فتح مکہ کو تاریخ اسلامی میں فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے۔
یہ دور نبوی کا اہم غزوہ ہے جو 20 رمضان المبارک 8 ہجری میں پیش ایا۔
اس غزوہِ مبارکہ میں مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی۔
مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی کے اسباب:
حدیبیہ کے صلح نامہ میں درج شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائل عرب میں سے کوئی بھی قبیلہ فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی معاہدہ کرسکتا ہے۔ اس شرط کے مطابق بنو بکر قریش کے حلیف ہوئے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے حلیف قرار پائے۔ بنوبکر اور بنوخزاعہ کے درمیان سخت دشمنی تھی، بنوبکر اپنی پرانی عداوت کی وجہ سے بنو خزاعہ سے انتقام لینے کے لئے قریش سے مل کر قریش کے سرداروں نے بنو خزاعہ کے خلاف بنی بکر کو قتل کے لئے آدمی اور اسلحہ فراہم کیا۔ حملہ کی وجہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ عملی طور پر قریش کی جانب سے ٹوٹ گیا ، بنو خزاعہ نبی ﷺ کی خدمت میں فریادی ہوئے اور آپ ﷺ سے مدد طلب کرنے لگے، حضور ﷺ نے قریش کے پاس تین شرائط روانہ فرمائیں کہ وہ ان تین شرطوں سے کوئی ایک شرط قبول کریں:
1) بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا اداکیا جائے۔
2) قریش بنوبکر کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں۔
3) حدیبیہ کے معاہدہ کی برخواستگی کا اعلان کیا جائے۔
قریش کے نمائندوں نے جواب دیا کہ ہم آخری شرط منظور کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ قریش نے قاصد کو جواب دیتے وقت تو بڑی بے باکی سے اعلان کیا لیکن قاصد واپس جانے کے بعد سردارانِ قریش نادم و پشیمان ہوئے اور سب نے ابوسفیان سے کہا کہ تم جاکر معاہدہ کی تجدید کرلو ورنہ اس کا انجام بہت خطرناک ہوسکتا ہے ابوسفیان نے مدینہ طیبہ پہنچ کر گفتگو کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ اخر کار معاہدہ کی تجدید کئے بغیر لوٹنا پڑا۔
جہاد کی تیاری کا حکم:
حضور ﷺ نے صحابہ کرام کو جہاد کی تیاری کا حکم فرمایا اور حلیف قبائل کو تیاری کے لئے حکم نامہ بھیجا، مگر آپ نے کسی سے یہ نہیں فرمایا کہ کس سے جہاد کرنا ہے یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے بھی نہیں فرمایا، خاموشی کے ساتھ معرکہ کی تیاری ہوتی رہی، اس کا مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو معاملہ کی خبر نہ ہو۔
مکہ مکرمہ کی طرف روانگی:
دس رمضان المبارک کو نبی ﷺ دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں اور دو ہزار افراد شامل ہوگئے۔
اس طرح بارہ ہزار کا لشکر مکہ مکرمہ روانہ ہوا۔
مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر مقام ’’مرالظہران‘‘ پہنچ کر لشکر نے پڑاؤ ڈالا حضور ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہر شخص اپنا الگ چولہا جلائے جب بارہ ہزار صحابہ کرام نے الگ الگ چولہا جلایا تو مرالظہران کے وسیع و عریض میدان میں میلوں دور تک آگ ہی آگ نظر آنے لگی۔ حضرت عباسؓ رضی اللہ عنہ راستہ ہی میں حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ چکے تھے۔
قریش کو یہ اطلاع تو مل چکی تھی کہ مسلمانوں کا لشکر مدینہ طیبہ سے نکل چکا ہے لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان اتنے قریب پہنچ گئے ہیں۔
قریش نے تحقیق خبر کے لئے ابوسفیان، بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام کو بھیجا، یہ تینوں تحقیق کے لئے نکلے اور مرالظہران میں سب کے الگ الگ چولہوں کی اگ دیکھ کر حیران رہ گئے۔
ابو سفیان نے کہا بنی خزاعہ کا قبیلہ اتنا تو نہیں کہ مرالظہران کا طویل میدان بھر جائے۔ حضرت عباسؓ مکہ والوں پر رحم کھاکر انہیں خبردار کرنے اور یہ کہنے کے لئے آرہے تھے کہ اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مکہ والے امن مانگ لیں تو ان کے لئے بہتر ہوگا۔ اسی اثنا میں حضرت عباسؓ کی ابوسفیان اور ان کے دو ساتھیوں سے ملاقات ہوئی ہے، حضرت عباسؓ نے کہا لشکر پہنچ چکا ہے، ابو سفیان نے مشورہ طلب کیا تو حضرت عباسؓ نے فرمایا رسول اللہﷺ کی خدمت میں چلو، حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کرام نے ابوسفیان کو دیکھ کر فرمایا کافروں کا سردار ہمارے قبضہ میں ہے۔
حضرت عباسؓ ابوسفیان کو لے کر فوراً بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ میں نے ابو سفیان کو پناہ دی ہے۔
چنانچہ حضور ﷺ نے ابوسفیان کو معاف فرمایا۔ وہ ابوسفیان جنہوں نے اسلام کے خلاف بدر اور اْحد کی لڑائیاں لڑیں، قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا۔ نبی ﷺ کو شہید کرنے کی ناپاک سازشیں کیں۔ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لئے ہر طریقہ اختیار کیا یقینا وہ سزا کے مستحق تھے لیکن حضور ﷺ رحمت مجسمؐ کی شان رحمۃ للعالمین کے قربان جائیں آپ ﷺ نے انہیں بھی معاف فرما دیا۔
حضور ﷺ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر اسلامی فوج کے مناظر دکھائیں۔ ابوسفیان نے ایک ایک قبیلہ کو بڑی آن بان سے ہتھیاروں سے مسلح، سازوسامان سے اتے دیکھا قبیلہ غفار، قبیلہ جہینہ، سعدبن ہذیم اور سلیم جیسے جنگجو قبائل عرب لشکر اسلام میں شامل تھے آخر میں آفتاب رسالت اپنے جا نثاروں کے جھرمٹ میں تشریف لارہے تھے۔ اس روحانی منظر اور نورانی ماحول کا ابوسفیانؓ کے دل پر گہرا اثر پڑا۔
الیوم یوم المرحمہ:
آپ کے ایک جان نثار نے یہ اعلان کردیا کہ الیوم یوم المرحمہ (آج بدلے کا دن ہے) ابوسفیان نے جب یہ سنا تو آپ سے عرض کرنے لگے کہ آپ کا ایک جانثار یہ کہ رہا ہے جس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا الیوم یوم المرحمہ (آج معاف کرنے کا دن ہے) پھر آپ نے یہ اعلان کروادیا کہ جو بیت اللہ میں آجائے اس کو آمان ہے اور جو حضرت ابو سفیانؓ کے گھر داخل ہو جائے اس کو بھی آمان ہے۔
فتح مکہ کے نتائج:
چونکہ مکہ مشرکین بلکہ اسلام مخالف تمام طاقتوں کا سب سے اہم اڈا اور سب سے مضبوط قلعہ اور مورچہ تھا اور مخالفین اسلام کی اصل حمایت اور پشت پناہی یہیں سے ہوتی تھی اور اسی کی بنا پر ان کے حوصلے بلند رہتے تھے۔ اس بنا پر اس شہر کی پسپائی اور اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ تاریخ اسلام میں ایک اہم باب ہے جس کے بعد یہ بالکل مسلم ہوگیا کہ اب یہاں بت پرستی کا کوئی وجود باقی نہیں رہ سکتا۔
دوسری طرف عرب کے دوسرے قبیلے بھی فتح مکہ اور قریش جیسے بڑے قبیلے کے اسلام لانے کے منتظر تھے اورجس وقت مکہ فتح ہوا اور قریش مسلمان ہوگئے تو ہر طرف سے تمام قبائل کے نمائندے یکے بعد دیگرے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے صرف دو قبیلوں، ہوازن اور ثقیف کے علاوہ تمام عرب قبائل نے اسلام کے مقابلے میں اطاعت کا اظہار کیا۔
جن میں مندرجہ ذیل قبیلوں کے نمائندے شامل تھے۔
قشیر بن کعب، باھلہ، ثعلبیہ، صْدا، بنی اسد، بلّی، عذرۃ، ثمالہ، اور حدّان، ان سب نمائندوں نے پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہنچ کر آپ کی اطاعت کا اعلان کردیا۔ جنگ حنین (ھوازن) اور جنگ طائف کے بعد جو فتح مکہ کے بعدہوئیں، قبیلہ ثقیف، جس کی حیثیت طائف میں وہی تھی جو مکہ میں قبیلہ قریش کو حاصل تھی اس طاقتور قبیلے کے نمائندے بھی رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اسلام قبول کرنے کے لئے آپ کے سامنے کچھ شرائط رکھیں لیکن آپ نے ان میں سے کوئی ایک شرط بھی قبول نہیں کی جس کے بعد وہ لوگ کسی شرط کے بغیر اسلام لے آئے جو اسلام کی پیش رفت کے لئے ایک بڑی کامیابی تھی۔