Karachi is under the impact of earthquakes / Article / Azra Khalid 18

سندھ طاس معاہدہ اور پاک بھارت تنازعہ/عذرا خالد

برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان چودہ برس مذاکرات کے بعد عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس آبی معاہدہ ستمبر 1960ء میں طے ہوا۔
1960ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے ۔ یہ آبی معاہدہ اس امید کے ساتھ کیا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کے عوام اور بالخصوص کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہو گا۔

سندھ طاس معاہدہ کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر کنٹرول دیا گیا اور پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر اختیار دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کو حق دیا گیا۔
اس معاہدہ کے تحت بھارت کو مغربی
دریاؤں پر ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس لگانے کی بھی اجازت دی گئی۔ لیکن ہائیڈرو پروجیکٹ منصوبوں کو سخت شرائط پر عمل کرنا فھا۔ انہیں “رن آف دی ریور” پروجیکٹ ہونا تھا- یعنی وہ پانی کے بہاؤ یا ذخیرہ کو نمایاں طور پر تبدیل نہیں کر سکتے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ پاکستان کے پانی کے حقوق بہاو والے ملک کے طور پر کسی طرح متاثر نہ ہوں۔

یہ معاہدہ پاکستان کو کسی ایسے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھانے کی بھی اجازت دیتا ہے جو پانی کے بہاؤ کو متاثر کر سکتا ہو۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام پر 22 اپریل 2025ء کو حملہ کیا اور خود ہی اس ہونے والے حملے کو بہانہ بنا کر پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور اٹاری چیک پوسٹ بند کرنے کا اعلان کردیا۔

سندھ طاس معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ ہے ۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے کیا گیا تھا تاکہ پانی کے مسائل پر کوئی جنگ یا تنازع نہ ہو۔
پاکستان زرعی ملک ہے اور فصلوں کی کاشت دریاؤں کے پانی سے کی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کی زراعت کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ کے تحت ہر سال انڈس سے آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو پاکستاناور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہے جبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔

بھارت کو مغربی دریاؤں کا کنٹرول حاصل ہے ۔ ان دریاؤں کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا، اس لیے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی۔
بھارت نے ہمیشہ معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف جنگی آبی جارحیت کے لیے استعمال کیا۔ بھارت نے ماضی میں کئی دفعہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کرکے پاکستان آنے والے پانی کو متاثر کیا۔

حکومت پاکستان کے ذرائع کے مطابق سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہو نا ضروری ہے۔ لیکن بھارتی حکام کی ہٹ دھرمی کے باعث گزشتہ تین سال سے پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس نہیں ہوسکا۔ دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022 ء کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔
۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں منگل 22 اپریل 2025ء کو ہونے والے حملے میں ہلاکت کے بعد بھارت نے متعدد سخت اقدامات کیے-
اُن میں اٹاری واہگہ سرحد کی بندش، سفارتی عملے میں کمی اور ویزوں پر پابندی کے علاوہ چھ دہائی پرانے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کی معطلی بھی شامل ہے۔

بھارت نے سندھ طاس معاہدہ پر عملدرآمد روکنے کا اعلان اب کیا ہے لیکن بھارت عملی طور سے تقریباً چار برسوں سے اس معاہدے پر عملدرآمد ختم چکا ہے۔
بھارت نے گذشہ چار برس سے نہ تو واٹر کمشنرز کا سالانہ اجلاس منعقد کیا اور دریاؤں میں موجود پانی کا ڈیٹا بھی 30 سے 40 فیصد ہی فراہم کرتذ رہا۔ بھارت صرف 30 سے 40 فیصد ڈیٹا عالمی ادارے کو اور پاکستان کو دے رہا ہے اس کے علاوہ باقی ڈیٹا پر وہ نل یا نان آبزروینٹ لکھ کر خانہ پوری کر رہا ہے۔

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں چھ نہروں کی تعمیر کے منصوبے پر بھی پنجاب اور سندھ میں تنازع چل رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے سابق ایڈیشنل کمشنر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی بنیادی ذمہ داریوں میں کم از کم سال میں ایک مرتبہ دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز کا اجلاس ہونا، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا شیئر کرنا اور دونوں اطراف دریاؤں پر جاری پراجیکٹس پر دوسرے ممالک کی معائنہ ٹیموں کے دورے کرنا شامل ہے۔

سندھ طاس معاہدہ کی معطلی اور پاکستان کے لیے مشکلات:

ابی ذخائر کے حکام کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ بھارت کے پاس ابھی کوئی ایسا ذخیرہ کرنے کی جگہ نہیں ہے جہاں وہ دریاؤں کے پانی کو جمع کر سکے۔
معاہدے کا تعطل جاری رہتا ہے تو اس کا نقصان پاکستان کو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ بھارت ان دریاؤں پر جو ڈیمز، بیراج یا پانی ذخیرہ کرنے کے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے وہ ان کا ڈیزائن پاکستان کو اطلاع دیے بغیر تبدیل کر لے۔
اس معاہدے کے تحت
بھارت پاکستان کو اپنے ہر آبی منصوبے کے ڈیزائن اور مقام کے متعلق تفصیلات دینے کا پابند ہے اور بھارت نےاس شق کی پابندی ماضی میں کی ہے۔
ان حالات میں اس بات کا خدشہ ہے بھارتپاکستان کو اطلاعدیے بغیر ایسے مزید منصوبے تیار کر سکتا ہے جس کا اثر پاکستان کی طرف انے والے پانی یا پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی پر پڑے۔

پاکستانی حکام کے اندازوں کے مطابق ایسا کرنا بھارت کے لیے آسان نہیں ہو گا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی بینک اس معاہدے کا ثالث ہے اور پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جا سکتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ کی اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے دونوں ممالک کی رضامندی ضروری ہے۔ بھارت نے پاکستان کے علم میں لائے بغیر اس میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی تو اور اس صورت میں پاکستان عالمی عدالت انصاف میں یہ معاملہ لے جا کر بھارت کی معاہدے کی خلاف ورزی پر مقدمہ کر سکتا ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت کی جانب سے شدت پسندی کی کسی کارروائی کے بعد سندھ طاس معاہدے کو بطور ’ہتھیار‘ استعمال کرنے کی بات کی گئی ہو۔

چند برسوں کے دوران جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات پیدا ہوئے تو فورآ سندھ طاس معاہدہ توڑنے کی گونج بھارت کی طرف سے سنائی دیتی ہے۔

سنہ 2001ء اور سنہ 2002ء میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان حالات کشیدگی کی طرف بڑھے تو بھارت کے آبی وسائل کے ذمہ داران ’پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں۔ اور شر انگیز بیانات دے کر یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان شدید ترین خشک سالی کی زد میں آ جائے گا اور پاکستانی عوام
پانی کے ایک ایک قطرے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

2016ء میں اڑی میں ایک فوجی کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے کے ڈیڑھ ہفتے بعد ستمبر میں سندھ طاس معاہدے کی ایک جائزہ میٹنگ ہوئی تھی جس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘

بھارتی حکومت ہر دو چار سال بعد 1960ء میں پانے والے معاہدے کی شقوں میں تبدیلیوں کا مطالبہ
پورے زور شور سے کرتی آئی ہے۔ تقریباً دو برس قبل بھی بھارت نے پاکستان کو معاہدے میں صرف ’تبدیلیوں‘ پر بات چیت کا ذکر تھا۔

لیکن بھارت نے اگست 2024ء میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس معاہدے پر ’نظرِ ثانی‘ کا بھی مطالبہ کیا ۔

خدا نخواستہ بھارت معاہدے کو معطل کر دے تو پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟
سندھ طاس معاہدہ کی رو سے پاکستان دریائے سندھ سے تقریباً 80 فیصد پانی حاصل کرتا ہے، ان دریاؤں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ سسٹم میں موجود 16.8 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے بھارت کو تقریباً 3.3 کروڑ ایکڑ فٹ پانی مختص کیا گیا ہے۔ اس وقت، بھارت اپنے اجازت شدہ حصے کا 90 فیصد سے کچھ زیادہ پانی استعمال کرتا ہے، اس لیے باقی ماندہ پانی کے حصہ پر پاکستان کا انحصار ہے۔

یہ انحصار انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ دریا پاکستان کی زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باقی ماندہ پانی کروڑوں افراد کی آبادی کے لیے انتہائی اہم ہے اور یہ پانی ملک کی 23 فیصد زراعت کی ضروریات کو پورا کرتا ہے جب کہ تقریباً 68 فیlصد دیہی معاش کی براہ راست مدد کرتا ہے۔

پانی کی اس سپلائی میں کوئی بھی رکاوٹ بڑے پیمانے پر منفی نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر فصلوں کی پیداوار میں کمی، غذائی عدم تحفظ، اور معاشی عدم استحکام، خاص طور پر ان خطوں میں جو پہلے ہی غربت اور جاری مالیاتی بحران کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے وسائل بھی ناکافی ہیں اس لیے مزید پیچیدہ صورتحال پیش آنے کے امکانات بڑھنے کا خدشہ درپیش رہتا ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیموں کا مشترکہ لائیو اسٹوریج صرف 14.4 ملین ایکڑ فٹ ہے جو کہ معاہدے کے تحت پاکستان کے سالانہ استحقاق کا محض 10 فیصد ہے۔ پانی کے بہاؤ میں کمی یا موسمی تبدیلی کے وقت، پانی کی ذخیرہ اندوزی میں کمی پاکستان کو شدید مسائل اور خطرات سے دو چار کر دیتی ہے۔

سنگاپور نیشنلیونیورسٹی کے پروفیسر امت رنجن نے جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ویانا کنونشن کے تحت معاہدے ختم کرنے یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہو گا۔
وہ اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ’اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی سطح کا تعلق بھی ٹوٹ جائے تو بھی اس معاہدے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی طرح یہ معاہدہ ٹوٹ بھی جائے تو بھی ایسے بین الاقومی کنونشن، ضوابط اور اصول موجود ہیں جو دریائی ملکوں کے آبی مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

ابی محکمہ میں شامل اہلکار آبی اور تکنیکی امور کے بہترین ماہر ہوتے ہیں۔ایک فریق دریاؤں کے پانی روک کر صرف سیلاب لا سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کی قدرتی اور جغرافیائی مجبوری ہے۔ بھارت اس معاہدے کو آبی ھتیار کے طور پر استعمال کرکے پوری دنیا کو بے وقوف بنانے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے اور آئندہ بھی ان شاءاللہ ناکام ہی رہے گا۔

عذرا خالد

پاک بھارت جنگ/ڈاکٹر محمد جہان یعقوب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں