرت اور ریاکاری ہے۔ آج ہم میں سے بہت کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اس سے خالی ہونگے ۔ اعمال میں سے اخلاص اٹھا لیا گیا ہے ،اسی وجہ سے وہ خوشیاں جو دیر پا رہتی تھیں ،آج ان کا اثر بہت ہی جلد زائل ہو جاتا ہے۔ خوشی کا موقع آ کر چلا بھی جاتا ہے، اور ہم بھول جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں