57

تذکرۂ حسنین کریمین/ چراغانِ مصطفوی/تحریر/سید محمد ظفر علی شاہ

اللہ کے بابرکت نام سے شروع کرتا ہوں ۔تمام تعریفیں اس ذات باری تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا اور ان کے اہل بیت کو عظمتوں، فضیلتوں اور طہارتوں سے مزین فرمایا۔ آل رسول ﷺ کا مقام اتنا بلند اور ان کے فضائل اس قدر زیادہ ہیں کہ میرا قلم ان کی توصیف کے لیے قاصر ہے۔ میں اپنی عاجزی و ارادت کے ساتھ کوشش اور اختصار سے چند لفظ ہدیۂ عقیدت پیش کر رہا ہوں۔نواسۂ رسولﷺ، جگر گوشۂ بتولؑ، فرزندِ مرتضیٰؑ، سردارانِ جنت، امام حسنؑ اور امام حسینؑ وہ درخشاں ستارے ہیں جن کی روشنی قیامت تک اہلِ ایمان کے دلوں کو منور کرتی رہے گی۔ یہ دونوں شہزادے نہ صرف نبی اکرمﷺ کے محبوب تھے بلکہ اسلام کی سربلندی کے لیے ان کی زندگیاں علم، حلم، صبر، سخاوت، شجاعت اور قربانی کے بے مثال نمونے ہیں۔
سیا نا امام حسن مجتبیٰ ؑ حضرت فاطمہ الزہراؑ کے بڑے فرزند، جنتی نوجوانوں کے سردار اور خلافت راشدہ کے پانچویں خلیفہ ہیں۔ آپ کی ولادت 15 رمضان 3 ہجری بمطابق 1 مارچ 625ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے دونوں شہزادوں کے کانوں میں اذان دی، ان کے لیے خصوصی دعائیں فرمائیں اور ان سے بے حد محبت کا اظہار کیا۔امام حسنؑ نے نبی کریم ﷺ کے زیر سایہ ابتدائی تربیت حاصل کی۔ آپؑ کا اخلاق، حلم، بردباری اور سخاوت بے مثال تھی۔ 40 ہجری میں حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد آپ منصب امامت پر فائز ہوئے۔ حالات کے جبر اور امت مسلمہ کے اتحاد کی خاطر آپ نے 41 ہجری میں امیر معاویہ سے صلح کر لی، جسے ‘صلح حسن’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے بقیہ زندگی عبادت، تبلیغ اور فلاحی کاموں میں بسر کی۔50ہجری میں آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔
آپ کی نسل امام حسن المثنیٰؑ سے آگے بڑھی، جن سے حسنی سادات کی شاخیں وجود میں آئیں۔ امام حسنؑ کے صاحبزادگان میں قاسم، زید، عبداللہ، عمر، حسین اور دیگر شامل ہیں۔ امام حسن مثنیٰ جو امام حسینؑ کی صاحبزادی حضرت سکینہؑ کے شوہر تھے اور امام حسنؑ کی نسل انہی سے چلی “حسنی سادات” کہلاتی ہے، جو مختلف خطوں میں پھیلی اور اسلام کی خدمت میں مصروف رہی۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
(ترمذی )”حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔”
اور ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا
( مسند احمد )”حسن اور حسین مجھ سے ہیں اور میں حسن اور حسین سے ہوں، جو ان سے محبت رکھے گا، وہ مجھ سے محبت رکھے گا۔”
یہی محبت ہر دور کے اہلِ ایمان کا طرۂ امتیاز ہے۔
امام حسنؑ کی شخصیت حلم، بردباری، اور سخاوت کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ آپ کی دریا دلی کا یہ عالم تھا کہ ایک شخص آپ کے دروازے پر آکر سوال کرتا تو آپ اسے اس قدر نوازتے کہ وہ غنی ہو کر جاتا۔ آپ نے فرمایا ” لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہوگا “
50 ہجری میں امام حسنؑ کو زہر دے کر شہید کیا گیا۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
امام حسینؑ، سید الشہداء، نواسۂ رسول، جنتی نوجوانوں کے سردار اور تمام حسینی سادات کے جد اعلیٰ ہیں۔ آپ 3 شعبان 4 ہجری بمطابق 8 جنوری 626ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے آپ کو “ریحانتی من الدنیا” یعنی دنیا میں اپنی خوشبو قرار دیا۔امام حسینؑ نے خلافت راشدہ کے دور میں دین اسلام کی خدمت کی، اور امام حسنؑ کی صلح کے بعد مدینہ منورہ میں قیام فرمایا۔ 60 ہجری میں یزید کی خلافت کے بعد جب آپ سے بیعت کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے انکار فرمایا اور حق و باطل کی معرکہ آرائی کا آغاز ہوا۔ آپ نے دعوتِ کوفہ پر مسلم بن عقیل کو روانہ کیا، لیکن حالات سازگار نہ رہے۔ بالآخر 10 محرم 61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680ء کو میدان کربلا میں اپنے 72 جانثاروں کے ہمراہ شہید کر دیے گئے۔ آپ کی شہادت قیامت تک حریت و صداقت کی علامت ہے۔ امام حسینؑ نے اپنے قول و عمل سے ثابت کر دیا کہ حق کی راہ میں سر کٹایا جا سکتا ہے، مگر جھکایا نہیں جا سکتا۔ آپ نے فرمایا ۔۔” اگر دین محمدی میری شہادت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو اے تلوار و ! آجاؤ” یہی وہ ایثار اور قربانی ہے جو رہتی دنیا تک مظلوموں کے لیے امید اور ظالموں کے لیے عبرت کا مینار رہے گی۔
امام حسینؑ کی نسل امام زین العابدینؑ سے آگے بڑھی، جن سے حسینی سادات کی شاخیں وجود میں آئیں۔ آپ کے دیگر فرزندان میں علی اکبرؑ، علی اصغرؑ، جعفر، عبداللہ اور محمد شامل تھے۔ آپ کی بیٹیوں میں حضرت سکینہؑ اور فاطمہؑ قابل ذکر ہیں۔ امام حسین ؑ سے جو نسل چلی سادات الحسینی کہلائی جو وقت کے ساتھ جب مزید پھیلی تو پہچان کے لیے ذیلی شاخوں میں تقسیم ہوتی گئی ۔ جن کی مکمل تفصیل مصنف کی کتب باغ بتول و تاریخ سادات میں درج ہیں ۔امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی زندگیاں امتِ مسلمہ کے لیے دو عظیم درس چھوڑ گئیں۔امام حسنؑ نے ہمیں حلم، صلح، حکمت اور امت کی بقا کے لیے قربانی دینا سکھایا۔امام حسینؑ نے ہمیں ظلم کے خلاف قیام، عزیمت، استقامت اور راہِ حق میں قربانی دینا سکھایا۔
دونوں شہزادگانِ رسول، امتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ اور رشد و ہدایت کے مینار ہیں۔ ان کی زندگیاں تقویٰ، صبر، حلم اور استقامت کی روشن مثالیں ہیں۔ میں اپنی کم مائیگی کے باوجود ان مقدس ہستیوں کے حضور چند الفاظ نذر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔سید محمد ظفر علی شاہ ( سرپرست ہری پور بزم مصنفین ہزارہ ،مصنف تاریخ سادات، باغ بتول )
اللہم صل علیٰ محمد و آلِ محمد و بارک و سلم!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں