55

روحانی سکالرحکیم سیدمزمل حسین نقشبندی کا خصوصی انٹرویو/انٹرویونگار/حفیظ چودھری/قسط نمبر3

آج کے اس پرفتن دور میں ہزاروں شعبدہ باز عامل اپنی مکروہ حرکتوں سے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور روحانی علاج کے نام پر لاکھوں روپے فیس وصول کررہے ہیں ۔سادہ لوح عوام اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے اپنی جمع پونجی ان شعبدہ باز عاملین کے ہاتھوں لٹانے پر مجبور ہیں ۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو دولت کی ہوس سے بے نیاز ہوکر روحانی امراض کا علاج کر رہے ہیں ۔ان گنے چنے افرادمیں معروف روحانی سکالر،شیخ العاملین،حکیم سید مزمل حسین نقشبندی صاحب بھی ہیں جو لاہور کے علاقہ دھرم پورہ میں ’’خانقاہ ربانیہ‘‘ کے مسند نشین ہیں۔آپ کی تالیف کردہ کتاب’’اسلامی وظائف کا انسائیکلوپیڈیا‘‘سے دنیابھرکے علماء ،طلباء سمیت خواتین وحضرات کی ایک بڑی تعداد اسفتادہ کررہی ہے ۔ روحانی امراض کے علاج اور شعبدہ بازعاملین کے حوالے سے’’ لکھوڈاٹ اوآرجی‘‘ویب سائٹ نے ان سے تفصیلی انٹر ویوکیا ہے ،قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

سوال :۔ کیا کوئی شیخ اپنی مرضی سے کرامت ظاہر کرسکتاہے ؟

جواب :۔ سیدمزمل حسین !اولیاء اللہ کے ہاتھوں کرامات کا ظہور اللہ تعالیٰ کے مبارک حکم سے ہوتاہے جس کا مقصود یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندے کے ہاتھوں خلاف عادت کام ظاہر کراکر اس کی عزت بڑھانا چاہتاہے اور یہ کرامت ولی کیلئے اللہ کی نعمت ہوتی ہے ۔
ولایت کیلئے کرامت کا ظہور یا وجود ضروری نہیں ،چنانچہ بعض صحابہ کرام ؓ سے عمربھر ایک بھی کرامت ظاہر نہیں ہوئی حالانکہ حضرات صحابہ کرام ؓ سب کے سب اولیا ء اللہ تھے بلکہ تمام صحابہ ؓ اولیاء سے بھی افضل تھے کیوں کہ فضیلت کا مدار قرب الہٰی اور اخلاص عبادت پر ہے ۔بعض اولیاء نے مرنے کے وقت تمنا کی تھی کہ کاش!ہم سے کرامتیں ظاہر نہ ہوتیں تاکہ اس کا اجر بھی ہمیں آخرت میں ملتا ۔
کرامت دواقسام پر مشتمل ہے (1)حسی (2)معنوی
عام لوگ حسی کو کرامت سمجھتے ہیں اورجانتے ہیں ۔مثلاًدل کا مطلع ہوجانا، پانی پر چلنا ،ہوامیں اڑنا ،ایک ہی وقت میں دوجگہ یا چند جگہ نظر آنا ، زمین میں دھنس کر اندر ہی اندر تیر کر اورپر آجانا ،معمولی وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جانا ، بے موسم پھل لادینا وغیرہ ۔یہ چیزیں تو ریاضت سے جوگی وغیرہ اور غیر مسلموں سے بھی صادر ہوتی ہیں اور فاسق وفاجر مسلمانوں سے بھی ۔
بسب ِ ریاضت یا بسب بشمول امور طبیعت ،ہمزاد عملیات،نقوش ،طلسمات ، شعبدات ، ادویات کی تاثیرات عجیبہ سحر،نظربندی وغیرہ سے ظاہر ہوتے ہیں بعض تو ان میں محض خیالی چیزیں ہیں اور بعض واقعی ہی ہیں جو اسباب طبیعت سے متعلق ہیں جبکہ کرامات ان سب فضولیات سے پاک چیز ہیں ۔

سوال :۔ کیا کرامت کے ذریعہ ہی ولی کو پہچانا جا سکتاہے ؟

جواب:۔سیدمزمل حسین !طالب حق کو بہ نظر انصاف علامات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان امور میں قوأی طبیعت کو دخل ہے یا محض قوت قدسیہ یاکسی قوت کو بھی دخل نہیں بلکہ محض غیب سے ظہور ہواہے ۔اس لئے ولی کو پہچاننا، کرامت حسی کو معیا ربنا نا انتہائی خطرناک ہے ۔اس لئے جو لوگ محض حسی کرامت کو ولایت کی نشانی گمان کرتے ہیں وہ دجال کے دجل وفریب جال میں پھنس کر معتقد ہوجائیں گے ۔امام الاولیاء حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ولایت کا معیا ر کرامت معنوی ہے چاہے اس کے ساتھ کرامت حسی کا ظہور ہو یانہ ہو۔

سوال:۔آپ نے کرامات میں ذکرکیا کہ اس میں کسی جگہ سے اچانک غائب ہوجانا بھی شامل ہے اور تھوڑے وقت میں زیادہ فاصلہ طے کرنا ۔ کیا ہمارے اکابر میں اس کی کوئی مثال موجود ہے ؟۔

جواب:۔سید مزمل حسین !جی بالکل ہمارے اسلاف اکابر علماء دیوبند کی تاریخ ان کی کرامات سے بھری پڑی ہے ۔میں آ پ کو صرف حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کے ایک دوواقعات سناتا ہوں کہ 1857؁ء کی جنگ آزادی میں مجاہدین کی گرفتاریاں ہورہی تھیں ۔حضرت حاجی صاحب اپنے ایک دوست رائو عبد اللہ صاحب رئیس پنجاپ کے اصطبل میں مقیم تھے ۔یہ اطلاع سرکاری اہلکاروں تک پہنچ گئی ۔لہٰذا کلکٹر خود عملے کے ہمراہ آیا اور گھوڑے دیکھنے کے بہانے اندر آگیا ۔
معتقدین سخت گھبرائے ،انگریز افسرجب اندر داخل ہواتو حضرت حاجی صاحب کا بستر لگاہوا تھا ،مصلیٰ بھی بچھا ہوا تھا،وضوکا لوٹا بھی موجود تھا اور اس کے پانی سے زین بھی ترتھی ۔یہ سب کچھ تھا مگر حضرت حاجی صاحب ؒ وہاں موجود نہیں تھے ۔اسی طرح ایک اور واقعہ ہے کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب روایت کرتے ہیں کہ مولانااحمد حسن صاحب فرماتے ہیں کہ میں حضرت حاجی صاحب کے ساتھ حج پر تھا اور ان سے خاصا بے تکلف بھی تھا ،ایک دن پوچھا کہ حضرت بزرگوں سے سنا ہے کہ مکہ معظمہ سے ایک ایسا راستہ ہے کہ اگر انسان ظہر کی نماز پڑھ کر چلے تو مدینہ منورہ میں عصر کی نماز پڑھ کر واپس مغرب کی نماز مکہ معظمہ میں آکر پڑھ سکتا ہے تو حضرت نے فرمایا کہ بھائی مجھے تو معلوم نہیں اورمیں چونکہ بے تکلف تھا تو یہ کہہ کر واپس چلا آیا کہ اگر یہ معلوم نہیں تو پھر مکہ معظمہ میں رہنے کی کیا ضرورت ہے ۔چند روز بعد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ نے مجھے فرمایا کہ آئو ذرا سیر کریں ،میراہاتھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر باہر چلے اور ایک پہاڑ پر چڑھے تو اترتے ہی مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔وہاں نماز پڑھ کر اگلی نماز واپس مکہ معظمہ میں آکر پڑھی ۔میں نے اپنے جی میں سوچاکہ اب تو راستہ معلوم ہوہی گیا ہے ،ہمیشہ جایا کریں گے ۔حضرت حاجی صاحب کی کیا ضرورت ہے ؟۔ جب اپنے خام خیال سے اس راستے پر جانا چاہا تو اس پہاڑ پر چڑھا ہی نہ جا سکا ۔

سوال:۔بعض لوگ بزرگوں کے قریب دفن ہونے کی خواہش کرتے ہیں اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے ۔حالانکہ ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ؟۔

جواب:۔سید مزمل حسین !حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ سے کسی نے یہ سوال کیا تھا تو حضرت نے جواب میں فرمایا کہ اگر کسی جگہ مجمع میں پنکھا چل رہا ہو تو اس کی ہوا کیا صرف ایک بندے کو ملے گی یاساتھ والے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے ؟۔اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے محبوب بندے کیلئے رحمت ومغفرت کی ہوائیں چلتی ہیں تو اس دوران مقصودتو وہی بزرگ ہی ہوتے ہیں مگرقرب والوں کو بھی ہوا پہنچتی ہے ۔

سوال:۔عام طور پر ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگرہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے تو پھرسزااورجزاکا کیا معنیٰ ؟۔

جواب :۔ سید مزمل حسین !ایک حدیث مبارکہ میں نبی آخرالزماں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں دعوت وتبلیغ لے کر آیا ہوں ،کسی کی ہدایت میرے اختیار میں نہیں اور ابلیس بھی برائی کو مزین کرنے اور فریب دینے کیلئے پیدا ہوا ہے ۔کسی کوذلالت اور گمراہی میں ڈال دینا اس کے بس میں نہیں۔ یعنی وسوسہ ڈال کر معصیت کو مزین کرکے دکھاتا ہے اس سے زیادہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ،لہٰذا بندہ کو لازم ہے کہ وسواس کو اپنے دل ودماغ سے رفع کرنے کی پوری کوشش کرے اور دشمن (شیطان)کی مخاصمت میں پوری ہمت دکھائے ۔ قرآن کریم میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ’’ان الشیٰطن لکم عدو فاتخذوہ عدوا‘‘اورعقلمند کو لائق ہے کہ دوست کی پہچان کرے ، دوست کا کہا مانے اور دشمن کے پیچھے نہ لگے ۔لہٰذا یہ انسان کے اختیار میںہے کہ وہ گمراہی کا اراستہ اختیار کرتا ہے یا ہدایت کا ۔بس اللہ پاک سے ہر وقت رحم اور معافی کا خواستگار ہونا چاہیے۔

سوال:۔ حضرت خانقاہی نظام میں شیطان سے بچنے کیلئے ذکر اذکار کروایا جاتا ہے ؟یہ بتائیں کہ شیطان کتنے راستوں سے انسان تک پہنچتا ہے؟۔

جواب :۔سید مزمل حسین !جہاں تک شیطان کے انسان تک پہنچنے سے متعلق راستوں کا علماء کرام سے سنا ہے کہ شیطان دس راستوں سے انسان تک پہنچتا ہے ۔
(1)اول یہ کہ وہ حرص اوربدظنی کی راہ سے آتا ہے تو اس کا مقابلہ اللہ پر توکل اور قناعت سے کیا جاسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ ’’ومامن دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا‘‘اورکوئی جاندار روئے زمین پر چلنے والا ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو ۔جب رزق کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے تو حرص سے بچنا بہت ضروری ہے ۔
(2)دوسراراستہ یہ کہ وہ قیامت اور لمبی امیدوں کے راستے سے آتا ہے ۔ اگر انسان کو اچانک موت آجانے کا خوف ہوتو اس راستے کو بھی محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔
قرآن کریم میںارشاد باری تعالیٰ ’’وماتدری نفس بای ارض تموت‘‘اورکوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ زمین کے کسی حصے میں مرے گا ۔ موت کے اٹل وقت پر کامل ایمان سے شیطان کواس راستے سے داخل ہونے سے بھی شکست دی جاسکتی ۔
(3) تیسرایہ کہ وہ آرام طلبی اورتنعم پسندی کی راہ سے آتا ہے ۔جس کا مقابلہ زوال نعمت اور سخت ترین حساب کے تصور سے کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول ’’ذرہم یاکلو اویتمتعوا‘‘انہیں چھوڑیے !ذرکھا پی لیں اور مزے اڑالیں ، اس سے اس کی تائید حاصل کی جائے اور اس آیت سے’’افراء یت ان متعنٰہم سنین‘‘جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر ہم برسہا برس تک بھی انہیں نازو نعمت کے ساتھ ڈھیل دیے رکھیں تو انہیں کچھ بھی فائدہ نہ ہوگا ۔ اس راستہ پر بھی اسے شکست دی جاسکتی ہے ۔
(4)چوتھا یہ کہ وہ عجب اور خود پسندی کی راہ سے حملہ کرتا ہے جس کا مقابلہ اللہ پاک کے احسان وتوفیق سے انجام بد کے خوف سے کیا جاسکتا ہے ۔
(5)پانچواں یہ کہ وہ ساتھیوں سے بے اعتنائی اورکم حرفی کے ذریعہ حملہ کرتا ہے۔ اس کا مقابلہ ان کے احترام وتعظیم اور حق ادائیگی سے کیا جاسکتا ہے ۔
(6)چھٹا یہ کہ وہ حسد کے دروازے سے آتا ہے ۔اس کا اللہ تعالیٰ کی تقسیم اور عدل پر کامل یقین رکھنے سے کیا جاسکتا ہے ۔
(7)ساتواں یہ کہ وہ لوگوں کی خوش آمد اور ریائی سے آتا ہے ۔اس کا مقابلہ اخلاص کے سات کیا جا سکتا ہے ۔
(8)آٹھواں یہ کہ وہ بخل کی راہ سے آتا ہے ۔ اس کا مقابلہ مخلوق کے تمام مال ومتاع کی فنا اور اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی بقائے تصور سے کیا جا سکتا ہے ۔(9)نواں یہ کہ وہ تکبر کی راہ سے حملہ کرتا ہے جس کا مقابلہ تواضع سے کیا جاسکتا ہے ۔(10)دسواں دروازہ طمع کا ہے ،جہاں سے وہ حملہ آور ہوتاہے ۔اس کا مقابلہ لوگوں کے ہاں سے مایوسی اور اللہ تعالیٰ کے خزانوں پر اعتماد سے کیا جاسکتا ہے ۔

(جاری ہے)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں