148

مسنون قرات | تحریر : فخرالاسلام عباسی مدرس ادارہ علوم اسلامی سترہ میل اسلام آباد

کچھ ماہ قبل نماز عشاء میں سورہ ال عمران کےایک حصہ کی تلاوت کی ، ایک انتہائ قابل احترام بزرگ عالم دین نے میری اقتدا میں نماز پڑھی ، نماز کے بعد انہوں نے ناچیز کی اس طرف توجہ دلائ کہ نمازوں میں مسنون قرات یعنی قراتِ قرآن کےمسنون حصہ کی تلاوت کا اہتمام کیا جائے جو احادیث میں منقول ہے ، اس نصیحت پہ ان سے سوال جواب یا تکرار مجھے ان کے مسلّم احترام کی وجہ سے مانع رہا مگر دل میں یہ بات اس احساس کے درجہ میں پیدا ہوئ کہ کیا قراتِ نماز میں قرآن کے منقول مسنون حصہ کی تلاوت فرض ہے یا واجب ؟

اس خیال کا سبب یہ تھا کہ محترم بزرگ نے جس انداز سے بندہ کو متوجہ فرمایا اس سے یہ وہم ہونے لگا کہ کہیں میں قرات نمازمیں کسی فرض یاواجب کاتارک تو نہیں بن گیا ، اہل علم سے معذرت کے ساتھ دیگر قارئین کےلئے یہ بات ذہن میں رہے کہ جَہری نمازوں میں مُقیم امام کےلئے مسنون قرات قِصار مُفصّل ، اوساطِ مُفصّل ، طِوال مُفصّل میں سے ہے ، قصار مفصل مغرب جب کہ اوساط مفصل عصر اور عشاء طوال مفصل فجر و ظہر کی نمازوں کی پہلی دورکعتوں میں امام کےلئے مسنون ہے ، طوال مفصل کی مقدار “سورہ حجرات” تا “سورہ بروج” ہے جب کہ اوساط مفصل “سورہ طارق تا سورہ لم یکن ” اور”قصار مفصل” کی تحدید “سورہ زلزال” سے “سورہ ناس” تک ہے ،قراآن مجید کے تیس پاروں میں اس مسنون قرات کا کل حصہ تقریباآخری پانچ پاروں پہ مشتمل ہے جو “سورہ حجرات تا سورہ ناس” بنتا ہے ،

سوال یہ ہے کہ کیا اس ہی حصہ قرآن کی تلاوت نماز میں کی جائیگی یا باقی پچیس پاروں سے بھی تلاوت کی گنجائش ہے ؟ اور اگر کوئ اس اہتمام کو کبھی ترک کردے تو کیا ایسا امام مورد الزام ہو گا ؟ میرے طالبعلمانہ خیال کے مطابق سنت کو مرتبہ سنت ہی کے درجہ میں اگر رکھا جائے تو بات اعتدال کے موافق ہو گی، اگر کسی وقت قرات میں امام کا اس منقول تحدید کے خلاف عمل ہوجائےتو وہ مورد الزام نہیں ہونا چاہیے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ سے مختلف اوقات میں مختلف سورتیں بھی پڑھنے کا معمول رہا ہے، بلکہ احادیث میں بعض دیگر سورتوں کی تو فضیلت بھی وارد ہوئ ہے ،

مثال کے طور پر حدیث میں وارد ہے کہ آپ ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز کی پہلی رکعت میں سورہ “حم سجدہ ” اور “سورہ دھر” پڑھتے تھے، (بخاری، مسلم) ، مشکوة شریف کی روایت میں حضرت ابوھریرہؓ اور مسلم شریف کی روایت میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے بھی اس ترتیب کے خلاف پڑھنا ثابت ہے ، خلاصہ یہ کہ سنت کی رعائیت تو اسی میں کہ مسنون قرات کا اہتمام کیا جائے مگر اس اہتمام قرات کولازم سمجھنا شاید قرآن کے بقیہ حصہ سے اعراض نہ بن جائے ، مجھے اس پہ ذرہ برابر بھی قلق نہیں ہو گا کہ ارباب علم ودانش اگر میری رائے سے عدم اتفاق کرکے میری اصلاح فرما دیں، کیونکہ علم کے اس جہاں میں تشنگی عام ہے جو قابل ملامت نہیں بلکہ محمود ہے، فقط واللہ اعلم

قرآن مجید پڑھنے کے آداب/از قلم/لاریب مہر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں