دنیامیں بہت سےمذاہب پاۓجاتےہیں،کچھ آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان رکھتےہیں، بعض خودساختہ طور طریقوں کے پیروکار ہیں۔
ان تمام مذاہب میں واحد دین اسلام ہے جس کی ابتداء ہی تعلیم دینے اور سیکھنےسےشروع ہوتی ہے۔ نزول قرآن کی ابتدا ایسےزمانےسے ہوئی جس میں ظلم وستم،زناکاری،جوا بازی سود خوری،قتل و غارت،بت پرستی، عورتوں کی عزتوں کی نیلامی،گویاکہ معاشرے میں پائی جانے والی ہر برائی عروج پر تھی۔
مسلمانوں کےرہبر و رہنماء حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو غار حرا میں پہلا سبق(سورۃ العلق کی ابتدائی آیات)تعلیم حاصل کرنے کے متعلق ہی دیاگیا۔نہ کہ ظلم وستم،قتل و غارت،بچیوں کوزندہ درگور کرنےکےخلاف ترغیب دی گئی نہ ہی انسانوں کو برائیوں سے بچنے کا حکم دیاگیا۔ بلکہ علم حاصل کرنےکے متعلق ہی فرمایاگیا۔
پھر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نےمکۃ المکرمہ میں دارِ ارقم کو مرکزِ تعلیم بناکر رب کریم کا عطاء کردہ علم اہل مکہ اور قرب وجوار کے خوش قسمت پاک نفوس ہستیوں کو،ہجرت کےبعد مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی میں (چبوترے) اصحاب صفہ پر علم حاصل کرنے کی ترغیب اور فضائل سناسنا کر بانٹنا شروع کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص علم طلب کرے یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتاہے جو اس نےاس سےپہلےکیےہو۔
ایک دوسری حدیث میں آقاء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو شخصوں کے سواکسی پر حسدکرنا جائز نہیں: ایک تو وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیاپھر اس کوراہ خدا میں خرچ کرنے کی توفیق دی،اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ نےعلم دیاپھر وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرتاہے اور اس کو سکھاتاہے۔
اس کے بعد پھر دیکھتے ہی دیکھتے عرب کی دھرتی پر پائی جانے والی ہر چھوٹی بڑی برائی کا یوں صفایاہوا جیسےیہ روز اول ہی سے پارسا لوگ ہیں۔ قرآنی تعلیمات نے لوگوں کے رہن سہن کےانداز،طور طریقے،رسم و رواج اور اخلاق بہت ہی مختصر وقت میں بدل کر رکھ دیے۔ تعلیم نبوی نےظالم وجابروں کو رحم دل،ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو آپس میں محبتیں تقسیم کرنےوالے۔
ایک دوسرے کی حق تلفی کرنے والوں کو ایک دوسرے کے لیے جان قربان کرنےوالے بنادیا۔ علم کی مہک یہاں تک پھیلی کہ پھر ایک دوسرے پر جان قربان کرنےوالےبن گئے۔مقامِ حدیبیہ پر سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر سن کر محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر قصاص لینےکےلیےچودہ سو پاک نفوس ہستیاں تیارہوگئیں۔ایک دوسری جنگ کے موقع پر ایک صحابی رسول اپنے بھائی کی تلاش کرنے کی غرض سے میدان کارزارِ میں جا پہنچا،بھائی کو تلاش کرنےکےبعد دیکھاکہ زخمی حالت میں تڑپ رہا ہے بھائی کے قریب جاکر پوچھا آپ کوکیادرکار ہے؟
بھائی نے پانی کی طلب کا اشارہ کیا یہ پانی لےکر آیا جیسےہی پانی کاپیالا لبوں کو لگایا تو ایک دوسری جانب سے سسکیوں اور آہوں کی آواز زخمی بھائی کے کانوں میں پڑی، زخموں سے چورا چور بھائی کہتاہے مجھے رہنےدے،اُسے پانی پلایا جاۓ،جب اس کے قریب پہنچا تو تیسری جگہ سے تکلیف میں مبتلا صحابی کی آواز کانوں میں پڑی، اس نےبھی پہلے والے کی بات کودھرایاکہ انہیں پانی دے، جب یہ اس خوش قسمت کو پانی دینےکےلیےپہنچا،تو اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی،دوسرے کےپاس آیاوہ بھی چل بسا، اپنے بھائی کےپاس آیاوہ بھی جامِ شہادت لبوں کو لگاچکاتھا۔ یہ تعلیمات آمنہ کے لال نے ایسی تعلیم دی کہ لوگوں کے ذہن ہی تبدیل ہوگئے۔خود فاقہ کشی کرکے پڑوسیوں کا کھانا دینےلگے،ایک صحابی رسول نے بکری کی سِرِی کسی صحابی کےگھر ہدیہ بھیجی،ہدیہ لینے والے نے بیوی کے مشورے سے اپنے ساتھ والے پڑوسی کو ہدیہ کردی دوسرے نے تیسرے کو یہاں تک کہ سات گھروں میں چکر لگاکر پھر پہلے صاحب کے گھر لوٹ آئی،یہ تھا تعلیماتِ نبوت کا اثر۔
تعلیماتِ نبوت نے ہی انسانوں کو بلندیوں پر پہنچایا۔سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار کسی سفر پر اصحاب رسول کےساتھ جارہےتھے، راستےمیں ایک مقام پر جاکر سواری سے نیچےاترآۓ۔ بہت دیر تک اس وادی کاجائزہ لیتے رہے ایک صاحب نے تھوڑی ہمت کرکے پوچھا کہ آپ کیاتلاش کررہےہیں؟
سیدناعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں سے آنسوں بہہ پڑے فرمایا: ایک زمانہ تھا میں یہاں بچپن میں اونٹ چرانے آیاکرتاتھا، شام کو اونٹ لےکر جب گھر پہنچتا تو ابا خطاب مجھےڈانٹتااور چہرے پر ایک زور دار تھپڑ رسید کرتا ساتھ ہی ایک جملہ کستا کہ آۓ عمر! تجھ سےاونٹ نہیں چرتے تو بڑا ہوکر کیا گل کھلاۓگا؟
سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرمانےلگے آج اگر میرا ابا زندہ ہوتا تو اپنی آنکھوں سے دیکھتا کہ وہ عمر آج مسلمان کا خلیفہ بناہوا ہے۔ پھر فرمایا یہ سب تعلیمات نبوت کی برکات ہیں۔ جن کی بدولت یہ مقام ملا۔ تعلیم کی مہک چار دانگ عالم میں ایسی پھیلی کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ اسی تعلیم کی برکات سے بڑے بڑے نامور مسلمانوں کے جہاں ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل المعروف:امام بخاری محدث،امام المفسرین جلال الدین سیوطی فقہی العصر امام ابو حنیفہ،قاضی القضاءامام ابو یوسف،
اور ادیب،وغیرہ پیداہوۓوہی سائنس دان بھی ابھرے۔تعلیمات نبوت اورقرآن نے اپنادائرہ کار محدود نہیں رکھا، بلکہ وسعت دی ہیں۔ جہالت زدہ معاشرے میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ پھر جابر بن حیان،محمدبن موسی الخوارزمی، ابن الہیثم،ابوالعباس الفرغانی،ابن سینا،ابو ریحان البیرونی،اور ابوالقاسم الزاہراوی وغیرہ مسلمان سائنس دان پیدا ہوے۔ محمدبن زکریاجو ایک زبردست طبیب اور کیمیادان تھا،انہوں نےعلم کیمیاپر بارہ کتابیں لکھی،یہ طبی معلومات کاایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ابن سیناکی کتاب پورپ کی درسگاہوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہی۔ یہ تو چند ایک کے نام ہیں بہت سے ایسے سائنس دان ہیں جنہوں نے دنیا کے اندر اپنےفن کاسکہ منوایا۔لیکن آج مسلمان علم سے دھیرے دھیرے دور ہوتاجارہاہے۔
جہالت پھرسےامڈتی ہوئی سروں پر پہنچ چکی ہے۔ غیروں نے ہمارے علمی ورثہ کو اپنا لیاہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہر روز ایک نئی چیز ایجاد ہوکر منظر عام پر آجاتی ہے، ہم سواۓ وقت گذاری کےکچھ بھی نہیں کرناجانتے۔ ہمیں اپنےآباء کے علمی ورثہ کو تلاش کرناپڑےگا۔ تاکہ مسلمان پھر سے سر اٹھاکر خود مختار زندگی بسر کرسکے۔