83

روزے اور ہم/تحریر/آپا منزہ جاوید/اسلام آباد

روزہ ہمارے دین کا اہم فرض رکن ہے
جس کا قرآن مجید میں بھی ذکر ہے اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے
اس کے ساتھ اس فرض کی ادائیگی میں بہت سی خوشخبریاں سنائی گئی ہیں ۔
یہ کچھ گنےچنے دنوں کے لیے آتے ہیں اور اپنے ساتھ ڈھیروں خوشیاں رونقیں عبادتوں کی صورت میں لاتے ہیں۔ ماہ رمضان کے شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی آمد کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں گھر بار کو صاف کیا جاتا ہے ۔بستر قالین دھو کر پاک کیے جاتے ہیں ۔گھر کی جھاڑ پونچھ کی جاتی ہے تاکہ عبادتوں کے دنوں میں ساری استعمال کرنے والی اشیاء پاک صاف ہوں ہر طرف اس ماہ کی آمد کی خوشی میں گھر کی مصروفیت بڑھ جاتی ہیں ۔کچھ لوگ تو عید کے کپڑوں کو بھی پہلے تیار کروا لیتے ہیں تاکہ رمضان المبارک میں کپڑوں کی خریداری میں عبادت کا وقت نہ نکل جائے ۔دکانوں پے مہینہ پہلے ہی خریداروں کا رش بڑھ جاتا ہے دکاندار بھی نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے متعارف کرواتے ہیں دکانوں کو برقی کمکمے لگا کر سجایا جاتا ہے بازار کی رونق میں اضافی سجاوٹ سے اضافہ کیا جاتا ہے
اسی طرح مساجد کی قالین اور صفیں دھلائی جاتی ہیں مساجد میں کچھ لوگ نئے قالیں یا صفیں ڈلواتے ہیں مساجد کے کمروں کی خاص طور پر صفائ کی جاتی ہے کیونکہ اعتکاف کے لیے بہت سے لوگ مساجد آتے ہیں مساجد کے اسپیکر چیک کیے جاتے ہیں بجلی یوـ پی ـ ایس کی مرمت کروانی مقصود ہو تو اسے اچھے سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ تروایح پڑھاتے وقت نمازیوں کو کوئ دقت نہ ہو۔ گیزر سے گرم پانی کا مکمل انتظام کیا جاتا ہے۔یعنی کہ بھر پور کوشش کی جاتی ہے کہ نمازیوں اور اعتکاف کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر ہوں ۔قاری حضرات جو تروایح پڑھاتے ہیں پورے ماہ رمضان میں مکمل قرآن مجید کی تلاوت کرنا ہوتی ہے وہ قاری صاحبان قرآن مجید کی زبانی تلاوت دو مہینے پہلے ہی شروع کر لیتے ہیں حافظ قرآن ایک دوسرے کو قرآن مجید زبانی سناتے ہیں تاکہ کوئ غلطی نہ رہ جائے۔رمضان المبارک کا مہینہ اپنے ساتھ بہت سی دلی سکون کی کیفیات لیے آتا ہے ۔بچے بوڑھے جوان صاف ستھرے لباس زیب تن کیے ٹوپیاں سر پر رکھے ہر اذان پے جب مساجد کا رخ کرتے ہیں تو گلیوں میں بھی رونقیں بڑھ جاتی ہیں مساجد میں نمازیوں کی صفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر فرد نماز پابندی سے پڑھتا ہے اور نمازی کے روپ میں بہت پیارا لگتا ہے سب کے چہروں پر رونق آ جاتی ہے ۔ گھروں میں صبح دوپہر شام قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے ۔ہر گھر الله کے ذکر سے آباد ہو جاتا ہیں ۔
جن کے گھر بچے روزہ رکھتے ہیں وہاں کا تو ماحول ہی بہت پیارا ہو جاتا ہے بچے بےتابی سے روزہ کھلنے کا جب انتظار کرتے ہیں بار بار وقت دیکھتے ہیں جیسے جیسے روزہ کھلنے کا وقت نزدیک آتا ہے بچوں کی بےتابی گھر کے ماحول کو خوشگوار بنا دیتی ہے ۔
گھر کے کھانوں میں برکت سی پڑ جاتی ہے۔ روزے دار اپنی اپنی پسند کا کوئ نہ کوئ کھانا تیار کرواتے ہیں جس سے دستر خوان کی رونق بڑھ جاتی ہے وہی پکوڑے جو ہم کبھی کبھار کھاتے ہیں واحد رمضان المبارک کا مہینہ ہے جس میں روزانہ پکوڑے یا سموسے کھائے جاتے ہیں لیکن کسی کا بھی دل نہیں بھرتا پکوڑے سموسے روزانہ ہی مزہ دیتے ہیں۔
ہمارے دستر خوان پر روح فزار یا جام شرین رونق افروز ہوتے ہیں کجھوریں شوق سے کھائ جاتی ہیں۔ ویسے کجھور کوئ کھائے نہ کھائے روزے کے وقت کھجور روزے کا لازمی حصہ ہوتی ہے ۔گھر کے بزرگ اپنا زیادہ تر وقت قرآن مجید کی تلاوت میں گزارتے ہیں گھر میں جہاں دیکھیں قرآن مجید کی تلاوت ہوتی نظر آتی ہے جس سے دل ودماغ کو عجیب سا سکون ملتا ہے ۔۔۔گھر کی عورتیں عصر کے بعد باورچی خانے میں چلی جاتی ہیں تاکہ روزے کا انتظام وقت سے پہلے ہو سکے اور وہ شوق سے سب سے ان کی پسند پوچھتی ہیں کہ آج ان کے لیے کیا بناؤں یوں چھوٹی چھوٹی فرمائیش دستر خوان کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ اکٹھے بیٹھنے سے دستر خوان کی رونق بڑھ جاتی ہے اب کی مصروفیت سے بھر پور زندگی میں جہاں بہت کم اکٹھے کھانا کھایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے اس مبارک مہینے کی وجہ سے سارے گھر کے افراد اکٹھے بیٹھتے ہیں اکٹھے روزہ افطار کرتے ہیں جس سے گھر کے افراد میں محبت بڑھتی ہے ۔
الله تعالیٰ کا خاص تحفہ رمضان المبارک کی شکل میں ہمارے گھروں میں رحمتیں برکتیں نازل کرنے آتا ہے ۔
روزہ گناؤں کے آگے ڈھال ہے ۔
اصل میں روزہ ہماری اصلاح کرتا ہے ہمیں بتاتا ہے ہم کیا کیا کر سکتے ہیں کیا کیا ہمارے اختیار میں ہے ۔ہمیں اپنے آپ کی اصلاح کرنے کا موقعہ ملتا ہے ۔ہم جب روزہ رکھتے ہیں تو ہم کوشش کرتے ہیں ہم جھوٹ نہ بولیں چغلی نہ کریں لڑائ نہ کریں کتنا پیارا احساس ہوتا ہے کہ ہم روزے سے ہیں
ہم اپنے آپ کو پاک صاف اور اپنی قدر کرنے لگتے ہیں اپنی نظر میں ہم اچھے لگنے لگتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں پانچ وقت نماز پڑھیں تروایح پڑھیں اور قرآن مجید کی تلاوت کریں روزہ ہمارے اندر ایک نیا احساس نئی سوچ پیدا کرتا ہے مفلس غریب لوگوں کی مدد کا جزبہ بیدار ہو جاتا ہے اپنی بھوک اور پیاس میں دوسروں کے دکھ’ مفلسی’بھوک’پیاس’ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ہم
زیادہ نیکیاں کرنے والے بن جاتے ہیں اور گناؤں سے دور نیک بن جاتے ہیں الله کا ڈر دل میں پیدا ہو جاتا ہے ۔
روز دار اپنی بخشش کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔
روزانہ پانچ وقت کی اذان توجہ سے سننے لگتے ہیں ایسے لگتا ہے جیسے اذانوں کی آواز اونچی ہو گی ہے ہر کان اذان کی آواز کی طرف متوجہ ہوتا ہےاور ہر اذان کے بعد صلاح اور فلاح کے لیے نماز پڑھنے لگتے ہیں ہم جان جاتے ہیں کہ ہماری بھلائ اسی میں ہے کہ ہم الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں ۔
روزہ رکھنے سے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے ۔اس کی
وجہ روزے کے ساتھ نماز کی پاپندی اور قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے۔ جس سے دل کے جالے اتر جاتے ہیں اور دل آہستہ آہستہ چمکنے لگتا ہے
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو رمضان المبارک میسر آیا اور وہ الله کے احکام کی پیروی کرنے کے لیے اس کی پابندی کی طرف دوڑ پڑے کتنے خوش نصیب ہیں وہ روزے دار جنہوں نے روزے کی حالت میں بھلائ کے راستوں پر چل کر آخرت کی منزلیں آسان کر لیں اپنی آخرت کے راستے سے کانٹے صاف کر لیے
روزہ ایک ایسی پاکیزہ آبشار ہے جس کا پانی باعث تسکین اور قلب کی صفائی’ پاکیزگی کا باعث ہے خوش نصیب اس کو پیتے ہیں اور نہاتے ہیں وہ روحانی اور ظاہری پاکیزگی حاصل کر لیتے ہیں گناوں سے اپنے آپ کو پاک صاف کر لیتے ہیں اپنے اندرکو باغ باغ کر لیتے ہیں جس سے ان کی روح معطر ہو جاتی ہے
ہائے افسوس کہ وہ لوگ جنہوں نے پانچ وقت اذان کا میسج سنا اور اسے اگنور کر دیا
ہائے افسوس جہنیں آبشار میسر تھی لیکن نہ انہوں نے اس کا پانی نہ پیا نہ نہا سکے ۔ سوچیں اگر
ہمارے فون پر اگر کوئ میسج کرے اور ہم رپلائی نہ کریں تو میسج کرنے والا ناراض ہوتا ہے ۔پھر ہم اس کی ناراضگی سے بچنے کے لیے میسج کا جواب دیتے ہیں اگر ہر میسج کا نہیں تو دو گے تو بعد ہم خود ہی سوچتے ہیں کہ دوسرا کیا سوچے گا کہ جواب ہی نہیں دیا تو ہم فورا اس سے معزرت کرتے ہیں کوئ جواز تراش کر میسج کا جواب کال کر کہ دیتے ہیں اور یہی میسج اگر کسی بڑے بندے یا بڑے افسر کا ہو تو ایک دو منٹ بھی ہم دیر نہیں کرتے فورا جواب دیتے ہیں کہ افسر ناراض نہ ہو جائے ۔۔ہمیں دنیا کے لوگوں کا تو بہت ڈر ہے لیکن افسوس وہ جو یوم آخرت اور اس دنیا کا رب ہے اس سے نہیں ڈرتے وہ دن میں پانچ مرتبہ ہمیں صلاح اور فلاح کی طرف اذان کے ذریعےبلاتا ہے لیکن ہم کان نہیں دھرتے
کیسے ہم ڈھیٹ ہیں کتنے ہم بے خوف ہیں ہمیں اتنے بڑے بادشاہ کا پیغام ملتا ہے کہ آؤ ہم نہیں جاتے جبکہ فائدہ بھی ہمارا ہی ہے ۔کتنے پیغام ہم نے نہیں سنے
آؤ رمضان المبارک کے مہینے رو رو کر اپنی نافرمانی پر نادم ہو کر معافی مانگ لیں۔جس سے معافی مانگ رہے ہیں وہ رب العالمین ہے غفور الرحیم ہے وہ فرماتا ہے آؤ میری طرف میں معاف کرنے والا ہوں میں سارے گناہ معاف کردوں گا۔ رب واحد سے اس کی رحمت بخشش کی طلب لے کر اپنے گناوں کی گٹھری اس رحیم کریم کے آگے لے کر جھک جائیں سجدہ ریزہ ہو کر ندامت کے آنسو کے ساتھ اس کے سامنے توبہ کر لیں۔ معافی مانگ لیں۔ الله تعالی کی رحمتوں برکتوں اور بخشش کے دروازے کھلے ہیں وضو کیجیئے اور داخل ہو جائیں اس کی رحمتوں کے سائے میں بخشش ہی بخشش ہے کرم ہی کرم ہے پس اب ہم پر ہے ہم نے کتنا مانگا وہ تو غنی ہے ہمارے مانگنے میں کمی ہو سکتی ہے اس کی کرم نوازی بے حساب ہے
اٹھیے ابھی بھی دیر نہیں ہوئ
اپنے دنیا اور آخرت سنوار لیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں