رمضان المبارک نیکیوں کی بہار، عبادات کی روشنی، اور روحانی بالیدگی کا مہینہ ہے۔ اس مقدس مہینے میں ہر مومن کی روح نیکیوں کے حصول کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ روزہ دار کی بھوک و پیاس، سحری و افطاری کی رونقیں، شب بیداری کے لمحات، صدقات و خیرات کی برکتیں—سب مل کر رمضان کی پرنور فضا تخلیق کرتے ہیں۔
لیکن ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے، ان خوش نصیب نفوس کا، جو اس مہینے میں عام مسلمانوں سے کہیں زیادہ محنت کرتے ہیں، جن کی شب و روز کی کاوشیں صرف اس لیے ہیں کہ وہ اللہ کے مقدس کلام کو ہمارے قلوب تک پہنچا سکیں۔ یہ وہی حفاظِ کرام ہیں جو دن بھر قرآنِ کریم کی دہرائی میں مشغول رہتے ہیں، تاکہ رات کو تراویح میں ہمیں اللہ کے کلام کی حلاوت سے بہرہ مند کر سکیں۔ وہ دن کو بھوک اور پیاس کی شدت سہتے ہیں، لیکن ان کے لبوں پر قرآن کی تلاوت جاری رہتی ہے۔ رات کو جب لوگ گہری نیند میں ہوتے ہیں، یہ نوجوان حفاظ مسجدوں میں کھڑے ہو کر کلامِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں۔
لیکن افسوس! جب ختمِ قرآن کی رات آتی ہے، تو ہمارا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو تراویح کی نماز میں خشوع و خضوع سے قرآن سنتے ہیں، مگر اس کا حق ادا نہیں کرتے؟ کتنے ایسے ہیں جو ختمِ قرآن کی محفل میں شرکت کے لیے آتے ہیں، چمکدار کپڑے پہنتے ہیں، تصویریں کھنچواتے ہیں، لیکن جس نے پورے رمضان اپنی نیند، آرام اور ذاتی مصروفیات کو قربان کر کے ہمیں قرآن سنایا، اس کا اکرام نہیں کرتے۔
یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم نے حفاظِ کرام کے اکرام و اعزاز کو “اجرت” کا نام دے دیا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ محسن کشی کے مترادف بھی ہے۔ دین کے خدمت گاروں کو عزت دینا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا کوئی مالی لین دین نہیں، بلکہ ہمارا دینی، اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟ قَالَ: «هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ، أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ»
(سنن ابن ماجه، حدیث: 215، صحیح)
ترجمہ: “اللہ کے کچھ خاص بندے ہوتے ہیں۔” صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟” فرمایا: “یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کے حامل (حافظ) ہیں، یہ اللہ کے خاص بندے ہیں۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ حافظِ قرآن محض ایک عام انسان نہیں، بلکہ وہ اللہ کے خاص بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر دنیاوی شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کو ہم اعزاز و اکرام سے نوازتے ہیں، تو جو لوگ اللہ کے کلام کو یاد کرتے ہیں اور ہمیں سناتے ہیں، ان کی قدر کیوں نہ کی جائے؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ختمِ قرآن کی تقریبات میں مہنگے قالین، پرتکلف افطاری، شاندار لائٹنگ اور سجاوٹ کا اہتمام تو کر لیا جاتا ہے، مگر جس حافظِ قرآن نے پورے مہینے اپنی محنت کا نچوڑ پیش کیا، اسے عزت و محبت سے نوازنے میں بخل سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر مسجد کے منتظمین ہزاروں روپے کے لاؤڈ اسپیکر اور قاری کی آواز کو سنوارنے کے لیے بہترین مائیکروفون خرید سکتے ہیں، تو وہی خرچ حافظِ قرآن کے لیے کیوں نہیں کیا جاتا؟
یہ رویہ کس قدر افسوسناک اور ناشکری پر مبنی ہے!
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رویوں پر غور کریں۔ ہمیں چاہیے کہ:
1: حفاظِ کرام کی حوصلہ افزائی کریں، تاکہ ان میں مزید خدمتِ دین کا جذبہ پیدا ہو۔
2: والدین اپنے بچوں کو حفاظ کے قریب کریں، ان سے قرآن سیکھنے کی ترغیب دیں۔
3:ختمِ قرآن کی تقریبات میں حفاظ کے لیے خصوصی انعام و اکرام کا اہتمام کریں۔
4: ان کی خدمات کا شکریہ ادا کریں، اور ان کی عزت و توقیر میں کمی نہ آنے دیں۔
جب ہم دنیاوی کامیابیوں پر لوگوں کو ایوارڈز، میڈلز، اور تحائف دیتے ہیں، تو کیا قرآن سنانے والے حفاظ اس قابل نہیں کہ ان کی عزت کی جائے؟
یہ دین کی خدمت میں ایک چھوٹا سا قدم ہوگا، مگر اللہ کے ہاں اس کا اجر بے حساب ہے۔
لکھو کے ساتھ لکھواللہ ہمیں قرآن کی حقیقی قدر کرنے اور حفاظِ کرام کے احترام کا شعور عطا فرمائے۔ آمین