پڑھیے دُرُود؛ ذکر ہے آیا رسول کا۔
شاہِ رُسُل کا، باباے زہرا بتول کا۔
مشکل ہوں جتنے کام، سب آسان ہوجائیں؛
دوں واسطہ کبھی جو مدینے کی دھول کا۔
ذکرِ نبی کو خود پہ مقدَّم ہے کرلیا،
خود کو رکھا ہوا ہے یوں پابند اُصول کا۔
میں اُن کا ہوں غلام، بہت سی ہیں خواہشیں،
اندازہ کیا لگاؤ گے؟ میرے حُصول کا۔
میں وہ، کہ جس کے پاس ندامت کے کچھ نہیں؛
وہ ہیں، کہ جن کے پاس ہے مژدہ قبول کا۔
پڑھتا ہوں اُن کا اُسوہ، تو دل چاہتا ہے یہ،
نظّارہ میں بھی دیکھتا عہدِ رسول کا۔
راقم! عطاے رب ہے وہ جس کو نواز دے،
نغمہ و درد آمنہ امَّاں کے پھول کا۔