یہودی عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “یہودا کے قبیلہ سے”کے ہیں۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کا نام یہود ا تھا ۔اسی بیٹے سے جوقبیلہ آباد ہوا وہ یہودی کہلایا۔ یہودیوں کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ ابتداء میں یہودیوں کو “عبرانی” کہا جاتا تھا۔عبرانی بائیل جسے تنخ / تنک یا عہد نامہ قدیم کہتے ہیں ۔یہودیوں کی مقدس کتاب ہے۔ ابتدائی عبرانی اقوام کا وطن عرب تھا ۔تقریباً 1750 ق-م سے یہ لوگ کنعان یعنی موجودہ فلسطین میں آباد ہونا شروع ہوئے۔ مختلف اوقات مختلف اطراف سے قبیلوں کی صورت میں آکر 1200 ق -م تک وہ کنعان /فلسطین میں مکمل طور پر آباد ہو گئے۔
یہودی روایت ہے کہ انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کلداتیوں کے پایہ حکومت اُر سے نکال کر لائے تھے ۔ پہلے وہ فلسطین میں ٹھہرےپھر مصر چلے گئے جہاں انہیں غلام بنایا گیا آخر کار حضرت موسی علیہ السلام نے غلامی سے نجات دلائی اور مصر چھوڑ کر کنعان آگئے۔
کنعان میں ایک قوم آباد تھی جو کہ فلسطینی کہلاتی تھی ۔جو یونانی النسل جنگجو قوم تھی ان کے مقابلے میں اکثر یہودیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہودیوں نے کنعان پر اپنا تسلط جمالیا۔
یہودیوں میں قاضیوں (مذہبی رہنما) کا دور شروع ہوا جوکہ تعداد میں بارہ تھے یہ دور ہنگاموں پر مبنی تھا ۔ لیکن مصریوں کی غلامی سے بہت بہتر تھا۔ قاضیوں کے دور کے بعد یہودیوں میں ایک ایسا زمانہ آیا جس میں باقاعدہ بادشاہت رائج ہوئی۔ یہودی تاریخ میں اس کو بادشاہت کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ یکے بعد دیگرے بادشاہ آئے حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی (موجوه نام حرم الشریف یا مسجد اقصیٰ ) کی تعمیر کروائی ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد ان کا بیٹا رحبعام بادشاہ بنا اور ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔شمالی ریاست /اسرائیلی ریاست اور جنوبی ریاست / یہودا ریاست ۔
اسرائیلی ریاست پر آشوریوں نے حملہ کیا اور یہودا ریاست پر بابلی حکمران بخت نصر نے 586 ق -م میں ہیکل سلیمانی پر حملہ کرکے اس کو تباہ کر دیا۔ بابلی حکومت پر ایرانی /فارسی بادشاہ سائرس نے 539ق – م میں حملہ کیا ۔ سائرس نے یہودیوں سے اچھا سلوک کیا اور یہودیوں کو ہیکل سلیمانی (یروشلم ) کی تعمیر کی اجازت دے دی۔ اس طرح یہودی ایرانیوں کے ماتحت رہےکبھی یونانیوں کے اور کبھی رومیوں کے ماتحت رہے۔ رومیوں نے دوبارہ 70ءمیں یروشلم (ہیکل سلیمانی) کو مسمار کردیا۔
خدا کا ارتقاء
یہودیوں کے مذہب کے بارے میں ہمارے علم کا خاص ذریعہ بائبل ہے۔ جس کے دو حصے ہیں عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید ۔
تاریخ میں خالص توحید کا تصور پیدا ہونے سے پہلے یہودی کثرت پرست تھے۔ قدیم یہودی مذہب میں ہر قبیلے یا خاندان کا اپنا معبود یا خدا ہوتا تھا جو ان کے مخصوص معاملات فصل ، جنگ یا خاندان کی حفاظت کرتا تھا۔
یہودی مذہب میں غیر ملکی معبودوں یا خداؤں کا تصور پایا جاتا تھا۔ غیر ملکی معبودوں سے مراد وہ دیوی دیوتا جن کی عبادت آس پاس کی قومیں کرتی تھیں بعل ایک کنعانی دیوتا تھا جو زر خیزی، بارش اور زراعت کا خدا سمجھا جاتا تھا ۔ مولک ایسا دیوتا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی عبادت میں بچوں کی قربانی دی جاتی تھی۔ توریت میں مولک کی عبادت کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے:
“تو اپنے بچوں کو مولک کے حوالے نہ کرنا تاکہ تم اپنے خدا کے نام کو بے حرمت نہ کرو میں خداوند ہوں”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مولک کی عبادت خدا کے نام کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔
احبار 18:21
یہودی مذہب میں شجر پرستی کے اثرات موجود تھے کنعانی مذہب میں درختوں کو دیوی دیوتاؤں سے جو ڑکر ان کی عبادت کی جاتی تھی اور بنی اسرائیل (یہودیوں ) بھی کبھی کبھار ان رسومات میں شامل ہو جاتے تھے ۔ آشیرہ کنعانی مذہب کی ایک دیوی تھی بنی اسرائیل (یہودیوں) نے بھی کئی مواقع پر آشیرہ کی پوجا کی۔ جس پر توریت میں سخت مذمت کی کئی ہے۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے:
“تم خداوند اپنے خدا کے لیے کسی قسم کا آشیرہ درخت نہ لگانا، نہ قربان گاہ کے قریب جسے تم خداوند اپنے خدا کے لئے بناؤ”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ آشیرہ کی عبادت خداوند کی شریعت کے منافی تھی۔
استثناء 16:21
بنی اسرائیل کے آغاز میں قومی معبود کا بھی تصور پایا جاتا تھا جو اپنی قوم کی رہنمائی کرتا تھا۔ بنی اسرائیل کے لئے یہ معبود یہواہ (YHWH) تھا ۔ جسے وہ اپنےقومی خدا کے طور پر مانتے تھے۔ بنی اسرائیل کا عقیدہ تھا کہ یہواہ نے انہیں دیگر اقوام پر فضلیت دی ہے اور ایک خاص قوم کے طور پر منتخب کیا ہے۔ وقت کے ساتھ یہواہ کا تصور صرف ایک قومی معبود سے بڑھ کر ایک عالمگیر خداکے عقیدے میں تبدیل ہوگیا۔
یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا جدامجد مانتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خدائے واحد پر یقین رکھتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کو اس طرح پہچانا جو پوری کائنات کا حاکم ہے خدا قبائلی مقامی دیوتاؤں کی طرح محدود نہیں ہے۔ توریت بھی خدا کی واحدانیت کی قائل ہے۔ احکام عشرہ (وہ احکامات جو خدا نے یہودیوں کو دیئے تاکہ وہ راست باز زندگی گزار سکیں ۔ یہودیوں کی بڑی تعداد آج بھی ان احکامات کو بطور عقیدہ اپناتی ہے) میں واضح طور پر بت پرستی سے منع کیا گیا ہے۔
توریت کی بعد کی کتابوں میں خدا کا تصور تجسیمی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مثلا ایک استعارہ ہے یہودی خدا کو شوہر اور خود کو خدا کی بیوی قرار دیتے ہیں ۔جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ سینا پر خدا سے شریعیت موسوی لینے گئے تو:
” خدا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ سینا پر ہم کلام ہو چکا تو انہیں پتھر کی دوتختیاں شہادت کے طور پر دیں جو کہ خدا تعالٰی کی انگلی سے لکھی ہوئیں تھیں “
کتاب خروج 18:31
یہودیوں میں مختلف ادوار میں خدا کا تصور مختلف رہا۔ جب بابلی دور میں غلام تھے غلامی کے دوران یہودیوں نے یہواہ کو صرف بنی اسرائیل کا خدا نہیں بلکہ پوری کائنات کا حاکم خالق متصور کر لیا۔ بابلی جلا وطنی کے دوران یہودیوں میں خدا کا تصور مزید پختہ ہو گیا۔
فارسی دور میں یہواہ کو تاریخ پر مکمل طور پر اختیار رکھنے والا اور معاملات میں براہ راست مداخلت کرنے والا پیش کیا گیا ہے یہواہ اپنے ماننے والوں کوان کے اعمال کی بنیاد پر جزاء و سزا دیتا ہے۔
فارسی دور کے بعد یونانی دور میں یہواہ کا تصور تجریدی (انسانی تشبیہات سے ہٹا کر پیش کرنا) ابدی، اور ماورائی ملتا ہے۔ یہواہ کو انسانی عقل کے قریب اور فہم میں آنے والی ہستی کے طور پر پیش کیا گیا یہ دور خدا کے تصور کی مزید گہرائی اور عالمگیریت کا باعث بنا۔
رومی اثرات کے تحت خدا کے تصور میں کچھ تبدیلیاں ملتی ہیں جو سیاسی، ثقافتی اور مذہبی عوامل کی دین تھیں۔ رومی سلطنت کے زیر اثر خدا کو بادشاہ اور مطلق حکمران کے طور پر دیکھنے کا تصور ملتا ہے۔ جو دنیا پر حکمرانی کرتا ہے۔ اس دور میں دیگر اقوام کے ساتھ تعلقات اور فلسفیانہ مکالمے کے نتیجے میں یہ تصور ابھرا کہ خدا صرف یہودیوں کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا خدا ہے۔ رومی دور کے فلسفیانہ مکاتب فکر خاص طور پر اسٹوئکزم اور افلاطونیت یہودی الہیات پر اثر انداز ہوئے اور خدا کے بارے میں زیادہ تجریدی (Abstract ) تصورات سامنے آئےجیسے کہ خدا کو “لامحدود” اور “غیر مادی” سمجھا جانے لگانا رومیوں نے 70 ء میں ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تباہ کر دیا جس سے بعض یہودی عرب میں جا کر آباد ہوئے اور بعض یہودی یورپ کے مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہو گئے۔
عرب میں آنے کے بعد یہودیوں نے عرب تہذیب سے روابط قائم کئے۔ جس سے یہودیوں کے عقائد پر بھی اثر ہوا اور عرب تہذیب نے یہودیوں کے تصور خدا میں نئی جہتوں کو جنم دیا . جب عرب میں اسلام کا ظہور ہوا اور اسلام عرب کے مختلف علاقوں میں پھیلنا شروع ہوگیا تو یہودیوں کو قرآن کی تعلیمات ، پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی تعلیمات اور اسلامی عقائد کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام میں خدا کو اللہ کہا جاتا ہے اور یہ تصور زیادہ تر یہودیوں کے یہواہ کے تصور سے ہم آہنگ تھا ۔ عرب میں آنے کے بعد یہودیوں میں خدا کی یگانگت اور توحید کے بارے میں فلسفیانہ سوچ مزید پروان چڑھی ۔ یہودی اللہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ روحانی طور پر دیکھنے لگے اور خدا کے بارے میں تفصیلات کو قرآن کی روشنی میں دوبارہ سمجھنے لگے۔
یورپ میں آباد ہونے والے یہودیوں کو مسیحی مذہب کے ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ مسیحی دنیا میں تثلیت (Trinity) کا تصور غالب تھا یعنی خدا کو باپ، بیٹا اور روح القدس کی صورت میں مانا جاتا تھا۔ اس کے برعکس یہودی توحید کو اہمیت دیتے تھے۔ یورپ میں یہودیوں پر کرسچن نےظلم و ستم کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں یہودیوں کا خدا کے ساتھ تعلق مزید مضبوط ہو گیا۔یہاں مختلف فلسفیانہ مکاتب فکر کا یہودیوں پر اثر پڑا ۔ یہودیوں میں موسی ابن میمون اور موسی مینڈ لزن جیسے فلاسفر پیدا ہوئے ۔ موسی ابن میمون کے مرتب کردہ تیرہ اصولِ ایمانیات یہودیوں میں مشہور ہیں۔ یہ اصول تقریباً یہودی عبادات کی ہر کتاب میں موجود ہیں اور مختلف تہواروں خاص طور پر جمعہ کے دن ان کو پڑھا جاتا ہے یہ تیرہ اصولِ ایمانیات ،مطالعہ یہودیت کے مصنف “زوہیب احمد” نے اپنی کتاب (صفحہ138) میں درج کئے ہیں۔
ابن میمون نے خدا کی صفات کو مطلق اور لا محدود قرار دیاہے۔ اس کے مطابق خدا کا کوئی آغاز یا اختتام نہیں ہے اور خدا کی حقیقت کو انسان کے فہم سے سمجھنا نا ممکن ہے۔
موسی مینڈ لزن نے خدا کو عقلی اور فلسفیانہ طور پر سمجھنےکی کوشش کی. موسی مینڈ لزن کے ہاں خدا کا تصور زیادہ تجریدی اور ماورائی (Transcedent) ملتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ خدا کی حقیقت صرف مذہبی روایات اور عقائد سے نہیں بلکہ فلسفے اور عقل کے ذریعے بھی خدا کو سمجھا جا سکتا ہے۔موسی مینڈلزن نے ایک تحریک شروع کی جوکہ ہشکالا تحریک کے نام سے مشہور ہے اس کے بعد مختلف تحریکیں شروع ہوئیں۔جس کے نتیجے میں2000 سال کی غلامی کے بعد آخر کار 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے ایک الگ “اسرائیلی ریاست ” قائم کرلی اس دوران یہودی خدا کو اپنے منصوبوں میں شامل سمجھتے تھے اور خدا کو کُل کا ئنات کا خالق اور یہودیوں کا محافظ سمجھا جاتا تھا یہودیوں کےمطابق اسرائیل کا قیام خدا کی مرضی کے مطابق تھا اسرائیل کے قیام کے بعد یہودیوں میں مختلف فرقوں نے جنم لیا۔ چند ایک عصر حاضر کے فرقوں کا ذکر ذیل میں دیا جا رہاہے۔
اصلاح شدہ یہودیت جنہیں ترقی یا آزاد خیال یہودی بھی کہا جاتا ہے۔ اصلاح شدہ یہودیت میں خدا کا ارتقاء ہوا کہ خدا جسم کی طرح ہے بعد میں خدا کو دنیا میں جاری و ساری روحانی طاقت سمجھا جانے لگا۔ جو کائنات اور انسا ن کو زندگی کے معنی عطاء کرتا ہے۔
1971 کے ایک سروے کے مطابق خدا کے متعلق اصلاح شده یہودیوں میں درج ذیل رویے پائے جاتے ہیں ۔
17 فیصد خدا کے روایتی نظریے پر یقین رکھتے تھے۔
49فیصد اپنے ذاتی عقائد کے مطابق خدا کو مانتے تھے۔
21 فیصد خداکے وجود کا ادراک نہیں رکھتے تھے ۔
4فیصد خود کو ملحد سمجھتے تھے ۔
ایک فرقه رجعت پسند یہودیت یعنی روایت پرست یہودی ہیں۔ رجعت پسند یہودیوں کے ہاں خدا کا تصور یہ ہے کہ جو قادر مطلق خالق کُل اور ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
راسخ العقیدہ یہودیت میں خدا کا تصور عمومی طور پر وہی پایا جاتاہے جو تو ریت سے ماخوذ ہے یعنی خدا واحد، ازلی ،ابدی، غیر مرئی اور مادی حدود سے آزاد ہے۔ وہ کائنات کا خالق ، حاکم ، عادل اور رحم دل ہے۔
دور حاضر میں خدا کو ایک اعلیٰ طاقت کے طور پر دیکھا جا تا ہے۔ جو انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ کئی یہودی سیکولر یا ثقافتی طور پر یہودی ہیں اور خدا کو روایتی مذہبی انداز میں نہیں مانتے۔ کچھ خدا کو کائنات کے قوانین یا فطرت کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ یہودی جدید روحانیت یا فلسفیانہ نظریات سے متاثر ہیں اور خدا کو کائنات کی وحدت اور شعور یا انسانی رشتوں میں ظاہر ہونے والی محبت کے طور پر سمجھتے میں ۔
یہودیوں کے ہاں خدا کا تصور فرقوں ، فلسفیانہ رجحانات اور انفرادی سوچ کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے لیکن بنیادی تصور وحدا نیت اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے۔
