اطاعت و عشق ومحبت رسولﷺ کی جو دولت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی قلم اس کا احاطہ کرنے سے عاجزہے۔ہر امتی کے لیے اپنے نبیؐ سے سچی محبت کے سوا دوسری کوئی شے اہمیت نہیں رکھتی۔
یہی وجہ ہے کہ جب کوئی امتی اپنے نبیؐ کے اسوہ مبارکہ کو پاتا ہے تو کمال وارفتگی سے کھنچا کھنچا اپنے مرکز محبت کی اداؤں میں خود کو ڈھالتا چلا جاتا ہے اور وہ جب اسوہ رسولؐ میں ڈھل چکاہوتا ہے
تو پھر ساری مخلوق کا مرکز التفات، ہادی و مقتدا اور میرکارواں بن جاتا ہے۔ نبوت و رسالت کے منتہاء، انبیاء کے سردار انسانوں کو مقام انسانیت دکھانے والے، گم راہوں کو راہ ہدایت
بتانے والے اور کام یابی و کام رانی کی بلندیاں عطا کرنے والے، گناہ گاروں کے شفیع اور بے کسوں کے والی تاج دار مدنی ﷺ کے تمام صحابہؓ جان نثاری، محبت و وارفتگی
اور ایثار و قربانی کا مرقع تھے۔ حضور ﷺ کے ایک اشارہ پر جان و مال کو بے دریغ نچھاور کر دینے کو صحابہ کرام ؓ اپنی زندگی کا بہترین مقصد تصور کرتے تھے۔
آپ کا اسم گرامی عبد اللہ،کنیت ابو بکر،لقب صدیق و عتیق اور والد گرامی کا اسم مبارک ابو قحافہ عثمان، اور والدہ محترمہ کا نام سلمی اْم الخیر تھا۔آپ کا نسبی تعلق قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے ہے۔
نبی کریم ﷺ اور سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نو عمری سے ہی ایک دوسرے کے رفیق تھے۔ سیدناابوبکررضی اللہ عنہ کو اپنے پیارے دوست پر اتنا اعتماد تھا کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا
تو سب سے پہلے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بغیر کسی دلیل ومطالبہ کیے حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور سب سے پہلے صحابی و امتی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، اقتداء و پیروی میں رنگ لیا تھا۔ا ٓپ ہی نے دین اسلام کی اشاعت میں سب سے پہلے اپنا مال خرچ کرنے کی سعادت حاصل کی،اسلام قبول کرنے کے موقع پر آپ کے پاس چالیس ہزار اشرفیاں تھیں آپ نے وہ سب کی سب راہ خدا میں خرچ کرڈالیں
مگر جس طرح ایک گلدستہ کے مختلف پھولوں میں ہر پھول کی خوشبو دوسرے سے منفرد ہوتی ہے اِسی طرح صحابہ ؓ میں ہر صحابی کی شان، عظمت، مزاج اور اخلاق و عادات دوسرے سے مختلف ہے،
صحابہ ؓ میں سب سے افضلیت کا شرف اُسے حاصل ہوا جسے نبی پاکﷺ نے زبانِ نبوت سے انبیاء کے سوا تمام انسانوں سے افضل قرار دیا،جسے صدیق اکبر ؓ کا لقب عطا ہوا، جسے یار غار و مزار کا تمغہ ملا
جس نے ایمان لانے کے بعد نبی کی صحبت اور دیدار کو دنیا کی قیمتی ترین متاع قرار دیا۔جو نبی کے سفر وحضر کا رفیق بنا، جو مزاج شناسِ نبوت تھا، جو محبوب ِبارگاہ اور محرم اسرارِ نبوت تھا۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ آپ کو دنیا میں کیا پسند ہے؟
تو آپؓ نے بے ساختہ فرمایا: ”بس حضور پاک ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ عزوہ تبوک کے موقع پر نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا جہاد کیلئے مال پیش کرو توسیدنا پیرعمرؓ نے گھر کا آدھا مال لا کر حضور پاک ﷺ کی پاک بارگاہ میں پیش کردیا۔ بالآخر حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ بھی مال لے کر دربار رسالت ﷺ میں آن موجود ہوئے۔ حضور ﷺنے دریافت فرمایا
صدیقؓ! گھر کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ عرض کیا: میں نے اُن کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ چھوڑا ہے۔ آپؓ نے اپنے گھر کا تمام اثاثہ اپنے محبوب پاک ﷺ کی نذر کر دیا۔
حضرت ابو بکر ؓ کے اس مثالی جذبہ حُب و ایثار سے متاثر ہو کر حضرت عمر فاروقؓ نے خراج عقیدت کے طور پر فرمایا: ”اے ابوبکرؓ! آپ محبت و ایثار کی ایسی منزل پر ہیں کہ ہم کسی چیز میں بھی آپ پر کبھی بھی سبقت نہیں لے جاسکتے۔“ (مشکوۃ)
شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے آپ کے عشق کو اس انداز میں بیان کیا
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس
حضرت ابوبکر ؓ محبت رسول ﷺ میں کامل اور اسوہ رسولؐ کا نمونہ تھے۔ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اہل روم سے جنگ کے لیے ایک لشکر مرتب فرمایا تھا
اور جلیل القدر صحابی حضرت اسامہ بن زیدؓ کو اس لشکر کا سپاہ سالار مقرر فرمایا تھا۔ یہ لشکر ابھی جنگ کے لیے روانہ نہ ہو پایا تھا کہ نبی پاک ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے۔
اس سانحہ عظیم کے ساتھ ہی کئی شورشیں کھڑی ہوگئیں۔ارباب علم و دانش نے حضرت ابوبکر ؓ سے عرض کی کہ ان حالات میں لشکر کشی مناسب نہیں ہے کیوں کہ داخلی انتشار میں خارجی امور بے حد نازک
اور حساس ہوتے ہیں، اس لیے فوج کی روانگی سردست مناسب نہیں۔ مگر جس کا ہر لمحہ اتباع رسول ﷺ اور ہر سانس رضائے حبیب میں صرف ہوتا ہو وہ کیسے گوارا کرلے کہ اپنے محبوبؐ کے حکم کو موخر کر دے۔
آپؓ نے ولولہ شجاعت سے لبریز یقین محکم کے ساتھ فرمایا: مجھ سمیت تمام مسلمان اگر شہید ہو جائیں تو کچھ غم نہیں، مگر حضورؐ کا فرمان پورا نہ ہو تو مجھ پر یہ بوجھ بہت گراں اور بھاری ہے۔
عشق رسول ﷺ کی جو دولت حضرت ابو بکر صدیقؓ کے حصے میں آئی، قلم اس کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔ سلمہ بن اکوع ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: بنی نوع انسان میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں سوائے اس کے کہ وہ نبی نہیں۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا: ”انبیاء مرسلین کے صحابہ میں سے کوئی ابوبکرؓ سے بڑھ کر نہ تھا اور نہ ہی میرے صحابہؓ میں کوئی ابوبکرؓ سے افضل ہے۔
آپؐ نے فرمایا: ”ابُوبکر سے محبت رکھنا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا میرے ہر امتی پر واجب ہے۔آپؓ کو قدرت نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔ آپؓ کے سوا کسی کا نام صدیق نہیں رکھا گیا۔
رسول پاکﷺ نے آپؓ کو نماز پڑھانے پر مامور فرمایا، جب کہ تمام صحابہ کرامؓ موجود تھے اس طرح آپ ؓ مسلمانوں کے پہلے امام بھی ہے۔ سرور کائنات ﷺ کسی کو آپ پر ترجیح نہ دیتے تھے۔
مردوں میں سب سے پہلے اسلام بھی آپؓ نے قبول کیا۔ قرآن مجید کا نام سب سے پہلے آپ نے مصحف رکھا۔ قرآن مجید کو سب سے پہلے جمع بھی آپ نے کرایا۔ سب سے پہلا شخص جس نے کفار قریش کے ساتھ نبی پاک ﷺ کی حمایت میں جنگ لڑی اور ضربات شدید برداشت کیں وہ بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپؓ سب سے پہلے خلیفہ ہیں، سب سے پہلے بیت المال آپؓ نے قائم فرمایا۔
سب سے پہلے آپؓ نے جہاد اور استنباط احکام کے اصول اربعہ مقرر فرمائے۔سب سے پہلے دوزخ سے نجات کی خوش خبری نبی کریم ﷺ نے آپؓ ہی کو دی اور آپ کو عتیق کے لقب سے مشرف فرمایا۔
آپ ہی سب سے پہلے وہ شخص ہیں جن کو بارگاہ رسالتؐ سے کوئی لقب عطا ہوا۔
؎؎حضرت ابوبکر صدیق کے مختصر دور خلافت میں اسلامی لشکر نے شاندار فتوحات حاصل کی اسلامی سلطنت میں دو سال کے مختصر عرصے میں 75800مربع میل کا اضافہ ہو ا صوبوں کے انتظام و انصرام کے لیے قابل گورنروں کا تقرر ہوا۔آپ ؓ عشرہ مبشرہ اصحاب کرام سے ہیں آپ کو مختلف مواقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!”اے ابوبکر میری امت میں تم سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے۔ (ابوداؤد)
حضرت ابوبکر صدیق بیمار ہوئے تو آپ نے حضرت سیدنا عمرؓ کو خلیفہ نامزد کر دیا 22جمادی الثانی کو آپ اس عالم فانی سے رحلت فرمائی اس وقت آپ کی عمر شریف تریسٹھ سال تھی
اور ہجرہ حضرت امی عائشہ صدیقہؓ میں اپنے محبوب و رفیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلومیں مدفون ہوئے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کے اوصاف و کمالات اور جلیلہ سے کتب سیرت لبزیز ہیں۔
عالم اسلام خصوصا پاکستان جو اس وقت مسائل میں گھرا ہوا ہے ہمارے حکمرانوں کو پاکستان کو بچانے کیلئے سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرز حکمرانی کو اپنانا ہوگا
اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقدس صحابہ کرام ؓ کی سیرت سے راہ نمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین
تحریر : محمد حبیب اللہ مدنی