41

کہانی/ہم بدل چکے ہیں/تحریر/ام حسام

رامو اور شمیمہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے رمو دن بھر کا تھکا ہارا جب گھر آتا تو شمیمہ کو اپنا منتظر پاتا۔
ہنستی مسکراتی شمیمہ کی مسکراہٹ سے رامو کی دن بھر کی تھکن اتر جاتی تھی ۔
یہ بھلے وقتوں کا زمانہ تھا جب میاں بیوی کے لے ایک دوسرے کا دم ہی بھت تھا ۔۔۔۔
شمیمہ منہ اندھیرے اٹھتی ۔نماز پڑھتی ۔اللہ کی حمدوثنا کے بعد رامو کو جگاتی ۔رامو صبح سویرے مچھلیاں پکڑنے جاتا تھا اور انھیں اچھے دامو بازار میں فروخت کرتا تھا اسطرح انکا اچھا گزر بسر ہو جاتا تھا ۔
آج کی صبح بھت حبس ذدہ تھی۔حسب معمول شمیمہ صبح سویرے اٹھی ۔معمول کی عبادت کے بعد اسنے رامو کو اٹھایا ۔ناشتہ کے بعد جب رامو کام پر جانے لگا تو بولا موسم بدل رہا ایسا کرتے ہیں آج شہر چلتے ہیں کاکے اور اپنے لے کچھ کپڑے خریدلیں گے ۔ٹھیک ہے ؟؟
شمیمہ نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور رامو کو رخصت کیا۔
اس دن ناگزیر وجوہات کی بنا پر رامو اور شمیمہ شہر نہ جاسکے ۔اسکے باوجود بھی شمیمہ راجو سے خوش اور مطمئن تھی ۔انھیں عادات کی بناء پر راجو شمیمہ کا دم بھرتا نظر آتا تھا ۔دونوں ہی ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے سانجھی تھے۔
حسب معمول اگلے دن شمیمہ صبح سویرے اٹھی پرات میں آٹا ڈالا اور جلدی جلدی مکیاں لگانے لگی۔کیونکہ رامو کو سورج نکلنے سے پہلے سمندر پر پہنچنا ہوتا تھا ۔اسکو اس بات پر ایمان تھا کہ اللہ روزی صبح ہی دیتا ہے۔
ادھر شمیمہ رامو کے گھر سے نکلتے ہی دوپہر کے کھانے کابندوبست کرتی گھر کی صفائی کرتی اور پھر ظہر کی اذان سے پہلے ہی جاء نماز بچھا کر اللہ سے رازونیاز میں مشغول ہو جاتی ۔پھر دوپہر کا کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرتی۔پھر شام ہوتے ہی آس پاس کی کچھ خواتین آ جاتی کسی کو کڑھائی سیکھنی ہوتی تو کسی کو پیٹ درد کا ٹوٹکا پوچھنا ہوتا اور نہیں تو کوئی نا کوئی قرآن پاک کی تعلیم ہی لینے آجاتا اسطرح مصروف رہتے رہتے شام ہو جاتی اس دوران ننھا کاکا بھی اپنی ماں کا دم چھلا بنا پھرتا تھا ۔
عصر کی نماز پڑھکر وہ ایک بار اور گھر کا چپہ چپہ صاف کرتی اور پھر سے باورچی خانے کو آباد کرتی کیو نکہ اب اسکا ہمدرد وغمگسار شوہر جو آنے والا تھا
نجانے کتنے سالوں سے یہ طوطا مینا کا جوڑا دکھ سکھ نبھاتا ایک دوسرے کا دم بھرتا جی رہا تھا کہ اچانک انکے درمیان جدائی کا موڑ آگیا۔
شمیمہ اپنے کم سن بچے افضل کے ساتھ اس دنیا میں تنہا رہ گئی۔
ایک شام جب رامو وقت پر گھر نہ آیا تو شمیمہ گھر کے صحن میں بولائی بولائی پھر رہی تھی کہ اچانک کرم دین آیا اور بولا باجی رامو کی کشتی بیچ سمندر میں ڈوب گی ہے ۔
حادثہ کی وجہ نامعلوم تھی ۔
بھری دنیا میں شمیمہ اکیلی رہ گئی ۔پاس پڑوس کے لوگ آکر دلاسے تسلیاں دیتے مگر یہ زخم جدائ بھر نہیں پایا تو اس نے اس جگہ کو چھوڑ کر شہر جانے کا فیصلہ کیا اور اتنے بڑے گھر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ بیچ ڈالا باقی ایک حصے پر تالا ڈالا کہ کبھی دل ہوا تو یہاں آجایا کرے گی آخر اپنی آبائی مٹی کو انسان بھول نہیں سکتا
وقت کاپہیہ گھمتا رہا گھمتا رہا اور اب افضل اٹھائس سال کا بھر پور جوان ہے شمیمہ نے شہر میں سلائی کڑھائ اور قران پاک کا ادارہ قائم کرکے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالا اور اسکی بھت اچھی پرورش کی ۔
اب شمیمہ بوڑھی ہو چکی ہے اسکی آنکھوں میں اب وہ آب وتاب نہیں رہی جیساکہ وہ پہلے کڑھائ کا ایک ایک ٹانکا غور سے دیکھ کر بتاتی تھی کہ صیح ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔شاید اسی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کے لے وہ گوہر نایاب نہ ڈھونڈ کر لا سکی جو اصل میں اسکی زندگی کا حاصل تھا ۔
بوڑھی شمیمہ ایک کمرے میں پڑی رہتی اور باہر افضل اور اسکی بیوی کے بولنے کی اوازیں آتیں مگر انکی باتوں میں کہیں شمیمہ کا زکر نا ہوتا۔
سلمی دیکھو میں تمھارے لے کیا لایا ہوں ….؟
افضل کی چہکتی ہوئی آواز سن کر سلمی کمرے سے باہر آئی ۔۔
افضل کے ہاتھ میں موبائل کا نیا ڈبہ دیکھ کر وہ کھل سی گئی ۔
“یہ آپ میرے لے لاے ہیں”؟ اس نی موبائل کے ڈبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ افضل نے آگے بڑھ کر موبائل کا ڈبہ اسکے ہاتھ میں دیا تو اسنے ڈبے کو چاروں طرف سے گھما کر دیکھا اور فرط مسرت سے بولی
“افضل آپ کتنے اچھے ہیں”
افضل نے کہا “ارے اللہ کی بندی اسے کھولکر تو دیکھو ۔
نیا ٹچ موبائل پاتے ہی سلمی خوشی سے پاگل ہی ہو گئی تھی۔اب اسکی بوریت کے دن ختم ہوگے تھے ۔وہ جو روز صبح گیارہ بجے اٹھتی ناشتہ کرتی دل ہوتا تو پکالیتی نہیں تو کچن صاف کرکے گھر میں بولائی بولائی پھرتی کیونکہ افضل نے صفائ والی اور کپڑے دھونے والی لگا رکھی تھی یہ صفائ والی ہی اسکی بوڑھی ماں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی
کیونکہ سلمی کے پاس اتنا وقت ہی کہاں تھا کہ وہ افضل کی بوڑھی ماں کے پاس بیٹھ کر چند لمحے گزارتی ۔
دوپہر میں زبردستی شمیمہ کو چائے کے ساتھ ڈبل روٹی دیتی کہ یہ دینی ضروری تھی ۔شمیمہ لاکھ کہتی کہ مجھ سے روز روز یہ چائے ڈبل روٹی نہیں کھائ جاتی مگر سلمی کی ایک ہی رٹ ہوتی کہ مجھ سے اتنی گرمی روز روز دو طرح کے کھانے نھیں پکاےئے جاتے (حالانکہ کچن امیرکن اسٹائل کا بنا ہوا تھا )
اور یوں شمیمہ یادوں میں کھو جاتی کہ جب وہ منہ اندھیرے اٹھکر لکڑیاں جلاتی ان لکڑیوں کے اٹھنے والے دھوئیں سے اسکی آنکھوں میں آنسوں آجاتے اور کھانسی کا پھندہ لگتا تو رامو کتنی محبت سے اسکے ہاتھ سے پائپ لیکر خود آگ دہکاتا تھا اور جب آگ دہک جاتی تو کہتا “لے جھلی”چل جلدی سے مجھے ناشتہ دے فیر مجھے دیر ہو جاے گی۔
لوناں اماں اب یہ گولی کھالو ۔۔۔
سلمی کی جھلائی ہوئی آواز اسے ماضی سے مستقبل میں لے آئی ۔
جہاں سلمی ایک ہاتھ میں اسکی دوا لے کھڑی تھی اور دوسرے ہاتھ میں اسمارٹ موبائل تھا ۔اسکی نگاہیں موبائل پر تھیں اس نے بھت بیزاریت کے ساتھ گولی ان بوڑھے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھی اور جاکر صوفے پر بیٹھ گئ ۔
اب وہ اور بھی ذیادہ تن دہی کے ساتھ مابائل میں مصروف ہو گئ تھی یہ جانے بغیر کہ گولی نگلنے کے لئے پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔
نحیف ونازار بوڑھے ہاتھ اب ایک معمولی سی گولی کا وزن بھی برداشت نہیں کر سکے ۔بیچاری شمیمہ کا ہاتھ یوں لٹکا تھا ۔ہتھیلی پر دھری گولی زمین پر لڑھکتی نا جا نے کہاں گئ ۔؟؟؟؟
یہ کیسی زندگی ہے ہماری اور آپکی ۔۔۔۔
کہ انسان ان خون کے رشتوں کو بھولا بیٹھا ہے۔ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم پر آن لائن ہوکے ہم اپنے پیاروں کی زندگی سے آف لائن ہوچکے ہیں ۔
وہ بھی ایک دور تھا جب ایک انسان دوسرے سے ملنے کے لے میلوں سفر طے کر تا تھا اور آج ہم تنہائ ڈھونڈتے ہیں کہ موقع ملے تو اس برقی جال میں خود کو مدفن کر لیں یہ برقی جال جو معلومات کا خزانہ ہے اب عذاب بنتا جارہا ہے ۔
لکھو کے ساتھ لکھوخدارا اسے اپنی زندگی میں اسطرح شامل نہ کریں کہ دوسرے رشتے آپ سے بات کرنے کے لے ترسیں ۔آپکی ایک نگاہ کرم کے محتاج ہوں ۔خدارا رحم کریں خود پر اور اپنے سے وابستہ رشتوں پر۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں