متعلم: جامعه صدیقیه (مولانا منظور احمد مینگل صاحب “حفظه الله”)
رب کریم نے دنیا میں مختلف مخلوقات کو پیدا فرمایا۔ کوئی ایک (مخلوق) بھی تخلیق میں بےکار و بےفائدہ اور باطل نہیں ہیں۔
خالق کائنات فرماتا ہے:-
ترجمہ:
اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان جو چیزیں ہیں ان کو فضول ہی پیدا نہیں کردیا۔(ص:27)
ان میں سب سے اعلی و ارفع احسن اور اشرف المخلوقات نوع بنی آدم (انسان) کو پیدا فرمایا۔
جو سب اولادِ حضرت آدم تو ہیں مگر ہر ایک کے ڈھانچے او خاکے کو مختلف اور ایک دوسرے سے علٰیحدہ بنائی تاکہ امتیاز قائم رہے اور ایک دوسرے سے پہچانے جائے۔
اس لیے کہ ہر چیز کی پہچان اور ایک دوسرے سے امتیاز کی یہی ظاہری مھکڑا اور ظاہری رنگ و روپ ہوا کرتی ہے۔ انسان اور حیوان، شیر اور گدھے، گھاس اور زعفران میں جو تفریق ہے وہ اسی ظاہری شکل و صورت اور ہیئت کے بنا پر ہے۔
انبیاء کی بعثت بطور رہبر و قائد
رب کائنات بشر کی رہبری اور رہنمائی کےلیے وقتاً فوقتاً انبیاء کرام (علیھم السّلام) کو بیچتے رہیں۔
ترجمہ:
اور کوئی امت ایسی نہیں ہے جس میں کوئی خبر دار کرنے والا نہ آیا ہو۔
(فاطر:24)
یہاں تک کہ سب کے اختتام پر آخری اُمت، اُمت مرحومہ و مغفورہ کےلیے سید الکونین، رحمت اللعالمین، خاتم المرسلین اور خاتم النبیین جناب محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ (صلی الله علیه وسلم) کو مبعوث فرمایا۔
ترجمہ:
وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا۔
(الجمعة:2)
جنہیں امت کے لیے بطور نمونہ پیش کیا چنانچہ الله فرماتا ہے:-
ترجمہ:
حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول الله کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
(الأحزاب:21)
جن کے اقوال، افعال، اطوار، اخلاق، عادات رہن، سہن چلنا، پھرنا کھانا، پینا لباس اور دیگر آداب معاشرت الغرض زندگی کے ہر شعبے کےلیے بطور سانچے کے ہیں۔
جن پر چلنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ جنہیں اپنانے میں دونوں جہاں کا چین و سکون ہیں۔ سنت پر چلنے والوں کا مشاہدہ دنیا میں بھی کیا جاتا ہے کہ ان پر رب کی کتنی کرم نوازیاں اور بےپیاں رحمتیں و برکتیں ہوا کرتی ہیں۔
مقام افسوس
افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم نے نبی(صلی الله علیه وسلم) کی سنتوں کو ترک کر دیا۔ اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ آپ کے اقوال کو ماننا تو دور سننے تک کی حاجت محسوس نہیں کرتے۔ آپ کے ان افعال، اطوار، اخلاق و عادات کو زندگی سے برطرف کرتے ہوئے باہر نکال پھینکا ہے جو اس قابل تھے کہ ان کو آنکھوں سے لگایا جاتا، جنہیں سر پہ رکھ کر اس کی قدر شناسی اور توقیر کی جاتی۔
آج ہماری چہل پہل، کھانا پینا اور پہننے تک سب کچھ سنت سے الگ تھلگ اور راہِ نبوی سے ہٹا ہوا ہیں جن کا وبال ہم پر ظاہر ہیں جو ہم پر آں پڑا ہیں
آج ہم نے اپنا سب کچھ بیگانوں کے ساتھ ملانا شروع کیا ہے۔ جو درجہ، سنت کو دینا چاہیے تھا آج اس سے بھی بڑھ کر ہم نے اغیار کے طور طریقے کو دے رکھا ہے۔
پھر کہاں کی برکتیں ہم پر اتریں، کہاں کی رحمتوں کا نزول ہو، کدھر ڈھونڈیں کریم ذات کی کرم نوازیاں جبکہ ہم ان کے حبیب(صلی الله علیه وسلم) کے خلاف چل پڑے ہیں۔
اغیار اگر کوئی کام ناچاری میں بھی کرے تو ہم اسے سٹائل سمجھ کر اپناتے ہیں مگر افسوس جو ہمیں سنت دے کر گئے ہم اُسے سنت سمجھ کر ہی ٹھکرا دیتے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے ناں؟
صحابه کرام اور اتباعِ سنت
صحابہ کرام (رضوان الله علیهم اجمعین) نے سنت کو اپنایا تھا تو دیکھو انہیں الله نے کیسے صیقل کیا، کیسے ترقیاں دی، وہاں سے کامیاب و کامران کیا جہاں سے وہم و گمان بھی نہ ہوتا ہو، کیسے فتوحات سے نوازے گئے۔
الله نے ان کے مقام و مرتبے کو بھی بلند کیا، ان کے ذات کو بھی بلند کیا، ان کے تذکروں کو بھی بلند کیا ان سب کی بنیادی وجہ صرف و صرف اتباعِ سنت ہیں، حضور کی سنت بس۔ جسے ان حضرات نے دل و جان سے تسلیم کیا، مانا اور عمل کر کے دکھایا جو لوگوں سے یہ گویا ہوئے کہ “ہماری طرح ہو جاؤ”۔
آج ہم بھی اُنہی کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ او بھائیوں! ان (صحابہ کرام) کی طرح ہو جاؤ۔
افسوس آج ہماری حالات یہ بنی ہوئی ہیں کہ حضور (صلی الله علیه وسلم) کی ظاہری حلیے کو بھی اپنانے سے رہیں ہیں۔ اغیار منہ پر مشین لگا کر داڑھی ہٹائے تو ان کو دیکھ کر ہم بھی خوشی خوشی کٹوا دیتے ہیں۔ اور العیاذ بالله اس میں عجیب و غریب فیشن کٹنگ بھی کرواتے ہیں۔ آج غیر پتلون کو چاک کر پہنتا ہے تو ہم اسی بھی سٹائل سمجھ کر گھونچ دیتے ہیں۔ وہ بالوں میں جانوروں جیسی صورت کی انگریزی کٹنگ کروائے تو ہم فوراً ان کی تشبہ کر لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہی تشبہ ہم اپنے محبوب(صلی الله علیه وسلم) کی کیوں نہیں کرتے؟؟؟
جو دنیا میں بھی ہمارے لیے اشک فشاں ہوئے۔ جو وقت وصال میں بھی ہمارے لیے رنجیدہ رہے۔ جو پوری زندگی ہمارے لیے دعائیں کرتے رہے اور آخرت میں بھی ہمارے حق میں شفاعت کریں گے (ان شاء الله) وہاں بھی امتی امتی پکاریں گے۔ ہم ان کی اطاعت و فرمانبرداری کیوں نہیں کرتے؟ ان کی اتباع و پیروی کرنے میں بارو وبال ہی کیا ہے؟
تشبہ اور اتباع، کامل شخصیت کی
اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے۔ جو گزشتہ ادیان کےلیے بطورِ ناسخ نازل ہوا ہے اور اسلام ہی کی وجہ سے مسلمانوں کو باقی شرائع من قبلنا کے پیروکاروں پر برتری حاصل ہے۔ تو اصول و دستور کے مطابق بھی انسان اسی کی پیروی اور تقلید کرتا ہے جو اس سے اعلی و برتر ہو تو جب اسلام اعلی و بر ارفع ہے تو نبی(صلی الله علیه وسلم) بھی سب سے اعلی و برتر ہوا۔ تو میں اور آپ کیوں کفار کی مشابہت اختیار کریں، کیوں ان کی عادات و اطوار کو اپنائے۔ جبکہ خود ہی ہمارے پاس ان سے بہتر، اعلی و اشرف موجود ہے۔ لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ اقوال و افعال، عادات و اطوار، رہن سہن، قیام طعام، وضع قطع، لباس اور ظاہری شکل و صورت اور حلیے تک ہر چیز میں اپنے نبی(صلی الله علیه وسلم) کی پیروی کرے ان کی اقتدا و اتباع کریں۔
یاد رکھیں! “ترکِ سنت اور تشبہ بالکفار” کے بہت سخت مفاسد ہے جو آج ہمارے سامنے آبھی رہی ہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کل نئے آنے والی نسل تو اسی کو سب کچھ سمجھنے لگ جائے گی اور دین سے بےخبر ہوکر ترکِ سنت اور تشبہ بالاغیار پر عمل کرتے چلی جائے گی۔
ترکِ سنت اور تشبہ بالاغیار کے چند مفاسد اور نتائج
ذیل میں ترکِ سنت اور تشبہ بالاغیار کی چند مفسدات کو بیان کیا جاتا ہے خود بھی کوشش کریں ان سے بچے اور اپنے گِرداگِرد بھی سب کو بچانے کی سعی کریں۔
ترکِ سنت اور غیروں کی سی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں جن میں سے بعض کو شیخ الحدیث و التفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلوی (رحمه الله) سیرت مصطفی میں بھی ذکر کر چکے ہیں۔ ذیل میں اس کا خلاصہ بھی ساتھ ملا کر نقل کیا جاتا ہیں۔
1:-کفر و اسلام میں ظاہراً کوئی امتیاز نہ رہے گا۔
2:-ترکِ سنت بدعات و خرافات کی جڑ ہے۔
3:-ترکِ سنت فرائض میں بھی کمی کا باعث بنتا چلا جاتا ہے۔
4:-ترکِ سنت پیارے آقا(صلی الله علیه وسلم) سے دوری کی بھی دلیل ہے۔
5:-غیروں سے مشابہت غیرت کی بھی خلاف ہے۔
6:-غیروں کی مشابہت ان کی طرح وضع قطع اور لباس اختیار کرنا درپردہ ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہے اور اپنی کمتری اور تابع ہونے کا اعلان کرنا ہے۔
7:-تشبہ اور مشابہت سے رفتہ رفتہ کفار کی طرف دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہوگا جو صراحتاً ممنوع ہے۔
8:-رفتہ رفتہ اسلامی لباس و تمدّن کے استہزاء اور تمسخر کی نوبت آئی گی۔
9:-اسلامی احکام سے دوری پیدا ہوگی اور اجراءِ احکام میں بھی دشواری پیش آئی گی.(جیسا کہ آج کل ہو بھی رہا ہے)
10:-قوم میں عزت ختم ہو جائے گی۔
11:-دوسری اقوام سے تشبہ اپنے قوم سے بےتعلقی کی دلیل ہے۔
12:-افسوس کہ دعویٰ تو اسلام کا ہو اور تہذیب و تمدن، وضع قطع، رہن سہن، قیام وطعام اور لباس کے طور و طریقے غیر اسلامی اور غیروں کے ہو.
حاصل کلام
سب باتوں کا خلاصہ اور نچوڑ یہی ہے کہ ہم سنت کو اپنائیں اور تشبہ بالکفار اور تشبہ بالاغیار سے حتی الامکان بچے اور بچنے کی سعی کریں۔ سنت کو چھوڑنے سے خود کو بچائے رکھے اور تشبہ بالاغیار کی مخالفت کریں۔ جیسے کہ بہت سی احادیث میں یہود و نصاری کی مخالفت کا حکم بھی ملتا ہیں۔ آپ (صلی الله علیه وسلم) کا ارشاد مبارک کا مفھوم ہیں “یہود و نصاری کی مخالفت کرو”
جب ہم سنتوں کو اپنائیں گے تو دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران بھی ہوں گے اور عزت بھی برقرار رہے گی ورنہ ترکِ سنت اور غیروں کی مشابہت آخرت میں تو ویسے بھی ذلت و رسوائی کا سبب ہے دنیا میں بھی ذلیل و خوار کرنے والی ہیں۔
التماس
گزارش یہ ہے کہ ہم روزانہ زیادہ نہیں صرف “دو” سنتوں کو اپنانے کی نیت کریں صرف نیت نہیں بلکہ عملاً شروع بھی کریں۔ جتنی زندگی بغیر سنتوں کے گزر گئی اسے رہنے دیجیے۔ اب وقت کو قابو کریں اب بھی وقت ہے ان شاءالله ایک سال میں 720 تک سنن ہم اپنا چکے ہوں گے.
یہ چند نکتہ کی باتیں تھیں جو زبان کہہ سکی قلم لکھ سکا، التجاء ہے ربِ لم یزل سے کہ مجھ سمیت قارئین کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم