119

اسماعیل ھنیہ کے بچوں کی جنت میں عید/از قلم/عصمت اسامہ/سینئر ممبر اسلامک رائٹرز خواتین ونگ

عید کے دن الشاطی کیمپ غزہ میں اچانک قیامت برپا ہوگئ جب اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک گاڑی پر متعدد میزائل داغے گئے ۔اس گاڑی میں حماس کے پولیٹیکل بیورو چیف اسماعیل ھنییہ کے بیٹے ،پوتے پوتیاں اور خواتین شامل تھیں ۔

اسماعیل ھنیہ نے اپنے 3 بیٹوں اور متعدد پوتے ،پوتیوں کی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
“ہمارے تمام لوگوں اور غزہ کے رہائشیوں کے تمام خاندانوں نے اپنے بچوں کے خون کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور میں ان میں سے ایک ہوں۔ میرے خاندان کے تقریباً 60 افراد تمام فلسطینیوں کی طرح شہید ہوئے، اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قابضین کا خیال ہے کہ لیڈروں کے بیٹوں کو نشانہ بنانے سے یہ ہمارے لوگوں کے عزم کو توڑ دے گا۔ ہم قابضین سے کہتے ہیں کہ یہ خون ہمیں اپنے اصولوں اور اپنی سرزمین پر قائم رہنے میں مزید ثابت قدم بنائے گا۔
دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو گا، اور قلعے گر نہیں سکیں گے۔
جو دشمن قتل و غارت، تباہی اور فنا کے ذریعے نکالنے میں ناکام رہا، وہ مذاکرات میں نہیں لے گا۔ دشمن وہم میں مبتلا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرے بیٹوں کو مار کر ہم اپنی پوزیشن بدل لیں گے۔ میرے بیٹوں کا خون غزہ میں ہمارے شہید ہونے والوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے کیونکہ یہ سب میرے بیٹے ہیں”.
آفرین ہے اس اولو العزم رہنما کے ایمان واستقامت پر ،جس کے لئے ہر فلسطینی کا خون اس کے بچوں کی طرح اہم ہے ،جو ابتلاء و آزمائش کی اس گھڑی میں بھی ایمان اور جہاد کے ساتھ اپنی تنظیم کے موقف کے ساتھ کھڑا ہے اور اس پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ اسماعیل ھنییہ کی اہلیہ ہسپتال میں تھیں جب انھیں اپنے بیٹوں ،پوتے پوتیوں کی شہادتوں کا علم ہوا ،انھوں نے وضو کرکے نوافل ادا کئے اور اللہ کی رضا میں راضی رہیں۔ سلام ہے اس ماں کے حوصلے کو جس نے اپنے دل کے ٹکڑے کھودئیے لیکن اپنا ایمان نہیں کھویا !. ان کے صبر واستقامت پر سلام ہے ۔
اسرائیلی فوج نے یہ حملہ ایسے وقت میں کیا جب اقوام متحدہ کی جانب سے عارضی جنگ بندی ہوچکی تھی مگر اسرائیل کو ہر عالمی معاہدے سے یوٹرن لینا ہی آتا ہے۔حال ہی میں اسماعیل ھنیہ نے ایران کا دورہ کیا تھا ،وطن پہنچنے پر ان کی فیملی کو شہید کردیا گیا ۔ اس بزدلانہ حملے کے بعد عالمی راہنماؤں نے اسرائیلی فوج کی مذمت کی اور ترکی نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی ہونے تک تجارت بند کرنے کا اعلان کیا۔ اب کھسیانے ہوکر سیاسی بیان دے رہے ہیں کہ یہ حملہ نیتن یاہو کو بتاۓ بغیر کیا گیا تھا ۔یہ اسرائیل کی ذہنی اور اعصابی شکست کی علامت ہے۔

اسماعیل ہنیـ.ـہ کی بہو، شـ.ـہید حازم اسماعیل ہنیـ.ـہ (ابو عمرو) کی اہلیہ اور شـ.ـہید بچیوں امانی حازم اور مونا حازم ہنیـ.ـہ کی والدہ نے اپنے شوہر کو الوداع کہتے ہوۓ کمال صبرو ضبط کا مظاہرہ کیا : انھوں نے کہا :”اے میرے حبیب ،آپ کی عید جنت میں ہوگی !
رسول ﷺ کو سلام کہیں، تمام شـ.ـہداء کو سلام کہیں،
اور اللہ کے اذن سے، اللہ کے اذن سے ہم صبر کرنے والوں میں سے ہیں۔
اور اللہ کے اذن سے میں نے آپ کو اللہ کے حضور پیش کیا۔ اللہ مجھے میری مصیبت میں جزا دے اور اس کی جگہ اس سے بہتر چیز عطا فرمائے۔امانی اور مونا آپ کی پیاریاں آپ ساتھ ہیں، ان کا خیال رکھیں۔
اور اللہ آپ پر رحم فرمائے، امیر اور محمد (حازم کے بھائی)۔
اللہ آپ کے لیے آسان کرے، ابو عمرو، اے قرآن حفظ کرنے والے، اے امام۔
رسول ﷺ پر فدا ہونے والے۔
وہ( یہودی) ناکام رہے، حازم زندہ رہے، وہ نہیں مرے۔ [اور اللہ کی راہ میں مرنے والوں کو مردہ نہ سمجھو، وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں۔] اللہ کی مرضی سے آپ اپنے ٹھکانے میں چلے گئے اور جنت النعیم میں چلے گئے۔
کوئی بھی عربوں سے اپیل نہ کرے، یہ تو وہ ہیں جنہیں ہماری ضرورت ہے، ہمیں ان کی ضرورت نہیں !”۔
سچ تو یہ ہے کہ اہل فلسطین کا ایمان دیکھ کر اپنے ایمان بہت کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بیت المقدس پر قربان ہونے والوں کی شہادتوں کے صدقے ،فلسطین کو اسرائیلی تسلط سے آزادی عطا فرمائے آمین ۔
بقول شاعر علی شاہد دلکش:
~سرزمین بیت مقدس کے مکینوں کو سلام
اے فلسطین تیرے شہر کی گلیوں کو سلام
پاک دامن جو بے رحمی سے کچل ڈالے گئے
ان گنے پھول کی معصوم سی کلیوں کو سلام
غاصبوں سے لڑے ،جی جاں سے نڈر ہوکے سبھی
جاں ہتھیلی پر لئے سارے شہیدوں کو سلام !

فلسطین کی تحریک آزادی کے سربراہ اکسٹھ سالہ اسماعیل ھنیہ ،جو فلسطین کے سابق وزیراعظم بھی رہے ،انھوں نے عید کے دن اپنی تقریر میں بیت المقدس کی خاطر ایک “عالمی عوامی محاذ” کی تشکیل پر زور دیا جو حالیہ جہاد_ فلسطین میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکے !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں