سیدنا معاویہ کے عہد خلافت تھا ،چار نوجوان مسجد حرام میں نماز سے فارغ ہو کر مستقبل میں اپنی اپنی خواہشات اور تمناؤں کا ذکر کرنا شروع کیا ۔ ان میں سے ایک نے ابتدا کرتے ہوئےکہا : ’’ میری خواہش ہے کہ میں حرمین پر قبضہ کر کے خلافت حاصل کرلوں۔‘‘ دوسرے نوجوان نے کہا : ’’میری آرزوہے کہ دونوں عراقوں پر قبضہ کرلوں اور قریش کی دوشریف زادیوں سکینہ بنت حسین اور عائشہ بنت طلحہ کو اپنے عقد نکاح میں لے آؤں ۔‘‘ تیسرے نوجوان نے کہا : ’’میری خواہش ہے کہ سیدنامعاویہ کا جانشین بن جاؤں اور ساری دنیا پر بادشاہت کروں ۔‘‘ جب سب اپنی خواہشات کا اظہار کرچکے توچوتھے نوجوان نےکہا : ’’تمہاری خواہشات تمہیں مبارک میری تو صرف یہ تمنا ہے کہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت میں جنت کا پروانہ مل جائے اور مجھ سے اس علم (یعنی علم حدیث) کا فیضان جاری ہوجائے ۔‘‘ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہر ایک کی خواہش وتمنا کی تکمیل ہوگئی اور ہر ایک نے اپنی آرزو کو پالیا ۔ ان میں پہلے نوجوان کا نام حضرت عبداللہ بن زبیر ،دوسرے نوجوان کا نام حضرت مصعب بن زبیر ،تیسرے نوجوان کا نام حضرت عبدالملک بن مروان رحمۃ اللہ علیہ اورچوتھے نوجوان کا نا م حضرت عروہ بن زبیررحمۃ اللہ علیہ تھا ۔ حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کو علم حدیث میں اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا اور ان کا جو فیض جاری ہوا وہ اہل علم جانتے ہیں انکی یہ ایک تمنا تو بر آئی دوسری تمنا جنت کی تھی۔حضرت عبدالملک بن مروان رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتا تھا : ’’جو شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہے تو عروہ بن زبیر کو دیکھے کیونکہ انہوں نے جنت کی خواہش کی تھی ۔‘‘ (وفیات الأعیان) حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ کےان سات نفوس قدسیہ میںشامل تھے جواپنے دور کےلوگوں کے لئے علمی دنیا میں سکون قلب کاسبب تھے جنہیں فقہاء سبعہ کےمقدس ومبارک لقب سے یادکیاجاتاہے۔ آپ کا اسم گرامی عروہ ہے اور کنیت ابو عبد اللہ ہے ۔آپ کی ولادت 23ہجری میں سیدنا عمر فاروق کے آخر یاسیدنا عثمان کے آغاز عہد خلافت میں میں ہوئی۔ آپ مشہور صحابی اور حواری رسول حضرت زبیر بن عوام جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے کے فرزند تھے۔آپ کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر جنہیںزبان رسالت سے ذات النطاقین کا خطاب ملا تھاجبکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ان کی خالہ تھیں۔ آپ کے بڑے بھائی حضرت عبد اللہ بن زبیر بڑے صاحب علم صحابی تھےاورآپ کے نانا خلیل رسول سیدنا ابو بکر صدیق تھے۔ اس طرح حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ کی رگوں میں ایک جانب حواری رسول اوردوسری جانب صدیق رسول کا خون تھا۔ عبد اللہ بن زبیر اورعبدالملک کی معرکہ آرائیوں میںحضرت عروہ بن زبیررحمۃ اللہ علیہ اپنے بھائی کے ساتھ تھے ۔حضرت عبد اللہ کی شہادت کے بعد حجاج نے ان کی لاش سولی پر لٹکوادی تھی اورتجہیز وتکفین کے لیے حوالہ نہ کرتا تھا۔ اس وقت حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ ہی عبد الملک کے پاس شام گئے تھے۔وہ بڑی محبت اور عزت سے پیش آیا۔ حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ کو گلے لگا کر اپنے ساتھ تخت پر بٹھا یا اس وقت تک اس کو حضرت عبد اللہ بن زبیر کے قتل ہونے کی خبر نہ پہنچی تھی۔ حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ کی درخواست پر فوراً حجاج کے نام لاش حوالہ کرنے کا حکم جاری کر دیا اور اس کی اس حرکت پرسخت ناپسند یدگی ظاہر کی۔ حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ ان اسلاف اوران بزرگوں کی یادگار تھے جو علم وعمل کا مجمع البحرین تھے۔ اگر دیکھا جائےتو آپ کا ساراگھرانا علم وعمل اور مذہبی اوراخلاقی فضائل وکمالات کا پیکر تھا،عروہ نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی اور اسی میں پرورش پائی، اس لیے یہ دولت انھیں وراثت میں ملی تھی اور ان کا دامن جملہ علمی اوراخلاقی فضائل سے معمور تھا۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے کہ آ پ کے مناقب بے شمار ہیں،آپ کی جلالت،علو مرتبت اوروفور علم پر سب کا اتفاق ہے۔ آپ کا فقہی کمال اس قدر مسلم تھا کہ بڑے بڑے صحابہ رسول ؇ مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ صبر واستقامت کے مجسم پیکر تھے ۔بڑی سے بڑی آزمائش اورتکلیف کے موقع پر زبان سے اف تک نہ نکلتی تھی ۔ایک مرتبہ عبد الملک کے پاس شام گئے ہوئے تھے۔آپ کےبیٹے محمد بھی ساتھ تھے۔وہ شاہی اصطبل دیکھنے گئے۔ایک جانور نے ان کو پٹک دیا۔ اس کے صدمہ سے وہ اسی وقت جان بحق ہو گئے۔اس کے بعد ہی حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاؤں میں ایک خراب قسم کا زہریلا زخم پیدا ہوگیا۔اطباء نے پاؤں کاٹے جانے کا مشورہ دیااورنہ کاٹے جانے کی صورت میں تمام جسم میں زہر پھیل جانے کا اندیشہ ظاہر کیا۔حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ اس وقت ضعیف ہو چکے تھے لیکن آپ نے جوانوں سے زیادہ ہمت و استقلال سے کام لیا۔جب پاؤں کاٹنے والے کو بلوایا گیا تولوگوں نے حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ ہم آپ کو تھوڑی سی شراب پلا دیتے ہیں تاکہ آپ کو تکلیف کا احساس نہ ہو۔حضرت عرو ہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جس الله سے میں صحت وعافیت کی امید لگاؤں اسی الله کی حرام کی ہوئی چیز اس موقع پر استعمال کروں؟لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کو نیند آور مشروب پلا دیتے ہیں۔ اس سے بھی آپ کو تکلیف کا احساس کچھ کم ہوجائے گا۔ حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے جسم کا کوئی حصہ کاٹا جائے او رمجھے اس کی تکلیف کا احساس بھی نہ ہو کیوں کہ پھر میں خدا سے اجروثواب کی امید کس بات پر کروں گا؟ اس کے بعد حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ کچھ لوگ اندر آکر ان کے پاس کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے پوچھاکہ یہ لوگ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں؟ لوگوں نے جواب د یا کہ جب آپ کاپیر کاٹا جائے گا تو یہ لوگ آپ کو پکڑے رہیں گے تاکہ آپ ہلیں نہیں ۔حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں کو مجھے پکڑنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔چھری سے ان کی ٹانگ کاٹی گئی۔ چھری جب ہڈی تک پہنچی تو اس نے کام کرنا چھوڑ دیا چناں چہ آری منگوائی گئی اور ہڈی آری سے کاٹی گئی۔ ٹانگ جب آری سے کاٹی جارہی تھی تو حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے صرف لا الہ الا الله اور الله اکبر نکل رہا تھا۔ پھر لوہے کے ایک برتن میں تیل کھولایا گیا اور خون روکنے کے لیے ان کی ٹانگ کو اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا گیا۔تکلیف کی شدت سے حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ پر بیہوشی طاری ہو گئی۔جب ہوش میں آئے تو چہرے سے پسینہ پوچھتے جاتے تھے اور سورہ کہف کی یہ آیت پڑھتے جاتے تھے : ”اس سفر سے ہم بہت تھک گئے ۔“ حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہوش میں آنے کے بعد جب ٹانگ کا وہ کٹا ہوا ٹکڑا دوسروں کے ہاتھ میں دیکھا تو اس کو ان سے مانگا ، ہاتھ میں اس کو لیا، الٹ پلٹ کر دیکھا ،پھر اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ” قسم ہے اس ذات کی جس نے میرے جسم کا بوجھ تجھ پر لادا! میں اس ذات کو واسطہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے تجھ کو کبھی کسی غلط راہ پر نہیں چلایا اور نہ کسی گناہ کی طرف میں نے تجھ کو بڑھایا۔“ حضرت عروہ بن الزبیررحمۃ اللہ علیہ کا ایک عجیب و حیرت انگیز واقعہ کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ خلیفہ بننے سے پہلے کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ : ”رات میں اپنی چھت پر سویا ہوا تھا کہ راستے پر آوازیں محسوس کیں اورجھانک کر دیکھا ، تو کیا دیکھتا ہوں کہ شیاطین جوق در جوق آرہے ہیں۔یہاں تک کہ میرے مکان کے پیچھے ایک کھنڈر میں جمع ہوگئے۔پھر ابلیس بھی آگیا اور اس نے چیخ کر کہا : ”کون میرے پاس عروہ بن الزبیر کو لائے گا؟‘ ‘ ایک جماعت کھڑی ہوئی اور کہا : ”ہم لائیں گے ۔‘ ‘ پس گئے اور واپس چلے آئے اور کہا کہ ہم ان پر قادر نہ ہو سکے-ابلیس نے پھر چیخ کر کہا : ”کون میرےپاس عروہ بن الزبیر کو لائے گا ؟‘ ‘ تو ایک اور جماعت اُٹھی اور کہا کہ ہم لائیں گے اور یہ جماعت بھی جا کر واپس آگئی اور کہا کہ ہم ان پر قادر نہیں ہو سکے ۔ اس پر وہ پھر بہت زور سے چیخا۔ حتیٰ کہ میں یہ سمجھا کہ زمین شق ہو گئی پھر چیخ کر کہا : ”کون میرے پاس عروہ بن الزبیر کو لائے گا ؟‘ ‘ تو ایک تیسری جماعت اٹھی اور کہا کہ ہم لائیں گے اور یہ جماعت بھی جا کر بہت دیر میں واپس آگئی اور کہا کہ ہم ان پر قادر نہیں ہوسکے ،اس پر ابلیس غضبناک ہو کر چلا گیا اور شیاطین بھی اس کے پیچھے ہو گئے ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ یہ واقعہ دیکھ کر حضرت عروہ بن الزبیررحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئے اور یہ سارا واقعہ سنایا تو انھوں نے کہا کہ میرے والد حضرت زبیر بن العوام نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے اللہ کے نبیﷺ سے یہ سنا کہ جو بھی شخص صبح یا شام اس دعا کو پڑھتا ہے اللہ اس کو ابلیس اور اس کے لشکر سے محفوظ رکھتے ہیں ، وہ دعا یہ ہے : ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ذِيْ الشَّأنِ ، عَظِیْمِ الْبُرْھَانِ ، شَدِیْدِ السُّلْطَانِ ، مَاشَاءَ اللّٰہُ کَانَ ، أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان‘ ‘
ترجمہ: ” اللہ کے نام سے جو شان والا ہے ، بڑی دلیل والا ہے ، زبر دست سلطنت والا ہے ، جو اللہ چاہے وہ ہوتا ہے ، میں شیطان سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ ‘ ‘
( تاریخ ابن عساکر )
حضرت عروہ بن زبیررحمۃ اللہ علیہ نے مدینۃ الرسول کے مغرب میں مکان بنایا۔آپ کا آشیانہ دور دراز سے آنے والےحجاج و معتمرین کے لیے میقات کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ تھکے ہارے مسافر ان کے مہمان بنتے، گھر کے سائے سے فائدہ اٹھاتے اور ٹھنڈا پانی پیتے۔جسے آپ کی رحلت کے بعد ایک قلعہ میں تبدیل کر دیاگیا۔ آپ کا یہ قلعہ مدینہ منورہ میں یہ اس دور کے مسلمانون کے فن تعمیر کا عمدہ شاہکار ہے۔ حال ہی میں سعودی محکمہ آثار قدیمہ نے قلعے کے کھنڈرات کا ازسر نو جائزہ لیا اور یہ تسلیم کیا ہے کہ قلعہ عروہ ابن زبیر نہ صرف قرون اولیٰ کے مسلمان فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی ابتدائی شان شوکت اور غلبہ اسلام کا چشم دید گواہ بھی ہے۔
آپ کوصحابہ کرام ؇کی ایک بہت بڑی جماعت سے حصول علم کاموقع نصیب ہوا۔ جن میں آپ کےوالد حضرت زبیر ، آپ کے بھائی حضرت عبداللہ ، والدہ سیدہ اسماء خالہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؇کے علاوہ حضرت علی بن ابی طالب، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت اسامہ بن زید، حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابوایوب انصاری ؇ وغیرہم شامل ہیں۔
حضرت عروہ بن زبیررحمۃ اللہ علیہ کی وفات 94ہجری میں ہوئی۔ حضرت عروہ بن زبیررحمۃ اللہ علیہ سفر وحضر میں مسلسل روزے رکھتے تھے۔ جب آپ کاانتقال ہوا تو آپ اس وقت بھی روزہ کی حالت میں تھے۔ 94 ہجری کو فقہاء کی موت کا سال کہا جاتا ہے کیونکہ اسی سال حضرت علی بن حسین(امام زین العابدین )حضرت سعید بن مسیب ،حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ابو بکر بن عبد الرحمان رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا