انسان کی زندگی کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں: یا تو وہ سفر میں ہوتا ہے یا حضر میں۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے بیشتر حقائق کا ادراک انسان کو سفر کے دوران ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ روحانی ہو یا دنیاوی، سفر بہرحال سفر ہی ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں دوستوں کے ساتھ سالانہ روحانی نقشبندی اجتماع میں شرکت کے لیے بنوں روانہ ہوئے۔ پشاور سے سیدھا بنوں پہنچے تو جیسے ہی خانقاہ کے دروازے پر قدم رکھا، سالکین اور خادمین نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ ہمارے میزبان، مکرم حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ صاحب مدظلہ العالی، نے میزبانی کا حق ادا کیا۔ وہ اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے، ہمیں گلے لگایا اور محبت بھرے انداز میں فرمایا:”بہت خوشی ہوئی کہ آپ لوگ یہاں آئے، اللہ تعالیٰ آپ ساتھیوں کی اس سعی کو قبول فرمائے۔”
حضرت مفتی صاحب کی محبت بھری باتوں نے ہماری ساری تھکن دور کر دی۔ احوال پرسی کے بعد، جب ساتھیوں کا تعارف کرایا گیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ باتوں باتوں میں کالم نگاری اور تجزیہ نگاری کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، جس کا ذکر ان شاء اللہ کسی اور موقع پر کروں گا۔
ہماری گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران دسترخوان لگا دیا گیا، اور دوپہر کے بھوکے لوگ رات دس بجے کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ کھانے میں موجود بنوں کا بیف پلاؤ نہایت لذیذ تھا، جس نے ذائقے کا لطف دوبالا کر دیا۔ کھانے کے بعد نمازِ عشاء ادا کی اور آرام کے لیے لیٹ گئے۔ یہ سمجھنا مشکل تھا کہ پہلے سر رکھا یا نیند آ گئی۔
روحانی اجتماع کا آغاز
صبح جب آنکھ کھلی تو خود کو تازہ دم پایا۔ نمازِ ظہر کے بعد اجتماع کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، جس کے بعد بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہمارے حضرت جی حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ کے خلفاء کرام کے ایمان افروز بیانات اور درمیان میں حضرت محبوب السالکین حضرت مولانا پیر گل رئیس نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ کی قیمتی نصائح و ارشادات نے محفل کو چار چاند لگا دیے۔
یہ تین دن یوں گزرے کہ پتہ ہی نہ چلا۔ اجتماع کی آخری شب، عشاء کے بعد حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ کے صاحبزادے، حضرت مولانا پیر حبیب اللّٰہ احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ سے تفصیلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ہمیں ان کی خدمت کا موقع بھی نصیب ہوا، جو ہمارے لیے کسی سعادت سے کم نہ تھا۔
یہ بابرکت مجلس علم و معرفت سے بھرپور تھی، جس میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت دامت برکاتہم العالیہ نے نہایت اہم موضوعات پر تفصیلی اور سیر حاصل گفتگو فرمائی، جو ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ مجلس کے اختتام پر حضرت صاحبزادہ دامت برکاتہم العالیہ نے حاضرین کے حق میں دعا فرمائی۔
اختتامی مجلس اور اجتماعی دعا
اگلے روز بابرکت دن، جمعہ تھا۔ ناشتے کے بعد اختتامی مجلس کا آغاز ہوا، جس میں محبوب السالکین حضرت مولانا پیر گل رئیس نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ نے معاشرتی اصلاح کے موضوع پر نہایت جامع اور پرمغز گفتگو فرمائی۔ آپ نے والدین کے حقوق و آداب، پڑوسیوں کے حقوق اور علماء کرام کے احترام و آداب پر روشنی ڈالی۔
اس کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور مہمانِ خصوصی کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا۔ پھر حضرت مولانا پیر حبیب اللّٰہ احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ نے “توبہ” کے اہم موضوع پر بصیرت افروز بیان فرمایا، جس نے سامعین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔
بعد ازاں، حضرت نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا اور نمازِ جمعہ کی امامت کر کے اس روحانی اجتماع کو سعادت و برکت کے ساتھ مکمل فرمایا۔
اختتامی دعا کا روح پرور منظر قابلِ دید تھا۔ حضرت صاحبزادہ دامت برکاتہم العالیہ نے رقت آمیز دعا فرمائی۔ ہر شریکِ مجلس دنیا و مافیہا سے بے خبر، عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنے رب کو منانے میں مشغول تھا۔ زار و قطار آنسو بہہ رہے تھے، دل توبہ و استغفار میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہر آنکھ اشکبار، ہر زبان آہ و زاری میں مصروف تھی۔ التجاؤں، سسکیوں اور آنسوؤں کے درمیان دلوں کی دھڑکنیں بھی گویا دعا میں شریک تھیں۔
امتِ مسلمہ کی سلامتی، پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ ہر دل اخلاص و محبت کے جذبات سے سرشار تھا۔ اسی پرسوز اور بابرکت فضا میں یہ عظیم الشان اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا۔
اللّٰہ تعالیٰ اس اجتماع کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ہمیں اپنے اکابر کے ساتھ وابستہ رہنے کی توفیق بخشے اور قیامت کے دن ہمیں ان برگزیدہ ہستیوں کی معیت نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔