مجھے جب بھی 13 جولائی 1931ء کے الم ناک دن کا تصور آتا ہے تو دل خون کے آنسو بھی روتا ہے اور دل و دماغ کو ایک عجیب سی ایمان افروز حلاوت بھی نصیب ہوتی ہے۔
دل کے خون تو آنسو تو اس لیے روتا ہے کہ اس دن ایک نہیں،دو نہیں بلکہ بائیس بے گناہ افراد کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا،
ایمان افروز حلاوت کے محسوس ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ “ایمان کتنی بڑی طاقت ور چیز کا نام ہے،جب ایمان کسی دل میں اتر جائے تو پھر اس دل کو جان و مال کی قدر و قیمت کا احساس بھی ہیچ لگتا ہے”۔
یہ ایمانی طاقت کا ہی کرشمہ تھا کہ ایک اذان کی تکمیل کے لیے بائیس بہادر و غیور مسلمان آگے بڑھتے گئے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے گئے،وہ اپنی جان پر کھیل گئے مگر اللہ کا کلمہ بلند اور مکمل کرکے ہی رہے۔
13 جولائی 1931ء سے آج تک یہ دن اہل کشمیر پورے جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہوئے اپنے اسلاف کے اس حیرت انگیز کارنامے کو یاد کرکے خوشی سے سرشار ہوجاتے ہیں۔
یہ دن اس وقت کے مہاراجہ کشمیر کے لیے سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ہر ظالم کے لیے عبرت کا ایک نمونہ ہے۔
ہم یہ کہنے میں بجا ہیں کہ
ظلم تو آخر ظلم ہی ہوتا ہے،اس کے خلاف صدائے احتجاج تو بلند ہوتی رہتی ہے،ایک دن ظلم ہار جاتا ہے اور سچا جذبہ اور اخلاص جیت جاتا ہے۔
یومِ شہدائے کشمیر بھی درج بالا ہمارے دعوے کا عملی ثبوت ہے۔
یوم شہدائے کا پسِ منظر ملاحظہ کیجئے! اسے ہمیں اندازا ہوتا ہے کہ ظلم کیسے ہارتا ہے اور سچ کیسے جیتا ہے؟
سن 1931ء میں سرینگر میں شخصی راج مسلط تھا،جس نے اہلیانِ کشمیر کی زندگیوں کو اجیرن بنا کر رکھ دیا تھا۔اس وقت شخصی راج کے حکمران مہا راجہ ہری سنگھ تھے۔
ایک افغان باشندے عبد القدیر نے سب سے پہلے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرینگر کی جامع مسجد میں ڈوگرہ راج کے حکمرانوں کے وحشیانہ مظالم کے خلاف نعرۂ حق لگادیا،ان کے نعرے نے دوسرے لوگوں کو بدترین ظلم کے خلاف اٹھنے کے لیے مہمیز فراہم کردی۔اب اس نعرے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جگہ جگہ شخصی راج کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔
حکامِ وقت نے عبد القدیر کو فوری طور پر پابندِ سلاسل کردیا۔ان پر ناجائز ریاستی مقدمات بنادیے گئے۔
13 جولائی 1931ء کو سنٹرل جیل کے احاطے کے باہر مظاہرین ایک بڑی تعداد میں جمع ہوئے،جہاں عبد القدیر کے مقدمے میں شنوائی ہونے والی تھی۔
اسی اثنا نمازِ ظہر کا وقت ہوگیا،مظاہرین میں سے ایک فرد اذان دینے لگے،مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے اسے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔پہلے مؤذن کے شہید ہونے کے بعد ایک دوسرے خوش نصیب انسان آگے بڑھے تو انھیں نے بھی بے دردی سے جامِ شہادت پلادیا گیا،جب مہاراجہ کی پولیس نے دیکھا کہ ہم اس قدر تشدد آمیز سلوک کے باوجود بھی آذان نہیں رکواسکے تو اس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی،جس سے 22 مسلمان مقامِ شہادت سے فائز ہوئے اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد شخص راج کے خلاف تحریک میں تیزی آگئی اور جمہوری اور خود مختار حکومت کے قیام کے لیے اس تحریک نے زور پکڑ لیا۔
خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی کے مزار کے ساتھ ملحقہ قبرستان آج بھی “شہدا کے قبرستان” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جہاں تک کشمیر میں ظلم و سربریت کی تاریخ ہے،وہ نہ صرف قدیم ہے بلکہ تشدد کی ایک بدترین کہانی ہے۔
آئیے ذرا اجمالی درجے میں اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔
تشدد اور انسانی تاریخ ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں۔انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا بھیانک سلسلہ بھی نسلِ انسانی کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔
انسان،اپنے مفادات کے حصول کے لیے کہاں تک گر سکتا یے،اس کے شاید سارے نمونے چشمِ فلک نے دیکھ رکھے ہیں۔
ذاتی مفادات کا دائرہ بھی بہت متنوع اور وسیع ہے۔ایک ظالم دنیا نے ہمیشہ اپنے ناجائز مفادات کے حصول اور اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کے لیے آگ و خون کا بازار گرم کیے رکھا ہے۔اس ظالم دنیا کے باسی اگرچہ دو مختلف ناموں سے اپنی شناخت رکھتے ہیں مگر وہ دونوں ہماری نظر میں “یک جان دو قالب” کا عملی مظہر ہیں کیوں ان میں کئی ایک اقدار اور نظریات مشترکہ طور پر پائے جاتے ہیں۔
ظالم دنیا کے ان باسیوں کو اسرائیل اور بھارت کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔
ان میں سے ایک نے خوب صورت،دل کش اور پیکر حسن و جمال وادی کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کی گردن پر چُھری رکھی ہوئی ہے اور دوسرے اسرائیل نے سرزمینِ انبیا کے نہتے باشندوں کو اپنے قہر کا نشانہ بنا رکھا ہے۔
وہ دونوں ظلم و ستم کا کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر رہے اور وہ کشمیری اور فلسطینی جانباز ہر قسم کے “جبرِ ناروا” کے باجود راہِ حق پر ایسے ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کے پایۂ استقلال میں کوئی لغزش نہیں دکھائی دے رہی۔
سبحان اللہ! یہ اللہ کی قدرت کا ایک عجیب شاہکار ہے کہ طاقت ور اور دنیاوی اسباب و وسائل سے مالا مال درندہ صفت دشمن ابھی تک شکست و ریخت کی ذلت سے دو چار ہیں اور مظلوم،بے بس اور مقہور کشمیری و فلسطینی اپنا سب کچھ دین الٰہی اور آزادیِ وطن کی خاطر قربان کرکے بھی فتح و کامرانی کا ہار اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔
ویسے فلسطین اور کشمیر کی صورت حال پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ظالمانہ اسرائیلی اور بھارتی مسلح افواج کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کی جاتی ہے۔کشمیر اور فلسطین میں صیہونی و بھارتی ایک جیسے مظالم ڈھا رہے ہیں۔ مسلم دنیا اپنے اہداف ومقاصد سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ہماری طاقت جو ایک امت میں تھی،وہ مفقود ہوکر رہ گئی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو کشمیری بھائیوں پر ظلم و ستم کا آغاز 1989ء سے ہوا ہے مگر
5 اگست 2019ءکے بعد سے کشمیری دوستوں کے بہیمانہ قتل،گرفتاریوں اور ان کے گھروں پر چھاپوں میں ہوش رہا حدتک اضافہ ہوا ہے۔بھارت 5 اگست 2019ء اپنے غیر آئینی اقدام کو کشمیریوں سے منواسکا ہے اور نہ ہی مفاد پرست دنیا کے کسی با شعور شخص سے جواز کی سند وُصول کرسکا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری اپنے حق کے لیے جائز جدوجہد کر رہے ہیں۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر 10 لاکھ سے زائد بھارتی فوجی خوف ناک تباہی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ان بھارتی درندوں کے ہاتھوں بے شمار ماورائے عدالت ہلاکتوں اور 11,255 سے زائد خواتین کی عصمت دری کے واقعات نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمیر میں شرم و حیا کی کوئی لہر پیدا ہوئی یا نہیں؟ اس کے بارے میں غالب گمان تو یہی ہے کہ وہ جاگنے والا یا عقل وشرم سے کام لینے والا کوئی معمولی ضمیر نہیں ہے۔
ہاں! اس ضمیر میں حیا کا سیلابِ بلا موج تب طغیانی دکھاتا ہے،جب کسی غیر مسلم ریاست پر غلطی سے کوئی حملہ ہو جائے یا اس سے کوئی نقصان پہنچ جائے۔
کشمیر میں جعلی پولیس مقابلوں اور حبس بے جا میں ماورائے عدالت کئی کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔
ہندوستان کی یہ بھی ایک ناپاک جسارت ہے کہ وہ متنازعہ علاقے کو مسلم اکثریتی ریاست سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہوجائے،جو واضح طور پر جنیوا کنونشن 4 کے آرٹیکل 49 کی خلاف ورزی ہے۔
کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے شدید نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل اعداد و شمار ہمارے سامنے آتے ہیں اور روح لرز کر رہ جاتی ہے۔
ذرا ان تلخ حقائق پر مبنی اعداد و شمار کو دل پر ہاتھ رکھ کر پڑھیے کہ کہیں دل،جسم ک ساتھ نہ چھوڑ جائے۔
1989ء سے لے کر اب تک 96089 لوگوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔7244 کشمیریوں کو پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔164931 لوگوں کو گرفتار کرکے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا یے۔110484 گھروں،عمارتوں اور دفاتر کو زمین بوس کردیا گیا،
ان 33 سالوں میں 22946
عورتیں بیوا ہوئیں۔ 107866 بچے شفقتِ پدری سے محروم یوگئے اور 1255 عورتوں کا جنسی استحصال کیا گیا۔
آج تک جو کشمیری بہن بھائی ایک مقدس مشن کی خاطر اپنے سر دھڑ کی بازی لگا کے ہیں،اپنی عزتیں پامال کراچکے ہیں،اپنے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوا کراچکے ہیں وہ جامِ شہادت نوش کرکے اپنی انگلی زندگی آسان کرگئے ہیں۔
شہادت تو ویسے بھی ایک بندۂ مومن کی آخری تمنا اور ایک بڑا اعزاز ہوتا ہے،جیسا کہ شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا ہے
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی
ان شاءاللہ کشمیری شہدا کا خون رنگ لائے گا اور یہ دشمن ان کی موروثی سرزمین سے دم دبا کر بھاگنے کے لیے حربے اختیار کرے گا۔
کیا آپ کے یہی اچھے جذبات اور نیک تمنائیں ہیں؟
کیا آپ کو یقین نہیں ہے کہ بائیس شہدا کا خون کبھی بھی ضائع نہیں جائے گا بلکہ وہ خون تو کشمیریوں کی آزادی و استقلال کی بنیادوں میں پڑا ہے اور آزادی کی اس تحریک کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کر چکا ہے۔
مودی سرکار نے 2019ء میں تیرہ جولائی کی اس سرکاری تعطیل ختم کرکے کشمیری لوگوں کے جذبات سے کھیلنے اور اس تاریخی دن کو ان کے ذھنوں سے مٹانے کی ایک ناکام کوشش کی تھی مگر مودی سرکار کو یاد رہنا چاہیے کہ کبھی نہ یہ دن بھلایا جائے گا اور نہ ہی اس دن آزادی اور کملہ حق کی بلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے والے وہ جانباز کبھی فراموش کیے جاسکتے ہیں۔