“شاہ فیصل مسجد” ایک ایسی مسجد ہے، جہاں شائقین ٹولوں، گروپوں، اور جوڑوں، کی شکل میں جوق در جوق داخل ہوتے ہیں، ان میں مرد و خواتین، بچوں اور جوانوں کے داخلے کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے، گویا وہ شالیمار باغ یا معاذ اللہ کسی میوزیم میں داخل ہو رہے ہیں، ہاؤ ہؤ، شور شرابہ، اور اوباش نوجوانوں کے اخلاق سے گری ہوئی حرکات جسے دیکھ کر مردوں کے سر بھی شرم سے جھک جائے ،ہاتھوں میں کیمرے، عین مسجد کے خلاف تصویر کشی، بے حجابی، اچھلتے کودتے بچے، سرگوشیاں کرتے ہوئے نوجوان، اِدھر اُدھر لیٹے ہوئے بوڑھے اور بوڑھیاں،
یہاں اگر نماز ہو رہی ہے تو وہاں سیر سپاٹے اپنے پورے لوازمات کے ساتھ جوبن پر ہوتے ہیں،
اِسے دیکھ کر اندلس کی جامع مسجد قرطبہ کی حسن و رعنائی یاد آجاتی ہے،
قرطبہ کی طرح ِاس مسجد کا ایوان بھی دنیا بھر کی تمام مساجد کے ایوانوں سے (بغیر ستون والی) بڑا ایوان ہے، اس کی لمبائی 280 فٹ، چوڑائی بھی 280 فٹ ہے، جبکہ چھت کی اونچائی 140 فٹ ہے، اس ایوان میں تقریباً 10 ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، ایوان کے اندر ایک انتہائی خوبصورت ساڑھے چھ ٹن وزنی فانوس آویزاں ہے، یہ سنہری فانوس ملک چین کے مسلمان کاریگروں کی مہارت کا عالیشان تحفہ ہے، فانوس میں 11 سو بلب نصب ہیں، جو کہ نہ صرف ایوان کو روشنی مہیا کرتی ہیں بلکہ اس کی خوبصورتی میں بھی چار چاند لگا دیتی ہیں،
مسجد کے دو صحن ہیں، صحن کے اطراف برآمدے بنے ہوئے ہیں، مسجد کے صحن برآمدوں اور ایوانوں میں تقریبا ایک لاکھ افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، اس مسجد کا وسیع و عریض ایوان اس کے بلند و بالا مینار، ان پر لگے ہوئے ماہِ نور خوبصورت فانوس، پانی کے تالاب، پانی اچھالتے بے شمار فوارے، اور قدرتی حسن سے مالا مال محل وقوع، انسان کو چند لمحوں کے لیے مبہوت کر دیتا ہے،
یاد رکھیں جامع مسجد قرطبہ غیروں کی تسلط میں تھا، “قرطبہ” مسجد سے میوزیم بنا دیا گیا تھا ، لیکن استنبول کی جامع مسجد “صوفیہ” تو اپنوں کے پاس ہوتے ہوئے بھی ایک سیر گاہ بن گیا تھا، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مسجد “صوفیہ” میں نماز پڑھنا بھی ممنوع کر دیا تھا ،
ملک عزیز پاکستان میں بھی بعض لوگ کمال اتا ترک کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں، خدا نہ کرے یہاں بھی ترکی کی تاریخ دہرائی جائے، اور کسی مسجد کو میوزیم قرار دیا جائے، لیکن تاریخی اِن مساجد کے ساتھ خود ہمارا اپنا برتاؤ میوزیم جیسی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، اس ویڈیو کو میں آپ دیکھیں ٹک ٹاکروں کی صورتحال مسجد میں ڈانس یہ بے ادبی ہی نہیں بلکہ شعائر اسلام کی توہین ہے،
شاعر نے کیا خوب کہا
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
