”ان سب کو سمیٹ کر ایک کونے میں اکھٹا کر کے آگ لگا دو۔“ سلمان صاحب نے لان میں جا بجا جھاڑ جھنکار، سوکھے اور خود رو پودوں کی جانب اشارہ کیا۔
”ادھر پھولوں کی نئی پنیری اور بیج رکھے ہیں انہیں لگا دو۔“ انہوں نے مالی کو مزید ہدایات دیں۔
”جی صاحب جی ان بیکار پودوں کا کیا کرنا لان کی ساری خوبصورتی ان کی وجہ سے مانند پڑی ہے۔ میں ابھی ان کو تلف کر کے ان کی جگہ نئے پودے لگاتا ہوں۔ کچھ ہی دنوں میں یہ اپنی بہار دکھا رہے ہوں گے ان شاء اللہ۔“
مالی کی بات سن کر سلمان صاحب مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھے۔دفتر پہنچنے سے پہلے انہیں بچوں کو اسکول بھی چھوڑنا تھا۔
گاڑی ٹریفک رش کے باعث سڑک پر سست روی سے چل رہی تھی۔
”آئی آئی coke Studio 15“، سلمان صاحب کا بیٹا عمار سڑک پر لگے بڑے سائز کے بل بورڈ پر کوک سٹوڈیو سے متعلق اشتہار دیکھ کر خوشی سے بتانے لگا:
”کوک سٹوڈیو ہم سب دوستوں کا پسندیدہ پروگرام ہے۔“
”میں بھی اسکول کے ایک پروگرام میں آئی آئی پر پرفارم کر رہی ہوں۔“
ان کی چھوٹی بیٹی ہالہ بھی پرجوش ہوئی۔
”ہاں! اب تو مالی بابا اور ڈرائیور انکل کے بچے جس اسکول میں جاتے ہیں وہاں ان کے لیے میوزک اینڈ ڈانس کلاسزز ارینج ہو رہی ہیں لیکن پتا نہیں کیوں مالی بابا کل ڈرائیور انکل سے کہہ رہے تھے کہ اگر اسکول والوں نے ان کی بیٹی کو ناچ گانے میں حصہ لینے پر مجبور کیا تو وہ اسے اسکول سے اٹھا لیں گے۔“
عمار نے بہن کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”بچو! آپ کا اسکول آ گیا ہے۔“ سلمان صاحب نے بچوں کو اسکول چھوڑ کر گاڑی اپنے آفس کی جانب موڑ دی۔
خبریں سننے کے لیے انہوں نے گاڑی میں لگی اسکرین آن کی تو خبر چل رہی تھی۔
”غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف امریکا کی بڑی یونیورسٹیوں میں احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں جو اب یورپ میں بھی پھیل گئے ہیں۔
خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق طلبہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے کمپنیوں اور شخصیات کا بائیکاٹ کا مطالبہ کررہے ہیں۔
7 اکتوبر سے غزہ میں جاری جنگ کے بعد یونیورسٹیوں میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، جس کے بعد یہ مظاہرے اب یورپ میں بھی بڑے پیمانے پر پھیلتے جارہے ہیں۔
آسٹریلیا میں سڈنی یونیورسٹی میں طلبہ نے احتجاجی کیمپ لگا لیے، آسٹریلوی وزیراعظم کی اسرائیل اور غزہ سے متعلق پالیسی کے خلاف نعرے بازی کی، طلبہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل سے منسلک کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کی جائے۔
پیرس میں درجنوں طلبہ نے سوربون یونیورسٹی کے باہر شدید احتجاج کیا، جرمنی میں بھی پارلیمنٹ کے باہر غزہ کے حق میں لگائے گئے کیمپ پر پولیس نے دھاوا بول دیا۔
یاد رہے کہ اس وقت امریکا کی جن یونیورسٹیوں میں احتجاج کیا جارہا ہے ان میں کولمبیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس، جارج واشنگٹن یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی شامل ہیں۔
اس کےعلاوہ ایمرسن کالج، نیویارک یونیورسٹی، ایموری یونیورسٹی، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی، فیشن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سٹی کالج آف نیویارک، انڈیانا یونیورسٹی بلومنگٹن، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی ایسٹ لانسنگ کیمپس میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
کولمبیا یونیورسٹی پہلی یونیورسٹی ہے جہاں طلبہ کی بڑی تعداد نےاحتجاج کیا۔“
بین الاقوامی خبروں کے بعد اب قومی و علاقائی خبریں اسکرین کی زینت بن رہی تھیں۔
”حکومت پنجاب نے تعلیمی اداروں میں گانے کے مقابلے کروانے کا شیڈول جاری کر دیا
طلباء کو اچھی گائیگی پر 20 ہزار سے 2 لاکھ تک انعامات بھی دیے جائیں گے۔“
آفس پارکنگ میں گاڑی روکتے ہوئے ان کے ذہن میں آئندہ ہفتے بیرون ملک سے آنے والی ٹیم کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ کو کامیاب بنانے کی فکر چل رہی تھی۔
”ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بڑے عہدے پر کام کرنا کتنا مشکل ہے کوئی مجھ سے پوچھے۔“ سلمان صاحب جو صبح سے دن ڈھلنے تک مسلسل آفس کے مختلف امور نمٹا رہے تھے لمحہ بھر کو ڈیسک-ٹاپ سے نظریں ہٹا کر کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر لمبا گہرا سانس لے ہی رہے تھے کہ ایک بار پھر کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔
”خالد صاحب نے ابھی تک اپنی رپورٹ کیوں جمع نہیں کروائی؟“ یہ خیال آتے ہی ان کی طبیعت میں ناگواری کا احساس ابھر آیا تھا۔
”خالد صاحب آپ کی رپورٹ ساڑھے پانچ بجے ڈیو تھی اس وقت چھ بجے رہے ہیں؟“
خالد صاحب ادھیڑ عمر کے معقول انسان تھے۔ وقت کی پابندی اور اپنے کام میں مہارت، قابلیت اور اخلاص کی وجہ سے سلمان صاحب کی نظروں میں ان کی بڑی عزت تھی۔
”سر میں کچھ پریشان ہوں جس کی وجہ سے کام پر فوکس نہیں کر پا رہا، آپ مجھے ایک دو دن کی چھٹی دے دیں۔“
”اتنی اہم میٹنگ سر پر ہے آپ کو چھٹی کیسے مل سکتی ہے؟“
سلمان صاحب نے غصے اور پریشانی سے ہونٹ بھینچے۔
”مجھے بتائیے کیا پریشانی ہے شاید میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں۔“
خالد صاحب بتانے میں ہچکچا رہے تھے لیکن جب اصرار بڑھا تو انہیں بتانا ہی پڑا
”سر میرا بڑا بیٹا یونیورسٹی جاتا ہے جبکہ چھوٹا بیٹا اور بیٹی کالج میں پڑھتے ہیں۔ ہم اپنی اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایک دوسرے کو بالکل وقت نہیں دے پاتے لیکن کل اتفاقاً جب میں نے ان کی آپس کی گفتگو سنی تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے انہیں جن تعلیمی اداروں کے حوالے کیا تھا انہوں نے تو میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا کیا ہے۔ میرا یونیورسٹی جانے والا بیٹا ٹرانس جینڈرز اور قادیانیوں کے حق میں دلائل دے رہا تھا۔
کالج جانے والے دونوں بچے سرکاری سطح پر ہونے والے ناچ گانے کے پروگراموں میں اپنی اپنی رجسٹریشن کروا چکے ہیں اور زور و شور سے اس کی تیاریوں میں مگن ہیں۔ اور مجھے اب پتا چلا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے۔ میرے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں اور میڈیا نے مل کر بہت بڑا فراڈ کیا ہے سر۔“
خالد صاحب سر پکڑے کرسی پر بیٹھے تھے اور سلمان صاحب غصے اور جھنجھلاہٹ میں انہیں دیکھ رہے تھے. جس مسئلے کو وہ مسئلہ ہی نہیں سمجھتے تھے اس کا حل کیا پیش کرتے۔
اسی اثناء میں طارق صاحب اپنی فائلز کے ہمراہ دفتر میں داخل ہوئے۔
”سر آنے والی میٹنگ کے حوالے سے معزز شرکاء کے لیے سب انتظامات مکمل ہیں آپ جائزہ لے لیجیے اور کچھ سفارشات کو اوکے کر دیجیے۔“
انہوں نے چند کاغذات سلمان صاحب کے سامنے رکھے۔
انتظامات بہترین تھے۔ سلمان صاحب کو کچھ اطمینان ہوا لیکن یہ اطمینان اس وقت غائب ہو گیا جب میٹنگ شرکاء کی آؤ بھگت کے لیے اسرائیلی مصنوعات کی جگہ متبادل مقامی برانڈز کی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔
”میں حیران ہوں کہ اتنی اہم میٹنگ کے لیے یہ کیسی تجاویز ہیں؟“ انہوں نے تیز نظروں سے طارق صاحب کو گھورا۔
”سر! اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں… اس وقت دنیا بھر میں سلیم الفطرت لوگ چاہے ان کا تعلق کسی ملک، مذہب اور قوم سے ہے انسانی اور اخلاقی اقدار کی بنا پر غزہ میں سات اکتوبر سے جاری انسانی تاریخ کی بدترین نسل کشی کے خلاف اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر متحد ہیں تو ہمیں اس پر حیرانی اور تردد کیوں ہے جبکہ بحیثیت مسلمان مظلوم کلمہ گو فلسطینیوں کا ہم پر سب سے زیادہ حق ہے۔“ طارق صاحب اپنی رائے پر قائم تھے۔
وہ آفس سے نکلے تو تھکن اور الجھن کے باعث سلمان صاحب سے گاڑی چلانا مشکل ہو رہی تھی۔
سونے پر سہاگہ سخت آندھی و طوفان کے ساتھ بارش بھی شروع ہو چکی تھی کہ اچانک ایک ہوٹل کے سامنے ان کی گاڑی جھٹکے سے رک گئی۔ گاڑی سے سر نکال کر انہوں نے باہر دیکھا چند نوجوان تیز ہوا سے گرنے والے بینرز سنبھال رہے تھے۔
”پلیز ہیلپ“، سلمان صاحب نے بیچارگی سے ان جوانوں کو آواز دی۔
”سر آپ گاڑی لاک کر کے اندر ہال نمبر 1 میں تشریف لے جائیں، وہاں ہمارا ایک پروگرام جاری ہے۔ لیکچر کے اختتام تک ان شاء اللہ ہم کوئی میکنک بلوا دیں گے۔“
وہ چار و نا چار ہال میں داخل ہوئے تو ایک بڑی پراجیکٹر سکرین پر تقابلی جائزے کے لیے تین مناظر دکھائے جا رہے تھے.
منظر نمبر 1 میں لہو لہو غزہ، اقصٰی و فلسطين،
جبکہ منظر نمبر 2 میں یورپ و امریکہ کے کالج اور یونیورسٹیز میں فلسطین کے حق میں احتجاجی دھرنے اور مظاہرے
اور منظر نمبر 3 میں پاکستانی کالجز اور یونیورسٹیز میں ہونے والے کنسرٹس دکھائے جا رہے تھے۔
پراجیکٹر اسکرین پر منظر دھندلائے تو مقرر کی متاثر کن آواز ہال میں گونجنے لگی تھی:
”اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم کو لائے گا کہ جن کو اللہ چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں، مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست، اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے، اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے۔“
آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ بحیثیت قوم قیام پاکستان کے وقت کئے گئے اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے بھول جائیں…
آپ اللہ کے دین کی مدد کرنے سے منہ موڑ لیں…
آپ کو مسجد اقصٰی کے تقدس کی پامالی
پی ایس ایل کی لایعنی تفریح سے نہ روک سکے..
آپ سے غزہ کے ہزاروں شہیدوں کا لہو کے ایف سی، میکڈولنڈز اور کوک کے ذائقے نہ چھڑوا سکے..
فلسطین میں خون مسلم گلی کوچوں میں بہہ رہا ہو اور آپ کے تعلیمی ادارے محافل رقص و سرود سجانے میں مشغول ہو جائیں.. دنیا بھر میں مسلمان مغلوب ہوں اور آپ اسلام کا پرچم اٹھا کر چلنے کو تیار نہ ہوں تو یاد رکھیں
آپ رب العالمين سے منہ موڑ سکتے ہیں تو وہ بھی آپ سے منہ موڑ لے گا۔
پاکستانی نفاذ اسلام کے لیے نہیں اٹھیں گے تو یہ فریضہ کوئی اور سرانجام دے لے گا….
آپ طوفان الاقصی کو مدد اور تعاون فراہم نہیں کریں گے تو یہ مدد انہیں امریکہ کی یونیورسٹیوں سے مل جائے گی۔
آپ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے تو یہ تحریکیں یورپ میں چلیں گی۔
آپ اپنا وقت، مال جان اس دین کی نصرت میں نہیں لگائیں گے تو آپ کی حیثیت اللہ رب العزت کے ہاں کسی باغ کے جھاڑ جھنکار سے زیادہ نہیں کہ جسے اکھٹا کر کے آگ میں جھونک دیا جائے اور پھر زمین ہموار کر کے نئے پودے اور پھول اگا دیے جائیں۔
فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے
اور طوفان الاقصی اتمام حجت ہے۔“
پراجیکٹر سکرین پر بہت سے مناظر بکھرے پڑے تھے مقرر کی آواز ہال میں گونج رہی تھی۔
مگر سلمان صاحب کے دماغ پر جیسے ہتھوڑے برس رہے تھے…. غزہ میں مسلسل ہونے والی شہادتیں ان کا امتحان بن چکی تھیں۔
رات کی چادر آسمان کے سر سے سرک رہی تھی۔
گاڑی ٹھیک کروا کے سلمان صاحب جب گھر پہنچے تو صبح کی آمد آمد تھی۔
سورج کی پہلی پہلی کرنیں لان کے سبزے پر چمک رہی تھیں۔ مالی نے جھاڑ جھنکار اور مردہ پودے کونے میں اکھٹے کر کے جلا دیے تھے اور اب ان کی راکھ بھی کہیں نہیں تھی۔
کیاریاں نئی پنیری کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں اور ننھے پودے جلد از جلد لان میں اپنی بہار دکھانے کو بے چین تھے۔
ایک طرف استقامت سے کچھ تناور درخت بڑی شان سے کھڑے تھے. یہ وہ تھے جن کا رشتہ خزاں میں بھی اپنی جڑوں سے کمزور نہیں ہوا تھا۔
سلمان صاحب لان میں نہیں فیصلے کی گھڑی میں دوراہے پہ کھڑے تھے اور طوفان الاقصی اتمام حجت لیے سامنے تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ صرف سلمان صاحب ہی نہیں ہم سب تک فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ طوفان الاقصی اتمام حجت بنا سامنے کھڑا ہے.. حق اور باطل… صرف دو ہی رستے باقی ہیں تیسرا کوئی انتخاب سرے سے ہے ہی نہیں اور ہم سب کو ایک ہی انتخاب اب لازماً کرنا ہے.
اور ہاں جو شعوری طور پر طوفان الاقصی کی پشت پناہی کا، حق کے راستے کا انتخاب نہیں کرے گا وہ ضرور باطل کے راستے پر بھٹک جائے گا.