اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے اور اختتام ذوالحجہ کے مہینے پر ہوتا ہے
لیکن آج ہمارے مسلمانوں کے عام طبقہ اور خاص کر نوجوانوں نسل کو نہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کونسا اسلامی سن چل رہا ہے یا شروع ہورہا ہے، اور کونسا ختم ہورہا ہے، اوراسلامی سال کا آغاز کس مہینے پر ہوتا ہے کس مہینے پر ختم،
اور اس سے بھی زیادہ قابل حیرت بات یہ ہے کہ اسلامی مہینوں کے ناموں کی زبان سے ادائیگی اور تلفظ بھی نہیں ہوتا
اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ کونسا اسلامی مہینہ چل رہا ہے تاریخ کا معلوم ہونا تو دور کی بات،
اور اسکے برعکس جب عیسوی سال و ماہ کا
معاملہ آتا ہے تو بچے بوڑھے سب ہی اس سے آشنا ہوتے ہیں
اور ان کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے ماہ و سال و تاریخوں کو اپنے مذہب کا حصہ سمجھ رکھا ہے،
جبکہ یہ بات واضح کے عید و تہوار اسلامک حکام کا تعلق اسلامی مہینوں اور تاریخ کے ساتھ ہی وابستہ ہے
عیسوی ماہ و سال کے ساتھ اسلام کا کوئی حکم وابستہ نہیں
لہٰذا مسلمانوں کی مذکورہ حالت انتہائی افسوسناک طرز عمل ہے
ٍغیر مسلموں کے جو مذہبی تہوار یا قومی تہوار آج کل دنیا میں رائج ہیں ان میں سے ایک ہیپی نیوایئر نائٹ یا نیو ایئر نائٹ ہے
جس میں بعض علاقوں میں عام تعطیل ہوتی ہے لوگ مبارکباد دیتے ہیں کارڈ وغیرہ بھیجتے ہیں اسکے علاوہ کئی حیا سوز حرکات ہوتی ہیں۔
ہم تاریخی اعتبار سے غور کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ زمانے میں نئے سال کا استقبال مختلف تاریخوں میں ہوتا رہا ہے
انیسویں صدی کے شروع کی بات ہے کہ برطانیہ کی رائل نیوی کے جوانوں کا زیادہ تر حصی تھکادینے والے بحری سفروں میں گزرتا تھا تو وہ لوگ مستی کرنے تفریح پیدا کرنے کے لئے اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرتے رہتے تھے۔
لیکن یہ مختصر تقریبات پورے سال پر تقسیم نہ ہوتیں اس لئے یہ لوگ مختلف تقریبوں کے بہانے تلاش کرتے رہتے تھے
کبھی ایک دوسرے کی سالگرہ مناتے کبھی اپنے کتے بلیوں کی سالگرہ مناتے کبھی اپنے گھروں کی سالگرہ کرتے کبھی ویک اینڈ مناتے کبھی ایسٹر اور کرسمس کا اہتمام کرتے
انہی تقریبات کے دوران شیطان نے ایک نیا تصور انکے زہن میں ڈالا کہ نئے سال کی آمد پر بھی خوب تفریح ہونی چاہئے
لہٰذا 31 دسمبر کی رات کو جہاز کا سارا عملہ ایک جگہ اکٹھا ہوا
رات کو خوب شراب نوشی کی گھناؤنا کھیل کھیلا خوب ناچ گانا کیا اور رات بارہ بج کر ایک منٹ پر ایک دوسرے کو شراب “ام الخبائث” اور نئے سال کی مبارکباد دی
یہ نیو ایئر نائٹ کا آغاز تھا
اگلے سال ستمبر اکتوبر میں نیو ایئر نائٹ کا انتظار ہونا شروع ہوگیا
دسمبر آیا تو جونیئر افسروں نے اپنے سینئر افسروں سے فرمائش کی کہ ایک لمبے زمانے سے ہم اپنے گھروں سے دور ہیں اس لئے سمندر کی اکتاہٹ ہمیں خود کشی پر ابھار رہی ہے
ہم نیو ایئر نائٹ منانا چاہ رہے ہیں اور ہمیں رقص کے لئے فاحشہ خواتین درکار ہیں
افسر اپنے ماتحتوں کی ضرورت سے واقف تھے اور ان کے ناپاک زہنوں میں یہ گھناؤنی حیا سوز حرکت کوئی بری چیز نہ تھی
چنانچہ انہوں نے اسکی اجازت دے دی
پھر رفتہ رفتہ اس میں بتیاں گل کرنے کا دور شروع ہوا
جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک سپاہی نے جہاز کے بجلی و روشنی کے نگران کو چند پیسوں کا لالچ دے کر کہا کہ جونہی رات کے بارہ بجیں تم چند سیکنڈ کے لئے بتیاں گل کردینا نگران نے اسکی بات پر عمل کیا جونہی 12 روشنیاں بجھ گئیں موقع پر موجود تمام لوگوں کی چیخیں نکل گئیں
پھر اچانک روشنیاں جلیں اور روشنیاں گل کرنے والے آفیسر نے تمام لوگوں کو ہیپی نیو ایئر کہا
برٹش رائل نیوی کے جہازوں سے یہ نیو ایئر نائٹ دوسرے جہازوں تک پہنچی اور پھر وہاں سے ساحل پر (ایناڈین) شہر تھا اس ساحل پر 1910 میں پہلی نیو ایئر نائٹ منائی گئی
اور اس میں سینکڑوں فاحشہ عورتیں موجود تھیں اور یہ نیو ایئر نائٹ زیادہ کھلی ڈھلی اور بے حجاب تھی اسکے بعد برٹش نیوی میں یہ رواج ہوگیا نیوی کے جہاز نیو ایئر نائٹ پر کسی قریب ترین ساحل پر رکتے نیو ایئر نائٹ مناتے اور سفر پر روانہ ہوجاتے۔
میں اپنے نو جوان دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ رات 11:59 سے 12:00 کے درمیان صرف ایک منٹ کا فاصلہ ہے، اس ایک ساعت میں دنیا میں کون سی ایسی عجیب تبدیلی واقع ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور عجیب و غریب غیر سنجیدہ حرکتوں پر اتر آتے ہیں؟ کیا ہماری مذہبی تعلیمات، پاکیزہ
روایات اور صاف ستھر اتمدن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم نئے سال کا اس انداز میں استقبال کریں؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا ، یہ طرز عمل ہماری تعلیمات اور روایات سے ذرہ برابر میل نہیں کھاتا ، ہماری دینی تعلیمات اسلاف کی زندگیاں تو یہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی کام کے آغاز میں اپنے خالق حقیقی کو یاد کرنا چاہیے، بحیثیت انسان اپنے معاشرتی ، اخلاقی اور دینی فرائض کی تن دہی اور دیانت داری سے ادائیگی کا مخلصانہ عزم کرنا چاہیے، سال نو کی ابتداء میں مالک حقیقی کے سامنے سر بسجود ہو کر ماضی کے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور اللہ کی جانب سے دی گئی مہلت کو کام میں لاتے ہوئے اعمال صالحہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔
