185

رمضان اور حیا کے تقاضے/تحریر/ربیعہ فاطمہ بخاری

رمضان شریف شروع ہوتے ہی ہر جانب ایک ہی راگ الاپا جانے لگتا ہے کہ بچیوں کو ماہواری کے دنوں میں سحری میں نہ جگائیں، یا باپ بھائی سے مت چھپائیں، یہ کوئی باعثِ شرم بات نہیں۔ ایک ڈاکٹر صاحبہ نے تو ایسی منظر کشی کی کہ جیسے ہر گھر میں باپ اور بھائی ڈانگیں اور سوٹیاں لے کے بیٹیوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ کیوں نماز نہیں پڑھ رہی یا سحری کے لئے کیوں نہیں اٹھ رہی۔ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو مسائل exist ہی نہیں کرتے، انہیں مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟؟ رمضان شریف میں سحری اور افطاری کی رونق اور سرور کی وجہ سے چار، چار، پانچ پانچ سال کے بچّے اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں سحری میں ضرور جگایا جائے، نوجوان بچیاں تو ویسے ہی ماں کی مدد کی غرض سے اٹھ جاتی ہیں۔ ایک ماہ ہوتا ہے، گنے ہوئے دن، ان دنوں میں تو جوش و جذبہ ہی الگ ہوتا ہے۔ میری سات سال کی بیٹی نے بصد شوق سحری کھائی ہے اور روزے کا بھی ارادہ کر رہی ہے، اگرچہ ہمارا ارادہ نہیں کہ اسے روزہ رکھوایا جائے۔ رہ گئی بات نماز کی تو میں نے آج تک کبھی کسی لڑکی یا عورت کو نماز کی ایکٹنگ کرتے نہیں دیکھا۔ مبالغہ آمیزی کی لسّی میں جتنا بھی پانی ڈالتے جائیں، اور مدھانی چلاتے جائیں، وہ لسّی ہی رہتی ہے۔ اور عورت کی شرم و حیا بھی کوئی phenomenon ہے۔ حضرت عثمانِ غنیؓ کے خصائل بیان کرتے ہوئے یہ جملہ بھی لکھّا جاتا ہے کہ وہ کنواری لڑکیوں جیسی شرم و حیا والے تھے۔ خدارا جدیدیّت کے نام پہ اپنی بچیوں سے شرم و حیاء مت چھینیئے۔ نام۔نہاد لبرلز اور فیمینسٹس کا تو یہی ایجنڈا ہے، ان کی زد پہ سب سے پہلے خاندانی نظام اور اس کے بعد نسلِ نو کی شرم و حیا ہے۔ لیکن میری دین کے نام لیواوءں سے دست بستہ عرض ہے کہ آپ نیک نیّتی سے ہی سہی لیکن ان کے اس ایجنڈا کا حصّہ مت بنئیے۔ شرم و حیا ایمان کا اہم ترین جزو ہے، جسے سوشل میڈیا ویسے ہی ہماری نئی نسل سے چھین چکا ہے۔ کوئی رمق اگر بچی رہ گئی ہے تو اسے باقی رہنے دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں