بچپن سے سنتے آئے تھے کہ شادی خوشی کا دوسرا نام ہے، مگر یہ کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ شادی کے بعد خوشی کا انحصار مکمل طور پر سسرال والوں کے موڈ پر ہوتا ہے۔ “مجھے ساجن کے گھر جانا ہے۔“ نہ جانے کیوں یہ فقرہ سنتے ہی دل میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں، مہندی کی خوشبو ناک میں گُھس جاتی ہے، اور دماغ خودبخود کجرارے کجرارے گنگنانے لگتا ہے۔ ساجن کے گھر جانے کی تیاری اس وقت شروع ہو جاتی ہے جب لڑکی پہلی بار آئینے میں خود کو دیکھ کر سراہتی ہے۔
جب لڑکی سچ میں ساجن کے گھر جانے کے لئے رخصت ہوتی ہے ، سب رو رہے ہوتے ہیں۔ ماں باپ اس لیے کہ بیٹی جا رہی ہے، بیٹی اس لیے کہ وہ خود بھی نہیں جانتی کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ اس وقت صرف دولہا مسکرا رہا ہوتا ہے، وہ بھی شاید اس لئے کہ اسے لگتا ہے، “اب تو سب میرے ہاتھ میں ہے!” بیچارہ!!!! اسے کیا معلوم کہ جلد ہی وہ ماں اور بیوی کے درمیان سینڈوچ بننے والا ہے۔
ساجن کا گھر! کیسا پیارا نام ہے نا؟ مجھے ساجن کے گھر جانا ہے لیکن جب دلہن پہلی بار وہاں قدم رکھتی ہے، تو وہ احساس ہوتا ہے جیسے کسی سوشل ایکسپیرمنٹ کا حصہ بن گئی ہو۔
کچن میں داخل ہوتے ہی سب آنکھیں اُٹھا کر یوں دیکھتے ہیں، جیسے بہو کو نہیں بلکہ کسی نیشنل کوکنگ ٹیسٹ میں شریک کھلاڑی کو دیکھ رہے ہیں۔ اور بیچارہ ساجن!! وہ تو گھر میں کسی ڈبل ایجنٹ کی طرح ہوتا ہے۔ بیوی سے وعدے کرتا ہے، ماں سے وفاداری نبھاتا ہے، اور بیچ میں جب مشکل آ جائے تو فٹافٹ موبائل نکال کر ریلز دیکھنے لگتا ہے۔
ساجن کا گھر ایک ایسا ملک ہے جہاں بہو ویزا لے کر آتی ہے لیکن ہر روز امیگریشن آفیسر یعنی ساس سے نیا انٹرویو دینا پڑتا ہے:
“بیٹا، صبح دیر سے اٹھی ہو؟”
بیٹا ، ہم چٹنی کونڈی میں بناتے ہیں، گرائنڈر میں نہیں۔
“بیٹا، آلو کے سالن میں کچھ کسر رہ گئی!”
“بیٹا، تمہاری امی بھی ایسے ہی چپ چاپ رہتی ہیں؟”
افففففف! ہر دن ایک نیا امتحان، ہر بات ایک نیا تبصرہ، اور ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک سیکرٹ فیملی پالیسی!! ساس کا بس نہیں چلتا کہ بہو کا دماغ کھول کر چیک کریں کہ اس میں سلیقہ کتنا بھرا ہوا ہے۔
نند کا واحد مشن یہ ہوتا ہے کہ نئی آنے والی بہو کو بتائے، “ہماری اماں نے ہمیں تو اتنا سکھایا ، یہ سمجھایا ، وہ بتایا۔
گھر کے ماحول کو گرم رکھنے میں چولہے اور ہیٹر کے ساتھ ساتھ ساس کی باتوں کا بھی پورا پورا ہاتھ ہوتا ہے۔
ساس بہو کو کبھی براہِ راست کچھ نہیں کہتیں، بس “اشاروں” میں کہتی ہیں:
“ہماری بیٹی ہوتی نا، تو فوراً سمجھ جاتی!”
ساجن کے گھر میں بہو کے ارمان اکثر پریشر کُکر میں بند ہو جاتے ہیں۔
کبھی وہ چائے میں محبت گھولتی ہے، اور ساس پوچھ لیتی ہیں:
“بیٹا، اتنی چینی تمہارے گھر میں پیتے ہوں گے، ہم ذرا سلیقے والے لوگ ہیں۔
ساجن کا گھر یا مجھے ساجن کے گھرجاناہے ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جس میں لڑکی کو بغیر تلوار اور بغیر ڈھال کے اتار دیا جاتا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکی کو دلہن بنایا جاتا مگر کوئی اُسے یہ نہیں بتاتا کہ سسرال دراصل ‘دوسرا گھر’ نہیں، بلکہ ‘پہلا مورچہ’ ہوتا ہے۔ اور بہو؟ وہ ہر رات بستر پر لیٹ کر سوچتی ہے:
“میں تو سمجھی تھی شادی کے بعد شہزادی بن جاؤں گی، مگر یہاں تو میں ہر وقت انٹرنشپ پہ ہوں!”
اکثر ماں اپنی بیٹی سے کہتی ہے،”بیٹا، سسرال میں سب کا دل جیتنا!”
اور باپ صرف اتنا کہتا ہے:
“ہماری عزت کا خیال رکھنا!” گویا لڑکی پورا خاندان کندھوں پہ اٹھا کے جا رہی ہو۔
عموماً ساجن کے گھر کا تصور دل میں کچھ یوں ہوتا ہے: ایک محبت بھرا گھر، جہاں ساس ایک مہربان ماں، سسر ایک نرمی سے بولنے والے بابا، نندیں بہترین دوست اور شوہر… بس، شوہر ہی ہوتا ہے!
لیکن حقیقت؟ حقیقت یہ ہے کہ ساجن کا یہ گھر ایک ایسا خاندانی سینٹر ہے جہاں ہر کردار کو بہو کی آنکھوں سے ناپا جاتا ہے۔ وہاں ہر بات ناپی تولی جاتی ہے، چاہے وہ چائے میں چینی ڈالنے کا زاویہ ہو یا نند کے بچے کو پکڑنے کا انداز۔ کہ اس نے یہ کام ایسے کیا ہے ، وہ کام ویسے کیا ہے، حالانکہ اس بیچاری نے تو جیسے تیسے کیا ہوتا ہے۔
سسرال وہ جگہ ہے جہاں بہو کو ہر وقت اپنے کردار، گفتار، رفتار، پکوان، کپڑوں، سلیقے، رویے، یہاں تک کہ سانس لینے کے انداز پر بھی نمبر ملتے ہیں۔ اور یاد رکھیے، یہ نمبر کبھی بہو کے چہرے پر ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ساس، نند اور باقی خاندان کے فیملی واٹس ایپ گروپ میں لکھے جاتے ہیں۔
ساجن… جی ہاں، وہی شوہر… جو شادی سے پہلے دن میں دس بار کہتا تھا:
“میں تمہیں چاند لا کر دوں گا!”
اب شادی کے بعد وہ چاند کہیں غائب ہو چکا ہوتا ہے۔
شادی سے پہلے یہی ساجن دن میں آٹھ بار فون کرتا تھا، شادی کے بعد وہی ساجن دفتر سے آ کر موبائل لے کر سیدھا کونے میں بیٹھ جاتا ہے۔
ساجن کے گھر میں لڑکی اگر کھل کر ہنستی ہے تو نند اپنے کان کھڑے کر لیتی ہے اور بہو آگر خاموش ہو تو ساس فکر مند ہو جاتی ہیں۔ گویا بہو نہ ہوئی گوگل میپ ہو گیا کہ لوکیشن ہر وقت آن اور نگاہ ہر لمحہ لوکیشن پر؛۔ اس سب میں ساجن کا کردار؟
“امی جو کہہ رہی ہیں وہ ٹھیک ہے، تم دل پہ نہ لو!”
اتنی شکایتوں کے باوجود، اسی سسرال میں کبھی شوہر کا پیار، کبھی سسر کی خاموش ہمدردی، کبھی بچوں کی ہنسی، اور کبھی اچانک ساس کی ایک تعریف!!! یہ سب ایک دن بہو کے دل کو راحت سے بھر ہی دیتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ سسرال ایک ایسا انسٹیٹیوٹ ہے جہاں بہو کو “بہو” بننے کے لیے برسوں لگتے ہیں، مگر تنقید کے لیے صرف پہلا دن ہی کافی ہوتا ہے۔ وقت گزرتا ہے۔ وہی بہو جو کبھی ہر بات پر وضاحت دیتی تھی، اب خود وضاحت لینے بیٹھتی ہے؛ اور نئی بہو کے ہاتھ میں چمچ دیکھ کر مسکرا کر کہتی ہے:
“بیٹا، ہلدی ذرا کم ڈالنا سیکھ لو، باقی تو وقت سکھا ہی دے گا!” اور یوں یہ چکر چلتا رہتا ہے… ساجن کا گھر ایک بہو کی نرسری بنتا ہے اور پھر بہو ساس بن کر اگلی نسل کی تربیت کرنے لگتی ہے۔