19

یوم شہادت حضرت علی رضی اللہ عنہ/ازقلم/ابوبکرصدیق کوہاٹی

تاریخ اسلام میں ہمیشہ سے کچھ کردار ایسے رہے ہیں، جن کا تذکرہ کرنا ہر مسلمان اپنے لیے باعث فخر و غرور سمجھتا ہے اور ان سے محبت و الفت، عقیدت و احترام کو زندگی کا ایک اہم جزو سمجھتا ہے، دنیا ان کے نقش قدم پر چلنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتی ہے جبکہ ان سے اظہار عقیدت کرنا نجات کا ذریعہ گردانا جاتا ہے، ایسی نابغۂ روزگار شخصیات، لائق تقلید، معزز و محترم المقام ہستیوں میں ایک نام وہ بھی ہے جن کو اہمیت نا صرف خاندانی نسبت سے ہے، بلکہ ان کی ذاتی خصوصیات، کردار، اور اسلام کی فلاح کے لیے کی جانے والی کوشش کے باعث بھی بہت زیادہ ہے۔ آپ کا خاندان عظیم ترین خاندانوں میں سے ایک تھا، آپ خاندانِ بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں، اور بنو ہاشم سردارانِ مکہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھیں۔ حرم کعبہ کی خدمات، چاہِ زمزم کے انتظامی معاملات، حجاج کی مہمان نوازی، ان کا اعزاز و اکرام اور معاونت کرنا بنو ہاشم کا طغرہ امتیاز تھا۔ آپ کی زندگی عدل، علم، بہادری اور زہد و تقویٰ کا نمونہ تھی۔ آپ خاتم النبیین کے چچا زاد بھائی بھی تھے، جبکہ آپ کے والد، حضرت ابو طالب، نبی کریم ﷺ کے سرپرست تھے اور والدہ، حضرت فاطمہ بنت اسد، نے نبی ﷺ کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ(رض) نوجوانوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے۔ آپ کو ہجرت کی رات آپ ﷺ کے بستر پر سونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپ کی شادی حضرت فاطمہ سے ہوئی۔ آپ کے بیٹے حضرت حسن و حسین، آپ ﷺ کے نواسے اور اہل بیت کے جلیل القدر افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ چوتھے خلیفہ راشد بھی ہیں، آپ کی خلافت عدل و انصاف حکمت اور شجاعت کا نمونہ تھی۔ آپ علم و حکمت، شجاعت و بہادری، عدل و انصاف، زہد و تقوی اور فصاحت و بلاغت جیسے خصوصیات سے مزین تھے۔ آپ ہی ہیں، جو ابو تراب، حیدر کرار، اسد اللہ الغالب، فاتح خیبر، دامادِ نبی(ﷺ)، پیکرِ شجاعت، حسنین کریمین کے والدِ محترم، سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے شوہر نامدار، سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کہلائے۔ آپ نے نبی علیہ السلام کے گھر پر پرورش پانے کی سعادت حاصل کی۔ آپ کو جناب محمد رسول اللہﷺ نے ابوتوراب کی کنیت سے پکارا، اپنی چہیتی اور لاڈلی بیٹی، سیدہ فاطمۃ الزہرا (رض) آپ کے نکاح میں دے کر آپ کو شرف دامادی بخشی یاد رکھیں! آپ کے نکاح کا مشورہ دینے والے شیخین کریمین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) تھے، اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ شیخین حضرت علی(رض) سے کتنی محبت کرتے تھے، امام احمد بن حنبل(رح) فرماتے ہیں کہ جتنی کثرت سے، حضرت علی(رض) کے فضائل روایات میں آئے ہیں، کسی اور صحابی کے بارے میں اتنی کثرت سے روایات نہیں آئے۔
آپ رض کی ولادت و خاندان:
آپ کی ولادت “مکہ مکرمہ” کی مشہور وادی “شعب بنی ہاشم” میں ہوئی۔ ولادت کے وقت آپ کے والد گرامی جناب “ابو طالب” گھر میں موجود نہیں تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ “فاطمہ بنت اسد” نے آپ کا “نام” اپنے “والد کے نام” پر ‘اسد’ رکھا جب خواجہ ابو طالب واپس تشریف لائے تو انہوں نے آپ کا نام “علی” رکھا۔
والد، عبد مناف(کنیت، ابو طالب) والدہ، فاطمہ بنت اسد، برادران، طالب، عقیل اور جعفر طیار اور ہمشیرگان، میں ام ہانی اور جمانہ شامل ہیں۔
حضرت فاطمہ بنت رسول اللہﷺ سے آپ کی اولاد حسن و حسین، زینب الکبری اور ام کلثوم (رضی اللہ عنہھم) پیدا ہوئیں، آپ کی بیٹی حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر فاروق(رض) سے ہوا۔ بعض روایات میں تیسرے صاحبزادے حضرت محسن کا نام بھی ملتا ہے۔
آپ نے حضرت فاطمۃ الزہرا (رض) کے علاوہ مختلف اوقات میں کئی نکاح فرمائے، اور ان سے اولاد بھی ہوئی۔
نام، کنیت مع لقب:
نام، علی بن ابی طالب۔ کنیت، ابو الحسن، ابو تراب۔ القاب، اسد اللہ، حیدر اور المرتضی۔
نکاح:
“دو ہجری غزوہ بدر” کے بعد آپ کا حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بعد مزید کئی نکاح فرمائیں۔
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے فضائل و مناقب:
آپ ﷺ نے آپ (رض) کے بارے میں فرمایا: اے اللہ! حق کو ادھر پھیر دے جس طرف ‘علی’ ہو۔ ایک اور روایت میں آپ(رض) سے محبت کو ایمان کی علامت جبکہ بغض کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔ آپﷺ کے فرمان کے مطابق “منافق علی سے بغض رکھے گا اور مومن علی سے محبت کرے گا۔ آپ(رض) نے فرمایا: کہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے نبی علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا کہ “میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں۔” جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہھم کو بلایا پھر فرمایا، “یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا جس کا میں دوست ہوں اس کا علی بھی دوست ہے اور حضرت علی سے یہ فرمایا تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام تھے، ہاں مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ آپ(رض) کی خوش قسمتی کہ آپ کا بچپن سید الانبیاء کی تربیت اور سرپرستی میں گزرا۔ آپ کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذمہ لیا۔ آپ نے محمد بن عبداللہ کو محمد رسول اللہ ﷺ بنتے دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ بچوں میں سب سے پہلے آپﷺ کی دعوت پر آپ(رض) نے لبیک کہ کر ایمان قبول کیا۔ آپ پر حضورﷺ کا اعتماد اتنا کہ اپنی چہیتی بیٹی، آپ کے نکاح دی۔ جس کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا “فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو فاطمہ کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے جو اسے رنج دیتا ہے وہ مجھے رنج دیتا ہے۔”
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چند فضائل و خصوصیات ترتیب وار ذکر کیے جاتے ہیں:
1: سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل
2: نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی
3: نبی کریم ﷺ کے داماد
4: غزوہ خیبر میں فتح کے ہیرو
5: نبی کریم ﷺ کے رازدار
7: جنگِ بدر، اُحد، خندق اور دیگر معرکوں کے بہادر سپہ سالار
8: نبی کریم ﷺ نے انہیں “باب العلم” (علم کا دروازہ) کہا
9: خلافتِ راشدہ کے چوتھے خلیفہ
10: قرآن و سنت کے سب سے بڑے فقیہ
11: زہد و تقویٰ میں بے مثال
12: بے مثال شجاعت
13: غیر معمولی علم و حکمت
14: اعلیٰ درجے کا تقویٰ
15: عدل و انصاف کا نمونہ
16: فصاحت و بلاغت میں یکتا
17: سخاوت اور ایثار کی مثال
18: نبی کریم ﷺ کے سب سے قریبی ساتھیوں میں سے
19: صبر و استقامت کے پیکر
20: شبِ ہجرت بسترِ رسول پر سونا
21: قرآن کے حافظ و مفسر
22: بہترین قاضی اور منصف
23: اللہ کی راہ میں بے خوف
24: محنتی اور خوددار
25: لوگوں کے دلوں میں محبت رکھنے والے
26: دنیا اور آخرت میں کامیاب ترین شخصیات میں سے۔
وفات، نمازِ جنازہ مع تدفین:
آپ نے کل “چار سال نو ماہ تک خلافت کے امور سرانجام دیے. آپ نے آخری وقت اپنے صاحبزادوں، حضرات حسنین کریمین کو “خوف خدا اور حسن عمل” کی وصیت کی اور سورۃ الزلزال کی آخری دو آیاتِ کریمہ تلاوت فرمائی۔
17 رمضان المبارک، جمعۃ المبارک فجر کے وقت عبدالرحمن بن ملجم جیسے شقی القلب اور ازلی بدبخت کے ہاتھوں زخمی ہوئے، اور 18ھ رمضان المبارک، بروز ہفتہ، آپ نے جام شہادت نوش فرمایا، آپ کی نماز جنازہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، کوفہ ہی میں دارالامارہ میں دفن کیے گئے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ
اللہ ہمیں آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں