خدائے واحد و یکتا کی معرفت ایسا بدیہی اور واضح امر ہے جو کسی قیل و قال کا محتاج نہیں۔ یہ نہ تو ان پیچیدگیوں میں سے ہے جنہیں سلجھانے کے لئے عمرِ نوح درکار ہو اور نہ ایسا راز ہے جسے پانے کے لئے علم کے بحرِ بے کراں میں غوطہ زن ہونا پڑے۔بلکہ خالقِ ارض و سما کی گواہی تو ہمارا انگ انگ دیتا ہے۔
ایک عاقل بالغ سلیم الطبع شخص اگر اپنے ارد گرد کائنات کا سرسری مطالع کرے تو بے سہارا آسماں،سرسبز وشاداب دھرتی ،ابلتے چشمے، نہروں کی روانی، دریاوں کا پانی ،فلک شگاف پہاڑ، وسیع و عریض میدان، چرند پرند ،بدلتے موسم، دن رات کا سلسلہ اسے سوچنے پے مجبور کر دے گا کہ
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے
دکھائی بھی نہ دے نظر بھی جو آ رہا ہے وہی خدا ہے
جب خدا مالکُ الملک ہر شے کا پالنہار ہر شے کا کارسازہے تو کیا اس نے یہ سب اشیاء محض تزئین وآرئش کے لئے پیدا کی ہیں یا یہ سب بطورِ نموذج کہ رکھی ہیں؟
نہیں بلکہ یہ سب تو اشرفُ المخلوقات کی آسانی و سہولت کے لئے بنائی گئی ہیں یہ دھرتی نوعِ انسانیت کے لئےسجائی گئی ہے۔
رب ذولجلال قران پاک میں کئی جگہ فرماتے ہیں
و سخر لکم الیل والنہار
وسخر لکم الشمس والقمر
وسخر لکم الانھار
ھو الذی جعل لکم الرض جمیعا
ان بے بہا، بیش قیمت اور ان گنت نعمتوں کے بدلے فقط ایک مطالبہ
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون صرف اور صرف عبادت کے لئے پیدا کیا
جہان تمھارے لئے ہے تم میرے لئے ہو۔
لیکن آج ہم اگراپنا جسمانی اور روحانی محاسبہ کریں تو ہم ہر طرح کی عبادت سے بلکل کورے ثابت ہوں گے۔
رب کی یاد تو صرف مشکل گھڑی اور کسی عزیز کی فوتگی تک محدود ہو کہ رہ گئی۔
جب کبھی سجدہ کی توفیق مل بھی جائے تو کیفیت کچھ ایسی ہوتی ہے۔
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں (اقبال)
بارگائے لم یزل میں جبیں جھکاتے سمے چند لمحوں کے لئے بھی ہم اپنی سوچ و خیالات کو یکجا نہیں کر سکتے
گویا ہماری عبادت
دل میں صنم یادوں میں بت سر بسجدہ پھر بھی ہیں
توحید ور بت آشنا کی بندگی نہ پوچھئے(اسد اللہ عظیم)
ہمارا رب تو ہم سے وہ سجدہ چاہتا ہے جس کی کیفیت
ان تعبد اللہ کانک تراہ وان لم یکن فانہ یراک
ہونی چاہئے ہماری عبادت زندگی کی آخری عبادت سمجھ کے کی جانے والی ہو اور ہمیں جنت جہنم کے استہظارسے سجدوں کی حلاوت حاصل ہو تو یہ ہی وہ سجدہ ہے جو ہمیں بندوں کی بندگی سے نکالنے کے لئے ممد و معاون ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
دیتا ہے آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات(اقبال)