26

پیارے ریان کی عید اور مسجدِ اقصیٰ/تحریر/ام محمد عبداللہ

عید کی صبح تھی۔ ریان خوشی سے جھوم رہا تھا۔ نیا لباس، چمکتے جوتے اور جیب میں عیدی! آج سب کزنز اکٹھے ہونے والے تھے، مزے دار کھانے بننے تھے، اور بہت سی خوشیاں منانی تھیں۔

ریان نے جیسے ہی اپنا عیدی والا لفافہ کھولا، اچانک اسے دادی کی آواز سنائی دی، جو ٹی وی پر خبریں دیکھ رہی تھیں۔ اسکرین پر دھول اور مٹی میں اٹا ہوا ایک چھوٹا سا بچہ دکھائی دے رہا تھا، جس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہاتھ زخمی ۔ “یہ محمود ہے، فلسطین کا ایک بچہ، جس کا گھر عید سے پہلے ہی تباہ کر دیا گیا…” نیوز اینکر کہہ رہا تھا۔

ریان کی خوشی جیسے کہیں کھو گئی۔ اس نے غور سے سنا، محمود اور اس جیسے دوسرے فلسطینی بچے نہ نئے کپڑے پہن سکتے تھے، نہ عیدی ملتی تھی، نہ ہی ان کے پاس کھیلنے کے لیے کھلونے تھے۔ بلکہ وہ تو دن رات خوف کے سائے میں جی رہے تھے۔

“دادی! یہ سب محمود کے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟” ریان نے بے چینی سے پوچھا۔

دادی نے ریان کو قریب بٹھایا اور کہا، “بیٹا، یہ سب فلسطینیوں پر ہونے والا ظلم صرف زمین یا گھروں کا معاملہ نہیں، بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ صہیونیوں کے مسجدِ اقصیٰ اور پوری دنیا پر اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے ساتھ حکومت کرنے کا خواب ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمام انسانوں اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار پر شیطانیت اور دجالی تہذیب کو حاوی کر دیا جائے۔”

“مسجدِ اقصیٰ کا اس سے کیا تعلق ہے؟” ریان نے حیرت سے پوچھا۔

دادی مسکرائیں اور بولیں، “بیٹا! مسجدِ اقصیٰ وہی مقدس جگہ ہے جہاں ہمارے نبی ﷺ کو معراج کی رات لے جایا گیا تھا۔ یہ اسلام کی پہلی قبلہ گاہ ہے اور دنیا کی تیسری مقدس ترین مسجد ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے اس کی حفاظت کرتے آئے ہیں، اور دشمن یہی نہیں چاہتے۔ وہ اس مقدس جگہ کو تباہ کر کے وہاں اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔”

“لیکن وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟” ریان نے معصومیت سے پوچھا۔

دادی نے گہری سانس لی اور کہا، “کیونکہ وہ دنیا میں ظلم، فساد اور برائی پھیلانا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ دنیا میں انصاف اور سچائی باقی رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اللہ کو بھول جائیں، اخلاقی قدریں ختم ہو جائیں، اور دنیا پر ان کا شیطانی نظام حکومت کرے۔ اسی لیے وہ نہ صرف فلسطینیوں پر ظلم کر رہے ہیں بلکہ پوری دنیا پر اپنے اثرات ڈال رہے ہیں۔”

ریان کا دل بھر آیا۔ “لیکن دادی، ہم تو چھوٹے ہیں، ہم کیا کر سکتے ہیں؟”

دادی مسکرا کر بولیں، “بیٹا، ہم ان کے لیے دعا کر سکتے ہیں، کیونکہ دعا بہت طاقتور ہوتی ہے۔ اور جانتے ہو؟ ہم ان ظالموں کی چیزیں خریدنا چھوڑ دیں جو ان پر ظلم کرتے ہیں۔ اگر ہم اور دوسرے بچے بائیکاٹ کریں تو ان کا کاروبار کمزور ہو جائے گا! اور سب سے اہم بات، ہم خود بھی مسجدِ اقصیٰ کی اہمیت کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی بتائیں تاکہ سب جاگ جائیں!”

ریان نے پرجوش ہو کر کہا، “میں اپنے دوستوں کو بھی بتاؤں گا! اور ہر بار جب عیدی ملے گی، میں اس میں سے کچھ ان بچوں کے لیے بھی رکھوں گا!”

پیارے بچو!
ریان کی طرح آپ بھی اپنی عید کی خوشیوں میں فلسطینی بچوں کو یاد رکھیں۔ ان کے لیے دعا کریں، ظلم کرنے والوں کی چیزیں خریدنے سے بچیں، اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں۔ مسجدِ اقصیٰ ہم سب کی ذمہ داری ہے، اسے بھولنا نہیں!

لکھو کے ساتھ لکھو اللہ ہمیں نیکی کرنے اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کی توفیق دے۔ آمین!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں