13

فلسطین جنگ کی موجودہ صورت حال/تحریر/محمد اویس شاہد

غزہ میں چند روز کے لیے جنگ بندی ہوئی اور اس کا بھی بنیادی مقصد فریقین کے پاس جو یرغمالی موجود تھے، ان کی رہائی تھا۔ اب وہاں اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر جارحیت شروع کر رکھی ہے۔ رمضان کے آغاز سے ہی غزہ میں اشیائے خوردونوش کی سپلائی بند کر دی گئی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید کر دیئے گئے ہیں،

وہ الفاظ کہاں جو درد کو زباں دے سکیں، وہ زبان کہاں جو حالِ دل بیان کرنے کی طاقت رکھے، اور وہ اظہار کہاں جو جذبات کی عکاسی کر سکے۔ بے بسی، لاچاری، اور کرب کا اک ایسا عذاب دل و دماغ پر حاوی ہے جس نے سوچنے سمجھنے اور لکھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر رکھا ہے۔ ایک طرف رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں ہیں، عید کا سماں ہے، اور دوسری جانب فلسطین میں ایک بار پھر کشت و خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، عارضی جنگ بندی کے بعد فلسطین بالخصوص غزہ ایک مرتبہ پھر اسرائیلی افواج کے نشانے پر ہے، تعجب صرف جنگ پر نہیں، بل کہ بنا اصولوں کی جنگ پر ہے۔ جہاں مرد و عورت، بچوں بوڑھوں، اور تن درست اور مریضوں کا فرق ختم ہو چکا ہے، کم زور طبقات بالخصوص بچوں اور خواتین کو زیادہ بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مذہبی اور قانونی پابندیاں تو ایک طرف، اسرائیل اس وقت اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس کے بنائے ہوئے جنگی قوانین کو بھی جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں کوئی داد رسن ہے نا کوئی داد رسی، کوئی ایک توانا آواز اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی۔ مذمتی بیانات چھلنی ہوتے سینوں اور بکھرتے اعضا کی پیوند کاری کا کام نہیں کر سکتے، اس کے لیے ظالموں کو ظلم سے روکنے کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ دوسری جانب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، جو اپنے الیکشن سے قبل یوکرین اور غزہ کی جنگ بندی کے نام پر ہم دردیاں سمیٹتے نا تھکتے تھے، الیکشن میں کامیابی کے بعد ایسی منافقت اپنائے ہوئے ہیں کہ علی الاعلان فلسطین مخالف بیانیے کے پرچار پر کاربند ہیں۔ کیا بڑی اور سربراہ ریاستوں کے سربراہان کا یہی وطیرہ ہوتا ہے؟ کیا دنیا میں جنگیں صرف سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے کیش کی جاتی ہیں؟ اگر ہاں تو دنیا کی قیادت چہ معنی دارد؟ سربراہی کا کیا مقصد؟ بڑے پن کا ثبوت کہاں ہے؟ ایسے ہی اقوامِ متحدہ کی اجتماعیت ایک اسرائیلی عفریت کے سامنے مجھ جتنی ہی عاجز و بے بس کیوں ہے؟ عرب ممالک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ یہ سفاکیت اور بربریت دیکھنے میں مشغول کیوں ہیں؟ کوئی اس ناجائز ریاست کو نکیل ڈالنے کی کوشش کرتا نظر کیوں نہیں آتا؟ کیا ایک اسرائیلی دنیا کے اڑھائی سو سے زائد ممالک سے برتر ہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ دنیا کی قیادت اسی عفریت کے ہاتھ میں دے دیجیے، تاکہ ہمیں یقین تو ہو کہ اس کا اگلا ہدف کوئی اور ملک بھی بنے گا۔ یہ برق آخر بے چارے مسلمانوں پر ہی کیوں گرتی ہے؟ فلسطینوں کا خون ہی اتنا سستا کیوں ہے کہ اس میں لت پت معصوم پھول دنیا کی نظروں سے یکسر اوجھل ہیں۔
غزہ میں چند روز کے لیے جنگ بندی ہوئی اور اس کا بھی بنیادی مقصد فریقین کے پاس جو یرغمالی موجود تھے، ان کی رہائی تھا۔ اب وہاں اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر جارحیت شروع کر رکھی ہے۔ رمضان کے آغاز سے ہی غزہ میں اشیائے خوردونوش کی سپلائی بند کر دی گئی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید کر دیئے گئے ہیں، جن میں 300 سے زائد تعداد معصوم کلیوں کی ہے۔ زخمیوں کا علاج کہاں کروایا جائے؟ اسپتالوں میں؟ لیکن وہ بھی تو اس بدبخت ریاست کے نشانے پر ہیں، ایک ہفتہ قبل فلسطین کا واحد کینسر ہسپتال بھی بمباری سے تباہ کر دیا گیا ہے۔ مصر اور قطر کی حکومت نے مذاکرات کی دوبارہ پیش کش کی ہے؟ لیکن کیا اسرائیل اپنے حالیہ مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹا؟ کیا 1000 انسانی جانوں کی قربانی صرف مذاکرات کا کفارہ چاہتی ہے؟ گزشتہ کچھ روز قبل کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے رفح میں بھی زمینی آپریشن شروع کر دیا ہے، اور شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی کی ہے، جس پر فلسطینی پھر سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یوں غزہ میں عارضی جنگ بندی کی وجہ سے جو فلسطینی واپس آئے تھے، انھیں ایک بار پھر ہجرت کرنی پڑ رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پھر ایسا عملہ جو جنگ میں طبی سہولیات کی فراہمی پر معمور ہوتا ہے اور پوری دنیا میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ بھی ان احساس سے عاری اور ہاتھوں میں مہلک ہتھیار پکڑے اسرائیلیوں کے نشانے پر ہے، اقوامِ متحدہ کی کمیٹی بہ رائے فلسطینی مہاجرین (انروا) کے مطابق چند دن میں ہی ان کے مزید 4 افراد کو قتل کر دیا گیا ہے، جس کے بعد مجموعی طور پر مقتول رضاکاروں کی تعداد 280 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے غزہ میں غذائی قلت پر بھی تنبیہ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اب غزہ میں صرف دو چار دن کا آٹا ہی باقی رہ گیا ہے۔ اس کے بعد بھوک اور قحط سالی کا بھیانک رقص شروع ہوگا، جو نہتے فلسطینیوں کی ہمت گرانے کا باعث بنے گا۔ اس سے نہ صرف حالات کی کشیدگی کا اندازہ ہوتا ہے بل کہ فوری عملی اقدامات کے ذریعے اسرائیل کو اپنے مذموم ارادوں سے باز رکھنے کی ضرورت بھی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن عجب تماشا ہے کہ دنیا کے بااثر ترین ممالک بھی اندھے بہرے اور گونگے بنے اس تاریخی نسل کشی کے خاموش گواہ بنے بیٹھے ہیں، اور کسی میں اتنی حمیت اور غیرت بیدار نہیں ہو پا رہی جو اسرائیل کو کھلے لفظوں میں للکار سکے۔ ایسے میں ہم دردِ دل بیان کرنے کے علاوہ کیا ہی کر سکتے ہیں؟ رمضان کی مبارک سعتوں میں اپنے مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں کی حفاظت اور اسرائیل کی تباہی کی دعا کے علاوہ ہم جیسے بے بسوں سے اور کیا چارہ گری ہو سکتی ہے؟ یہی ایک قلم ہے، یہی الفاظ ہیں، ان پر بھی سوشل میڈیا کے ایلوگریتھم کے مطابق خاموش رہنے کی پابندی ہے۔ لیکن یہ خاموشی اپنوں کے سربریدہ وجود دیکھ کر کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ بہ قول مشتاق سبقت:
جس دور میں کعبے والوں کو گِرجا کے نظارے بھاتے ہوں
جس دورمیں مشرق والے بھی مغرب کے ترانے گاتے ہوں
جس دور میں مُسلم لیڈر بھی کچھ کہنے سے گھبراتے ہوں
جس دور میں سبقت ، غیرت کے اسباب عدم ہو جاتے ہوں
اُس دور میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو
ہم اہلِ حرم ہیں اب ہم سے یہ کفر گوارا کیسے ہو
ہم لوگ انالحق بولیں گے ہم لوگ انالحق بولیں گے
معزز قارئین! اب بات حدوں سے آگے بڑھ چکی ہے، اب مظلومیت خود ایک ظلم بن چکی ہے، اب کی بار بھی خاموش رہنے کا مقصد “سر ضرور کاٹیے مگر دھیرے دھیرے” کا مصداق ہے، اس مقدس مہینے کے طفیل ہی اپنے حصے کا چراغ جلانے کا عزم کر لیجیے۔ ہم جانتے ہیں ہم سب بے بس و لاچار ہیں، لیکن دنیا کے سارے سات ارب انسان تو نہیں! انہیں جگانے میں اپنا کردار ادا کیجیے! اگر بالفرض ہم مل کر یہ بھی نہیں کر سکتے یا یہ سمجھتے ہیں کہ سب ہی ہماری طرح عاجز و بے بس ہیں تو یاد رکھیے پروردگار عالم کی ذات آج بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے، کم سے کم اس کے سامنے تو دستِ دعا بلند کیجیے! یہود پر ذلت اور مسکنت کا الٰہی وعدہ قرآن کی بشارت ہے، اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ حالیہ اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں یہ وعدہ ایک مرتبہ پھر سچ کر دکھائے، یاد رکھیے آج ہم عاجز و لاچار تو ہو سکتے ہیں، لیکن بے حس نہیں، مسلمان اپنوں کے دکھ پر کبھی بے حسی نہیں اپناتا۔ عیدِ سعید کی آمد ہے، مبارک دن ہے، لیکن یقین کیجیے عید کی ساری خوشیاں ابھی سے ماند پڑ چکی ہیں۔ ہم کس منہ سے اہلِ اسلام کو عید مبارک کہنے کی جسارت کر سکتے ہیں! کیا ہم اہلِ غزہ کو اہلِ ایمان نہیں سمجھتے یا ہم حمیت سے عاری 57 مسلم ممالک کا اسلام کوئی الگ دین ہے؟ خون میں ڈوبی عید کیسے مبارک ہو سکتی ہے؟ ان نوحہ کناں الفاظ کے ساتھ ہی اربابِ وفا کا شکوہ ختم کرتا ہوں:
میں ان کو کیسے کہوں مبارک!
وہ جن کے نورِ نظر گئے ہیں
وہ مائیں جن کے جگر کے ٹکڑے
گلوں کی صورت بکھر گئے ہیں
وہ جن کی دکھ سے بھری دعائیں
فلک پہ ہلچل مچا رہی ہیں
میرے ہی دِیں کی بہت سی نسلیں
لکھو کے ساتھ لکھواداس عیدیں منا رہی ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں