73

خطبہ حجتہ الوداع، ازلی و ابدی دستور انسانیت/تحریر/حسنین احمد شیخ

دنیا کے کتب خانے اور دماغ انسانی حقوق بارے بھرے پڑے ہیں۔ اس دنیا میں بڑے بڑے مفکر آئے، محقق آئے سب نے انسانی حقوق بارے قلم اٹھایا، آواز اٹھائی لیکن سب کا علم و تحقیق جس عظیم ہستی کی بارگاہ کے گھٹنے چھوتی ہے وہ معلم انسانیت حضرت محمدﷺ کی ذات والا صفات ہے۔ بلاشبہ، انسانی حقوق کے آغاز و ارتقاء اور اس کے عملی نفاذ کا سہرا جس شخصیت کے سر سجتا ہے، وہ رب العالمین کے رحمت للعالمین نبیﷺ ہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو استحکام خاصہ میسر آیا تو حضور نبی کریمﷺ نے 10 ہجری میں حج کا ارادہ فرمایا۔ مدینہ منورہ سے روانگی کے موقع پر کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار یا 44 ہزار جان نثاران نبوت کا یہ عظیم الشان قافلہ حضور نبی کریمﷺ کی قیادت میں مکہ و منیٰ سے ہوتا ہوا 9 ذی الحجہ، بروز جمعہ میدان عرفات پہنچا۔ اس موقع پر پیغمبر اعظمﷺ اپنی اونٹنی قصوا پر سوار تھے۔ آپﷺ نے جبل رحمت پر پہنچ کر ایک تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا، جہاں آپ کے روبرو کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار یا 44 ہزار خوش بخت افراد کی جنتی جماعت، اصحاب رضوان کا تاحد نظر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود تھا۔ اسے خطبہ حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ اس کو حجۃ الوداع اس لیے کہتے ہیں کہ اس حج کے کچھ عرصہ (تقریباً 81 دن) بعد ہی نبی کریمﷺ اس دنیا سے رحلت پُر رحمت فرماگئے۔ یہ آپﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا۔ اسے’’حج الاسلام‘‘ اور ’’حج البلاغ‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ 1400 سال پہلے پیش کیا جانے والا یہ فصیح و بلیغ خطبہ ایک اہم تاریخی دستاویز، حقوقِ انسانی کا چارٹر، امنِ عالم کا عظیم منشور، فلاحِ انسانیت کا عظیم ترین نسخہ اور حقیقی اسلامی آئین ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع کو تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلا منشور انسانی حقوق ہونے کا اعزاز ہے۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر انتہائے کائنات تک دنیا کے باقی تمام دستور انسانی، چاہے وہ میگنا کارٹا ہو یا جنیوا کنونشن، کوئی دستور و ضابطہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہو سکتا بلکہ یہ دستور و ضوابط اس دستور (خطبہ حجتہ الوداع) کے غلام و محکوم ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہ خطبہ توحید و رسالت، اسلامی و فلاحی، اخلاقی و مذہبی، سیاسی و سماجی، معاشرتی و تمدنی، معاشی و اقتصادی اور دنیوی و اخروی حقوق و فرائض کی ہدایات و تعلیمات کا جامع و اٹل منبع و مرقع، مرکز و محور، تحفظ و احاطہ اور حاصل و نچوڑ ہے۔ یہ خطبہ امت مسلمہ کے لیے بالخصوص اور پوری انسانیت کے لیے بالعموم قیامت تک رہنمائے زندگی ہے۔ یہ خطبہ زندگی کے ہر موڑ پر انسانیت کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ نبی رحمتﷺ نے اس خطبہ میں ارشاد فرمایا : “یہ میری تم سے آخری اجتماعی ملاقات ہے، شاید اس مقام پر اس کے بعد ہماری ملاقات نہ ہو۔ میری باتوں کو گوش ہوش سے سنو (اور انہیں ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں موجود نہیں)
نبی رحمتﷺ نے مغرب کی روشن خیالی کے تصور، امتیازات، تفاخر، تصنع اور تکبر کا خاتمہ اور رجعت پسندی و بنیاد پرستی کے طعن و تشنیع کا رد کرتے ہوئے فرمایا: “لوگو! سن لو ،جاہلیت کے تمام دستور، روایات و اقدار ختم کر دیے گئے ہیں۔” مساوات انسانی کی ناہموار سطح کو ہموار کرتے ہوئے فرمایا: “دنیا کے تمام انسان برابر ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو، آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ (زبان کی بنیاد پر، رنگ و نسل کی بنیاد پر تعصب میں نہ پڑنا کیوں کہ) مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت و برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنیاد پر (فوقیت و بزرگی ہے۔)” لاقانونیت کے خاتمہ بارے انسانیت نوازﷺ نے فرمایا: “جاہلیت کے قتال کے تمام جھگڑے میں کالعدم و ملیا میٹ کرتا ہوں اور سب سے پہلاخون جو باطل کیا جاتا ہے وہ بنو ہاشم کے (ایک بچے) ابن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے (میں اس کا بدلہ اور دیت معاف کرتا ہوں۔)” اقتصادی خوش حالی اور معاشی استحصال سے تحفظ کے بارے جامع پلان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: “اب دور جاہلیت کا سود ہو تو وہ موقوف و باطل کر دیا گیا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں (کیوں کہ) اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ممنوع اور ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔” خاتم النبیینﷺ نے خاندانی نظام کے تحفظ اور حقوق نسواں کے حقیقی امین کے طور پر فرمایا: “عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے، دستورِ عام کے مطابق تم انہیں چھا خور و نوش دو، اچھا لباس و پوشاک دو اور ان سے نرمی و خوش اخلاقی کا رویہ قائم رکھو کیوں کہ وہ تمہاری شراکت دار (پارٹنر) اور بے لوث خدمت گذار ہیں۔”
دہشت گردی کی آڑ میں معصوم، بے گناہ مسلما نوں کا بے ہیمانہ قتل عام کا خاتمہ کرتے ہوئے، کائنات میں احترام انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار نےفرمایا: “جس طرح تم اس مہینے (ذوالحجہ)، دن (یوم الحج) اور شہر (مکہ) کی عزت و احترام کرتے ہو اسی طرح تمہاری جان و مال اور عزت و آبرو ایک دوسرے کے لیے (تا قیامت) محترم ہے (تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے، یہ قطعاً حرام ہیں۔) کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو، تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔” نسل در نسل خاندانی دشمنی کا قلع قمع کرتے ہوئے بلد الامین کے مقیمﷺ نے فرمایا: “خبردار، اب مجرم ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔” مال کے حقوق کے تحفظ بارے فرمایا: “قرض واجب الاعادہ ہے، لوگوں کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو، کوئی چیز جو ایک بھائی کی ملکیت ہے دوسرے پر حلال (اور تصرف روا) نہیں، جب تک وہ اپنی خوشی سے نہ دے۔”
اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیتے ہوئے محسن کائناتﷺ نےفرمایا: “صرف اپنے پروردگار (وحدہ لا شریک) کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، اپنے اموال کی زکوٰة خوش دلی سے ادا کرو، رمضان کے (مہینہ بھر) روزے رکھو اور اگر استطاعت ہو تو اپنے مالک و خالق (اللہ تعالیٰ) کے گھر کا حج کرو، (خبردار)، کبھی بدکاری کے قریب بھی مت جانا۔ یاد رکھو، تمہیں ایک دن اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے۔ اگرمیرے احکام کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی جنت الفردوس کے راہی و وارث بن جاؤ گے۔ میں تم میں (تبلیغ دین کی وضاحت کے لیے) دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم نے انہیں مضبوطی سے پکڑ لیا تو کبھی فتور و شرور اور گمراہ نہیں ہوں گے؛ وہ قرآن اور میری سنت ہے (بعض کے مطابق میری اہل بیت ہے)۔ یاد رکھو، تم، خبردار رہو، میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔” تحفظ ختم نبوت و رسالت بارےخاتم النبینﷺ نے فرمایا: “یاد رکھنا، میرے بعد کوئی نیا نبی نہیں آنے والا، نہ کوئی نیا دین لایا جائے گا اور نہ تمہارے بعد کوئی نئی امت آئے گی۔” آئمہ امت اور اکابرین ملت کے بارے میں فرمایا: “میری باتیں اچھی طرح سے سمجھ لو۔سنو! تم، جو لوگ یہاں حاضر ہو، ان احکام و تبلیغ کو اگلے لوگوں تک پہنچانا اور وہ پھر اگلے لوگوں کو پہنچائیں۔ یہ ممکن ہے کو بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ (محفوظ اور عمل کر) سکیں۔”
اپنی ذات اور کار نبوت کی سرخروئی کے لیے نبی اکملﷺ نے پوچھا: “لوگو! قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تم سے میرے بارے میں استفسار کرے گا، تو کیا جواب دو گے؟ مخاطبین، جماعت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یک زبان ہو کر فرمایا، “آپ نے( امانت دین یعنی) اللہ تعالیٰ کا پیغام کما حقہ ہم تک پہنچا دیا اور اپنا حق رسالت و فریضہ نبوت بطریق احسن ادا فرما دیا ہے اور ہماری خیرخواہی کا حق ادا فرما دیا ہے۔” اس پرخاتم المرسلینﷺ نے آسمان کی طرف انگشت شہادت اٹھائی اور کائنات کے وحدہ مالک و مختار سے مخاطب ہوئے تین بار فرمایا : “اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، (کہ میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔)” اس وقت قرآن مبین کی یہ آیت نازل ہوئی:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم السلام دینا۔
“آج میں نے تمہارا دین (اسلام) تمہارے لیے مکمل کر دیا (جو ہمیشہ غالب رہے گا، منسوخ نہ ہوگا بلکہ قیامت تک قائم رہے گا) اور تم پر (فتح مکہ کی صورت میں) اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین (یعنی بطور مکمل نظام حیات قبول و) پسند کیا۔”
اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح طور پر فرمایا کہ شاید اس کے بعد میں کبھی بھی اس مقام پر تم لوگوں سے نہ مل سکوں۔ باقی اصحاب و احباب اس بات کو صحیح طرح سمجھ نہ سکے مگر حضرت ابوبکر صدیق (بعض تفاسیر میں حضرت عمر فاروق) رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کو سن کر زار و قطار ہونے لگے کیوں کہ آپ سمجھ گئے تھے کہ آپﷺ اب زیادہ دیر اس دنیا فانی میں قیام نہیں فرمائیں گے۔ خطبہ حجۃ الوداع تا قیامت دستور کامل کی حیثیت سے قائم و دائم رہے گا اور بنی نوع انسان اس سے گو نہ گو فائدے اٹھاتی رہے گی، ان شاءاللہ۔ اگر آج بھی خطبہ حجتہ الوداع کو انسانی حقوق کے دستور کے طور پر نافذ کردیا جائے تو ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے، جو اس پیغام کو سنیں، پڑھیں، اس پر عمل کریں اور اس کو آگے پھیلائیں۔ آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں