62

اسماعیل ہنیہ، ایک عہد تمام ہوا/تحریر/حسنین احمد شیخ

جرأت کی آواز کو دبا دیا گیا جو مظلوم فلسطین کی آس و امید تھی۔ فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیلی گائیڈڈ میزائل کے ذریعہ شہید کر دیا گیا، حملے میں ان کا ایک محافظ بھی شہید ہوا ہے۔ وہ اس وقت ایران کے دارالحکومت تہران میں نئے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزکشیان کی تقریب حلف برداری میں شریک تھے۔ تاریخ بہادروں کو یاد رکھتی ہے، بزدلوں کو نہیں۔ اسماعیل ہنیہ کے 3 بیٹے، 7 کم سن پوتے اور خاندان کے 60 افراد پہلے ہی شہادت کا درجہ حاصل کر کے رب تعالیٰ کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔‏
سرزمینِ انبیاء کو پنجۂ جبر و استبداد سے آزاد کروانے میں عمر صرف کرنے والا شیر، مزاحمت کا روشن استعارہ، قبلہ اول کا محافظ اسماعیل ہنیہ اپنے سارے خاندان کی شہادت کے بعد خود بھی خلعتِ شہادت پہن کر رب تعالیٰ کے حضور پہنچ گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گفتار ہی نہیں، کردار کے بھی غازی ہیں، جو مصلے پر کھڑے ہو نہ صرف امامت کا سبق پڑھاتے ہیں بلکہ میدانِ کارزار میں بھی اولین صفوں میں نظر آتے ہیں۔ آپ ان کی لرزتی ہوئی آواز میں آیات جہاد اور ان کے پورے خاندان کا بارگاہِ ایزدی میں کٹ مرنا ذہن میں رکھیں تو ان کی قربانی کی اہمیت معلوم ہو گی۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد یہ فلسطینیوں کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے۔ ان کی شہادت مسلم امہ کے لیے کسی بڑے حادثے سے کم نہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے پوری دنیا پر اندھیرا چھا گیا ہے۔ بلاشبہ، جہاد اسلامی فلسطین کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک لمحہ فکریہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ہوا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اسماعیل ہنیہ کو کس نے راستے سے ہٹایا لیکن اس نے اپنے ہدف تک پہنچ کی صلاحیت کا اظہار کر کے مملکتِ ایران اور خطہ کے دیگر ممالک کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ اس حملہ کا ایران کے پاس فی الحال کوئی جواب نہیں۔ مملکت کے سرکاری مہمان اور مسلم دنیا کی ایک بہت بڑی شخصیت کے دفاع میں مکمل ناکامی ایران کے لیے باعث ہزیمت ہے لیکن وہ سر دست اس کے جواب میں کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ تہران کے اندر دشمن نے نشانہ بنا کر ایران کی انٹیلیجنس اور سکیورٹی لیپس کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایران کی حالیہ تاریخ پر غور فرمائیں، 21 مئی 2016ء کو طالبان سربراہ ملا اختر محمد منصور ایران سے واپس افغانستان جا رہے تھے کہ میزائیل حملے میں شہید کر دئیے گئے۔ 2 جنوری 2024ء کو حماس کے نائب سربراہ صالح العروری لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ سے مل کر واپس اپنے اپارٹمنٹ آئے تو میزائل حملے میں شہید کر دئے گئے۔ 19 مئی 2024ء کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی مبینہ طور پر ہیلی کاپٹر حادثہ میں شہید ہوگئے۔ اب 31 جولائی 2024ء کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر مسعود سے مل کر اپنے اپارٹمنٹ میں واپس آئے تو میزائل حملے میں شہید کر دئیے گئے۔ اب بلا شبہ یہ سوال بھی از سرِ نو اٹھے گا کہ کیا سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی صاحب کی موت بھی محض حادثہ تھی یا حملہ؟ اتنا ہائی ویلیو ٹارگٹ ہو اور ملک بھی اسرائیل کا بدترین دشمن کا ہو وہاں ایسا ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔ حیرت ہے اسرائیل نے ایران میں کامیاب کاروائی کیسے کرلی؟ سازش کے بغیر کامیاب کارروائی ممکن نہیں لگتی۔
ایران کو عالمی طاقتوں سے سینگ لڑانے سے پہلے اپنی سکیورٹی سسٹم پر فوکس کرنا ہوگا تاکہ بار بار اس طرح کے سانحات سے بچ سکے۔ اس سے پہلے بھی ایران کی کئی نامور شخصیات اور سائنس دان مارے جاچکے ہیں، وہ بھی ایران کے اندر۔ حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ایران میں اسرائیلی حملے میں شہادت نہ صرف ایران کی سالمیت اور بقا پر خطرہ ہے بلکہ اس کے ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان کی تشویش کے لیے بھی ایک اعلامیہ ہے۔ کیا یہ تمام ممالک اتنے کمزور ہیں کہ اسرائیل جب چاہے کسی ملک میں گھس کر کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دے؟ یا کوئی ملک اسرائیل کے خلاف قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر پرزور مخالفت عمل میں نہیں لا سکتا؟ او آئی سی، اقوام متحدہ کا کردار کیا ہے اب تک؟ علامہ اقبال درست لکھتے ہیں؛
در جنیوا چیست غیر از مکر و فن
صید تو ہی میش و آن نخشیر من
ایرانی سپریم لیڈر اور ایرانی صدر نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہےجب کہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی اسرائیل میں ترک فوجیں داخل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اردوان نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ اب ترکی فوجی لحاظ سے طاقتور ہوجائے، کیوں کہ فلسطین کے بعد اسرائیل کی نظریں ترکی پر ہیں۔ اگر اسرائیل باز نہ آیا تو ہماری فوجیں اسرائیل میں گھسیں گی۔ اس بیان پر اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کاتس نے دھمکی دی ہے کہ “اردوان تم صدام حسین کا انجام یاد کرو اگر تم نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی غلطی کی تو تمہارا انجام بھی صدام جیسے ہوگا۔” ایک نیٹو ملک کی اسرائیل کو دھمکی اور پھر ترک صدر کو صدام کی طرح قتل کرنے کی اسرائیلی دھمکی مشرق وسطیٰ میں خون ریز عالمی جنگ کا اشارہ دے رہی ہے جو غزہ جنگ کی شکل میں لبنان، ایران، یمن، شام اور عراق تک پھیل چکی ہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کہتے ہیں؛
فرنگی راہ دل زیر نگین نیست
متاع او ہمہ ملک و دین نیست
خداوندے کہ درطوف حریمش
صد ابلیس و یک روح الامین نیست
مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد حسین سید بھی کہتے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد جنگ بڑھنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں خود امریکی شہریوں نے امریکی پرچم اتار کر نذر آتش کیا اور فلسطینی پرچم لہرا دیا۔ 45 سالوں میں انقلاب پر چلنے کی سزا میں امریکہ اسرائیل نے دو ایرانی صدور، کئی سائنسدان، کئی فوجی افسران، ہزاروں ماہر اشخاص کو یوں بزدلانہ کاروائیوں میں شہید کیا ہے۔ ایران کو انقلاب پر چلنے کی سزا دی گئی جس طرح پاکستان میں سابق ایئر چیف مصحف علی کو امریکہ کے خلاف جانے پر شہید کیا گیا۔ اس طرح کسی کو مارنا زیادہ مشکل نہیں۔ خود امریکہ میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی قتل سمیت ٹرمپ پر حال ہی میں حملہ ہوا جس میں وہ سیکنڈوں کی مہلت سے بچا ہے۔ ایسے ٹارگٹس کو دنیا میں کہیں بھی مارنے کے لیے کچھ پلاننگ، کچھ سرمایہ اور ہمت چاہیے۔ مارنے کے بعد کیا نتائج حاصل ہوں گے یہ سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔ لہذا دشمن نے اب تک اگر انہیں شہید نہیں کیا تھا اور ایران کے اندر ہی نشانہ بنایا تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے ایران کو بدنام اور فلسطین کاز سے دور کرنے کے لیے یہ حربہ اختیار کیا تھا۔ بڑے مقاصد کے لیے اگر ہزاروں جانیں بھی قربان ہوں تو تنظیم یا لوگ اپنے مقاصد سے ڈر کر پیچھے نہیں ہٹتے۔ اس کا مطلب ہے اب منزل بہت قریب ہے، بس دشمن کو گرانے کے لیے ایک دھکا اور چاہیے۔
جفا کے دوش سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں