23

مدارس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس/ایک عصری تقاضا/تحریر/ایمل صابرشاہ

بلاشبہ آج جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ حال ہی میں انسانی زندگی کو حد درجہ متاثر کرنے والی جدید ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) ایک ایسی محیر العقل انسانی ایجاد ہے جو کہ انسانی دماغ کی مانند سوچنے، سیکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی انسان کی بنائی ہوئی مشینوں کو اتنا قابل بناتی ہے کہ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر مسائل کو حل کر سکیں اور انسان کی عطا کردہ علم کو خود ہی مرتب کر کے آگے بہتر انداز میں استعمال کر سکیں، اس ٹیکنالوجی کی ترقی کا یہ سفر آج بھی جاری ہے، شنید ہے کہ کل کلاں یہ انسانی ساختہ مصنوعی ذہانت “احساسات” کے دولت سے بھی مالا مال نظر آئے گا۔

اس مصنوعی ذہانت کا سفر کوئی نیا نہیں بلکہ پچھلی صدی کے وسط میں جب کمپیوٹرز نے ہر میدان کو فتح کرتے ہوئے اپنی اہمیت جتائی، تو ٹیکنالوجی ماہرین نے اِنہی مشینوں کو ذہانت دینے کا تصور پیش کیا۔ کام شروع ہوا اور تجربات ہونے لگے، وقت گزرنے کے ساتھ اس سائنسی تخلیق مصنوعی ذہانت نے کم وقت ہی میں حیران کن ترقی کی اور آج یہ مصنوعی ذہانت ہماری روزمرہ زندگی کا تقریباً حصہ بن چکی ہے۔ تعلیم، میڈیا، طب، تجارت، اور دفاع جیسے شعبوں میں مصنوعی ذہانت کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے، بلکہ مغرب تو اب ہر قدم پر اِسی مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہیں۔ لہذا مصنوعی ذہانت کے اس سفر کو دیکھتے ہوئے اس بات سے قطعاً منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ اب یہ دینی مدارس جیسے علمی اداروں کے لئے بھی ایک اہم ضرورت و موضوع بن چکا ہے۔

مدارس، جو ہمیشہ علمی و روحانی تربیت کے مراکز رہے ہیں، ان کے لئے یہ مصنوعی ٹیکنالوجی کافی سہولت و مزید مؤثر انداز میں آگے بڑھنے کے ایک نئے دور کی نوید ہے۔ دینی علوم کی تعلیم و تدریس کو بہتر بنانے، تحقیقات کو مزید منظم کرنے اور انتظامی معاملات کو آسان بنانے میں مصنوعی ذہانت نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر مدارس دینیہ کے چلانے والوں سمیت طلباء و فضلاء اس ٹیکنالوجی کو گہرائی سے سمجھیں اور اپنائیں، تو وہ نہ صرف اپنی علمی میراث کو مزید بہتر و پائدار انداز محفوظ رکھ سکتے ہیں بلکہ اسے دنیا تک مؤثر انداز میں بھی پہنچا سکتے ہیں۔ مثلاً قرآن و حدیث کی تعلیم میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے آیات اور احادیث کی درجہ بندی کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ جدید AI ٹولز ایسے موضوعات کو تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جو تحقیق کرنے والوں کے لئے وقت کی بچت کریں۔ اسی طرح فقہی مسائل پر مختلف آراء کو منظم اور تجزیہ کرنے میں بھی یہ ٹیکنالوجی فائدہ دے سکتی ہے۔
تدریسی عمل میں بھی مصنوعی ذہانت کا کردار اہم ہے۔ کلاس رومز میں طلباء کی انفرادی کارکردگی کو جانچنے اور ان کی رہنمائی کے لیے AI سسٹمز استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ان مصنوعی سسٹمز کے ذریعے اساتذہ طلباء کے کمزور پہلوؤں کو پہچان کر انہیں بہتر سے بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
اسی طرح مدارس کے انتظامی امور میں بھی یہ مصنوعی ذہانت انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے۔ طلباء کے ریکارڈ کو منظم کرنا، مالیاتی معاملات کو بآسانی سنبھالنا اور امتحانات کے نتائج کو جلد، شفاف اور درست انداز میں مرتب کرنا مصنوعی ذہانت کے ذریعے آسان بنائے جا سکتے ہیں۔
اور
یہ سب کچھ صرف مدارس دینیہ کے انتظامی و تدریسی سطح تک محدود نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ کے میدان میں بھی مصنوعی ذہانت آگے مزید کامیابیوں کا ایک ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر دینی مواد کی اشاعت، مختلف زبانوں میں ترجمے اور مخاطبین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی و تربیتی مواد کی تیاری میں بھی مصنوعی ذہانت کافی مددگار ہو سکتی ہے۔

یہ بات تو بلکل واضح ہے کہ عصرِ حاضر میں مصنوعی ذہانت ایک اہم انسانی ضرورت بن چکی ہے۔ مدارس کے طلباء، اساتذہ اور فضلاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو سمجھیں اور اسے اپنے وسیع تر مقاصد و حصول اہداف کے لئے استعمال کریں۔ اگرچیکہ یہ مصنوعی ذہانت ابھی تک تحقق کے درجہ تک نہیں پہنچی اور اس سے غلطیوں کا صدور بھی بہر حال ممکن ہے لیکن “خذ ما صفا و دع ما کدر” کے تناظر میں فلحال اس طرف توجہ ضروری ہیں۔ اسی طرح اگرچہ یہ میدان نیا اور قدرے پیچیدہ بھی محسوس ہوتا ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔
لہذا
وقت کا تقاضا ہے کہ دینی مدارس اس میدان میں ابھی سے قدم رکھیں اور مدارس کے منتظمین اس میدان کے شہسواران کے مشاورت سے اپنے طلباء کیلئے اس حوالہ سے تربیتی نشستوں کا اہتمام کریں، یقیناً یہ بروقت اقدامات نہ صرف دینی تعلیم کو مزید مؤثر بنائے گا بلکہ کافی آسان و مؤثر انداز میں اسلامی تعلیمات کو دنیا کے ہر گوشے تک پہنچانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں