مسلم کمانڈر جس نے ایک مسلم خاتون کو آزاد کرنے کے لیے فوج کشی کی،وہ کمانڈر جو صلیبیوں کے لیے موت کا فرشتہ ہوا کرتا تھا ، جس نے50 سے زائد جنگیں لڑیں اور ایک بار بھی شکست نہیں کھائی بلکہ اس سے بھی تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ کی فتوحات ان علاقوں تک پہنچی جہاں قرون اولیٰ کے فاتحین بھی نہیں پہنچے تھے! وہ ایک بے مثال قاضی اور عادل حکمران بھی تھا،جو ہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ موت کسی محل میں نہیں میدان جہاد میں آئے۔اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل اپنے وزرا کو بتایا:
’’میں زمانہ طالب علمی سے سوچتا تھا کہ اگر تقدیر مجھے اندلس کا طاقتور ترین شخص بنا دے تو میں اس سلطنت کو عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچا دوں گا کہ یہاں کے شہری ہونے پر سب فخر کریں گے۔‘‘
اس نوجوان نے اندلس کی حکم رانی کا خواب اس عمر میں دیکھا تھا جس میں ان کے ساتھی گپ شپ اور تفریحی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔
”تاریخ اندلس“ کے مطابق اس کے کیرئر کا آغاز بھی عجیب و غریب انداز میں ہوا ۔ کہتے ہیں کہ پانچ طالب علم قرطبہ کے ایک باغ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔یہ نوجوان غالباً پکنک منانے کے لیے یہاں آئے تھے کیونکہ کھانے پینے کا سامان بھی ان کے پاس تھا۔یہ سب کھا پی رہے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں بھی کر رہے تھےلیکن ان میںسے ایک طالب علم گم سم کسی خیال میںڈوبا ہوا خاموش بیٹھا تھا۔اس کی شکل و صورت سے شرافت اور ذہانت ٹپک رہی تھی۔ماتھے پر غرور کی علامات بھی تھیں۔ ساتھی طالب علموں نے اسے چھیڑتے ہوئے خاموشی کا سبب پوچھا تووہ چونک کر بولا:
”مجھے یقین ہے کہ میں بہت جلد اس ملک کا حکمران بن جاؤں گا اسی وقت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں نے اس ملک کے مسائل کو کیسے حل کرنا ہے؟“ اس کے ساتھی یہ سن کر ہنسنے اور اس کا مذاق اڑانے لگے۔ اس نے اس ہنسی مذاق کا کچھ بھی اثر نہ لیا اور بڑے اعتماد سے بولا:
”دوستو!وہ وقت دور نہیں جب قوت، طاقت اور حکومت میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں پورے اندلس کا حکمران ہوں گا۔ تم لوگ ابھی سے مجھ سے مانگ لو جو تمھیں چاہیے کہ یہ وقت ِقبولیت ہے۔بتاؤ!تم سب کن کن عہدوں پر مامور ہونا چاہو گے؟“
اس کے دوست پھر ہنس دیےلیکن جب اس خوبرو نوجوان نے ان کو مجبور کیا تو ان میں سے ایک بولا:
”میاں !ہمیں تو آج کی یہ میٹھی روٹیاں اور خستہ ٹکیاں بہت اچھی لگیں تو تم مجھے انسپکٹر بازار مقرر کر دینا تاکہ جب جو چیز چاہوں بڑے شوق سے کھاؤں۔ “ دوسرا بولا:”ہمیں تو یہ انجیر بہت پسند آئے۔ تم مجھے مالقہ کا قاضی بنا دیناکہ وہ میرا وطن بھی ہے اور وہاں کے انجیر بھی بہت لذیذ ہوتی ہے۔“
تیسرے نے باغ کے ہرے بھرے درختوںکی طرف دیکھ کر کہا:” مجھے تو یہ سر سبز باغ بہت پسند ہے ، تم مجھے قرطبہ کا حاکم بنا دینا۔“
چوتھا خاموش بیٹھا اس متکبر دوست سے زیادہ اپنے بقیہ ساتھیوں پر پیچ و تاب کھا رہا تھاکہ وہ اس سے عہدے اس انداز سے طلب کر رہے تھے جیسے و ہ سچ مچ بادشاہ اندلس ہو گیا ہو۔ جب اس نے اس سے پوچھا تو وہ غصہ سے بولا:
” جب طاقت تمھارے ہاتھ میں آ جائے تو میرے سارے جسم پر شہد مل دینا تاکہ خوب مکھیاں بیٹھ کر بھنبھنائیں اور کاٹیں۔پھر منہ کالا کر کے گدھے پر الٹا سوار کرا کے سارے شہر میں گشت کرا دینا۔“
وہ بولا : ”دوستو !گھبراؤ نہیں ایسا ہی ہوگا۔“
پھر قدرت کوبھی یہی منظور تھا اور ایک وقت آیاکہ وہ نوجوان اندلس کاوزیر اعظم بنا اور وزیر اعظم بھی ایسا کہ اندلس کی تاریخ میں پھر ایسا وزیر اعظم کوئی دوسرا نہ بن سکا اور پھر اس نے اپنے تمام دوستوں کی خواہشات بھی من وعن پوری کیں۔
اس حوالے سے ایک روایت مختلف انداز سے بیان کی جاتی ہے کہ ایک دن قرطبہ کی مسجد میں محمد بن ابی عامر اور ان کے ساتھی اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں بات کررہے تھے۔ ابن ابی عامر نے خود کو مستقبل میں سلطنت کا وز یر اعظم بتایا تو دوست بے ساختہ ہنسنے لگے۔ ایک شوخ لڑکے نے طنزیہ شعر بھی چست کر دیا۔ محمد بن ابی عامر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے کہا: ’’یہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ ابھی وقت ہے اپنے لیے جو مانگنا ہے مانگ لو ۔‘‘
یہ سن کر ایک دوست نے استہزائیہ انداز میں کہا:
’’اے ابن ابی عامر! مجھے قاضی بننے کا شوق ہے تم مجھے میرے آبائی شہر مالقہ کا قاضی بنا دینا۔‘‘
دوسرے نے پولیس کا اعلیٰ کا عہدہ مانگا۔ تیسرے نے کہا کہ مجھے شہر کے تمام باغات کا نگران بنا دینا۔ جس لڑکے نے طنزیہ شعر پڑھا تھا۔اس نے حقارت سے کہا: ’’تمہاری اگلی سات نسلوں میں بھی کوئی وزیرِ اعظم بن گیا تو میرا منہ کالا کر کے گدھے پر شہر میں گشت کرانا۔‘‘ اور پھر لڑکا پچھتایا۔
ماہ و سال کی گردش نے جب اس نوجوان کے خواب کو حقیقت میں بدلا تو وہ محمد بن ابی عامر ’’ الحاجب المنصور ‘‘کے نام سے مشہور ہوئے۔جس میں حاجب ان کا عہدہ اور المنصور ان کی غیرمعمولی فتوحات کے لیے دیا گیا نام تھا۔آپ اندلس کے بہترین منتظم جب کہ عا لم اسلام کے بہادر اور فاتح سپاہ سالار بنے۔ ان کے عہد میں عوام خود کو بہت محفوظ خیال کرتے تھے۔ آپ کے دور میں اندلس کو جو عروج نصیب ہوا وہ دوبارہ نہ مل سکا جبکہ دوسری طرف وہ اسلام کے ایک بہادر سپاہی اور اپنے دین کے محافظ بھی تھے جس نے میدان جنگ میں عیسائیوں کو بدترین شکست دی تھی جس کی بنا پر وہ المنصور سے سخت نفرت کرتے تھے ۔ انھوں نے کئی علاقوں کو فتح کے بعد مرکز کے صوبے کے طور پر اپنی سلطنت سے جوڑا اور خراج وصول کرکے اسے مالی طور پر مستحکم کیا۔انہوںنے اندلس میں اعلیٰ پائے کا انتظام رائج کیا اور ہر شعبے میں قاعدہ مقرر کیا۔ اس عہد میں رشوت اور بدعنوانی کی سختی سے بیخ کنی کی گئی جب کہ اہل علم و ادب کی بڑی قدر افزائی اور ان کے لیے وظیفے مقرر کیے۔
مشہور برطانوی مؤرخ اور ماہر آثار قدیمہ اسٹینلے لین پول نے المنصور کے بارے میں لکھا:
’’عبدالرحمٰن سوئم نے جس عظیم اندلس کا خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر المنصور کے عہد میں ہوئی۔‘‘
ابن ابی عامر اندلس اور مسلم تاریخ کا ایک ایسا جگمگاتا کردار ہے جس کی آب و تاب کئی سو سال گزرنے جانے کے بعد بھی ماند نہیں پڑی ۔ اندلس کے اس فرماں روا کا آبائی وطن جنوبی اسپین بتایا جاتا ہے جہاں انھوں نے 938 عیسوی میں ایک ساحلی شہر الخضرا کے متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ابن ابی عامر کے جدامجد کا نام عبدالمالک المعفری تھا جو اندلس کی پہلی فتح کے زمانے میں حضرت طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ کے سپاہیوں میں سے ایک تھا اور یہاں الخضرا کے قریب آباد ہوا تھا۔ اسی سپاہی کی آٹھویں نسل میں محمد بن ابی عامر پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں اس دور کے دستور کے مطابق مکمل کرکے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے قرطبہ آنے والے محمد بن ابی عامر کو دوران تعلیم بڑا آدمی بننے کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے حاجبُ السّلطنت (وزیر اعظم) بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔ ابن عامر نے قرطبہ سے قانون اور ادب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی شہر کی کچہری میں بطور عرضی نویس کام شروع کر دیا۔ اپنی سنجیدگی، دل جمعی، قابلیت اور نکتہ سنجی کے باعث وہ شاہی حکام کی نظروں میں آئے اور ان کے توسط سے شاہی خاندان کے ساتھ تعلق قائم ہو گیا۔
بعض تذکروں میںآیا ہے کہ خلیفۂ وقت کو اپنے دونوں شہزادوں کے لیے اتالیق اور جائیداد کا حساب رکھنے کے لیے محرّر چاہیے تھا اور محمد بن ابی عامر اس کے لیے منتخب ہوگئے۔ قسمت ان کے خواب اور عزم و ارادے کے ساتھ تھی اور وقت نے کچھ اس تیزی سے کروٹ بدلی کہ ابن عامر وہ شخص بن گئے جس کے تعاون اور مدد سے خلیفہ ہشام اوّل کے انتقال کے بعد بارہ سالہ ولی عہد ہشام دوم مسند خلافت تک پہنچے اور پھر اسی نو عمر خلیفہ نے اپنے محسن کو حاجب جیسے اہم ترین عہدے پر فائز کیا۔ ابن عامر کا یہ عہد چھتیس سال تک رہا جس میں انھوں نے عیسائی لشکروں سے باون جنگیں لڑیں اور ہر بار میدان سے فاتح بن کر لوٹے۔ وہ المنصور کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس سے قبل وہ قاضی کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔
تاریخ قرطبی میں ہے کہ اندلس کے حکمرانوں میں سے کوئی ابن ابی عامر المنصور جیسا نہیں گذرا۔اس نے50 سے زائد جنگیں لڑیں اورانہی جنگوں میں اس کی وہ مشہور لڑائی بھی شامل ہے جو رومیوں کے خلاف لڑی گئی۔ اس میں مسلمانوں کو دو پہاڑوں کے درمیان میں ایک ایسی تنگ جگہ سے گذرنا تھا جہاں سے ایک وقت میں صرف گھڑ سوار مشکل سے گذر سکتا تھا۔چنانچہ رومیوں نے بے شمار فوج لا کر اس تنگ درے کوبند کر دیا۔ منصور کو صورت حال کا علم ہوا تو اس نے وہاں سے خیمے اکھڑ وائے اورمضبوط عمارتیں بنانے کا حکم دیا اور چاروں طرف اپنے گورنروں کو احکامات جاری کر دیے کہ میں نے استخار ے کے بعد یہاں قیام کا فیصلہ کرلیاہے۔ چنانچہ یہاں ایک شہر آباد کررہا ہوں تم لوگ مزدوروں اور کاریگروں کو جلد یہاں بھجوا دو۔ رومیوں نے جب یہ منظردیکھا تو صلح کے لیے جھک گئے۔ منصور نے کہا :
”میں تم سے اسی وقت صلح کروں گا جب تم اپنے بادشاہ کی بیٹی میرے نکاح میں دو گے۔“
رومیوں نے جواب دیا :
” ایسی ذلت کا تو ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ “
چنانچہ انھوں نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکے لڑائی کا ارادہ کر لیا۔ دوسری طرف منصور کے پاس20ہزار شہسوار تھے۔ دونوں لشکروں کا خوفناک مقابلہ ہوا۔ مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ منصور اپنے بیٹے اور چند مجاہدین کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔ اس نے حکم دیا کہ میرا خیمہ کسی بلند جگہ پر نصب کیا جائے چنانچہ ایساہی کیا گیا۔ مسلمانوں نے انپے امیر کا خیمہ دیکھاتو دوبار ہ اکٹھے ہو گئے اور پھر ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ رومیوں کو عبرتناک شکست ہوئی۔ ان کے بہت سارے آدمی مارے گئے۔بہت سے گرفتار کر لیے گئے۔ رومیوں نے پھرصلح کی درخواست کی۔ منصور نے اپنی پرانی شرط دہرائی اور ساتھ بہت سے مال و دولت کا بھی مطالبہ کیا۔ رومی راضی ہو گئے اور روم کے معززین نے وہ مال اور لڑکی منصورتک پہنچائی۔ لڑکی کوالوداع کرنے والے رومیوں نے لڑکی سے کہا : ” اب تم اپنی قوم کی فلاح کے لیے کچھ کرنا۔ “
تو اس لڑکی نے جواب دیا : ”عزت عورتوں کے جسم سے نہیں مردوں کے نیزوں سے حاصل کی جاتی ہے۔“
جب منصور فتح مند ہوکر واپس اپنے شہر پہنچا تو ایک عورت نے کہا :
” آپ اور دوسرے لوگ خوشیاں منا رہے ہیں جبکہ میں رو رہی ہوں کیونکہ میرا بیٹا تو رومیوں کی قید میں ہے۔“
منصور نے اسی وقت لشکر کوواپسی کا حکم دیا اور جب وہ دوبارہ شہر میں واپس آئے تو ان کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔
ایک مرتبہ غر سیہ والی ریاست لشکبنس کے پاس منصور اعظم کا کوئی ایلچی گیا۔ غرسیہ نے اس کا شاندار استقبال کیا اور اسے اپنے پورے ملک کی سیر کرائی۔ اس دوران میں ایلچی کو معلوم ہوا کہ یہاں ایک گرجا میں ایک مسلمان عورت قید ہے جس کو راہبوں نے اپنا قیدی بنا رکھاہے۔ ایلچی نے واپس آکر منصور کو سارے حالات سنائے اوراس قیدی عورت کا بھی تذکرہ کیا۔ چنانچہ منصور اسی وقت فوج لے کر ریاست لشکبنس پر حملہ آور ہوا۔ وہ جب ریاستی حدود کے قریب پہنچا تو غرسیہ عاجزانہ خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : ”جناب میں کسی گستاخی کامرتکب تو نہیں ہواپھرآپ نے میرے ملک پر حملہ کیوں کر دیا؟ “
منصور نے جواب دیا:
” تو نے وعدہ کیا تھاکہ اپنے ملک میں کسی مسلمان کو قید نہ رکھے گا، پھر تمھارے فلاں گرجے میں ایک مسلمان عورت کو قید کیوں رکھا گیاہے؟“
غرسیہ نے فوراً عورت کو منصور کے حوالے کیا اور ساتھ ہی اس گرجے کو بھی مسمار کر ڈالا جس میں وہ عورت قید تھی۔
8اکتوبر1002عیسوی(392ہجری) میں قسطلہ کے آخری جہاد سے واپسی پر مدینہ سالم کے مقام پر المنصورکا انتقال ہو گیا۔رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث کہ اللہ کی راہ کی گرد وغبار اور جہنم کا دھواں اکھٹا نہیں ہوں گے پر عمل کرتے ہوئےاس کی زندگی بھر یہ روٹین رہی کہ وہ جب بھی کسی جہاد سے واپس آتا تو اپنے جسم اور لباس پر پڑی گرد کو بڑی احتیاط سے ایک جگہ پر جھاڑ کر اسے ایک برتن میں محفوظ کرلیتا اوریہ برتن ہر جہاد میں اس کے ساتھ ہوتاتھا۔ چنانچہ اپنی تمام عمر کے جہادوں کی جمع شدہ خاک کو اپنی عمر کے آخری وقت میں اپنے بیٹے عبد المالک کے حوالے کیا اور اسے وصیت کی:
”مجھے قبر میں دفن کرنے کے بعد یہ خاک میرے بدن پر چھڑک دینا ۔“
چنانچہ ایساہی کیا گیا
