قرآن اور رمضان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اس کے استقبال کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ حفاظ کرام نماز تراویح میں قرآن پاک سنانے کے لیے مساجد کی تلاش شروع کر دیتے ہیں تو مساجد کے منتظمین حفاظ کرام کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔
رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی مساجد قرآن پاک کے نغموں سے گنگناتے لگتی ہیں۔ جب کہ گھروں میں موجود قرآن مجید کے نسخوں پر سے گرد و غبار جھاڑ کر ان کی تلاوت کا آغاز بھی کر دیا جاتا ہے۔ وہ کس قدر خوبصورت دور تھا جب مسلمان معاشرے کے مرد و زن سارا سال ہی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد تلاوت قرآن مجید سے دل بہلایا کرتے تھے۔ مگر آہ کہ اب اس کی جگہ موبائل فون اور دیگر مشاغل نے لے لی 💔۔
واپس اپنے موضوع کی طرف پلٹتے ہوئے یہ عرض ہے کہ قرآن کی تلاوت نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ ہر دو صورتوں میں ترتیل سے پڑھنے کا حکم ہے۔ ایک قاری کا خوش الحان ہونے سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ تجوید کے بنیادی قواعد سے بخوبی آگاہ ہو اور قرآن کی تلاوت اس انداز میں کرے کہ کم از کم آیات کے معانی و مفہوم میں کوئی سنگین غلطی نہ ہو اور سننے والے کو الفاظ کی حد تک ہی سہی سمجھنے میں کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔
معلوم نہیں قرآن مجید کو تراویح میں تیز پڑھنے اور تراویح جلدی پڑھ کر مسجد سے فوراً بھاگنے کی بدعت کہاں سے آئی کہ اس نے ہم سب کو تراویح میں قرآن مجید کو سننے کی “لذت” سے محروم کر رکھا ہے۔ اللّٰہ تعالٰی غریق رحمت فرمائے جامعہ مسجد فاروقیہ صادق آباد راولپنڈی کے سابق مہتم مولانا محمد قاسم رحمہ اللّٰہ کو جو اپنی زندگی میں تراویح کی امامت کے لیے ہمیشہ ہی ایک ایسے حافظ صاحب کا انتظام کرتے تھے جسے پڑھنے کا خوب ڈھنگ آتا تھا اور سننے والوں کی شنوائی بھی اسے سن کر فخر محسوس کرتی تھی۔ الحمد للّٰہ پاکستان ائر فورس کی 25 سالہ سروس کے دوران بھی ایسے حفاظ کرام کے پیچھے تراویح پڑھنے کی سعادت رہی جو کم از کم درجے میں قرآن پڑھنے کے آداب سے پوری طرح واقف ہوتے تھے۔
یہ جو تراویح میں آندھی و طوفان کی اسپیڈ سے قرآن مجید پڑھنا، لفظوں کو صحیح طرح سے ادا کیے بغیر ہی رکوع کی طرف دوڑنا اور رکوع و سجود کی ادائیگی کے دوران قومہ اور جلسہ کا لحاظ رکھے بغیر تراویح کو تھوڑے وقت میں جلدی ادا کرنے کا رجحان بنا ہوا ہے اس میں بدقسمتی سے حفاظ کرام اور ان کے مقتدی برابر کے شریک ہیں۔ معلوم نہیں اس سب کا اللّٰہ تعالٰی کے ہاں کیا مقام ہوگا مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی زبان حال سے اپنی آنے والی نسلوں کو نماز میں بالعموم اور تراویح میں بالخصوص محض “اسپیڈ” کا تحفہ دے کر ان کو خضوع و خشوع کی دولت سے بہت حد تک بے بہرہ کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس سے زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس بات سے بالکل ہی بے بہرہ ہیں کہ ہم یہ سب کیا کر رہے ہیں ؟؟؟؟
