Tourism Some Interesting Aspects/Written By/Ismat Usama 0

سیرو سیاحت :چند توجہ طلب پہلو/از قلم/عصمت اسامہ

ملک بھر کے میدانی علاقوں میں جون جولائی کا موسم شدید حدت اور حبس لئے ہوۓ آتا ہے ،کئی علاقوں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے ۔ عموماً تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی تعطیلات ہوتی ہیں اور متمول گھرانے شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو رب کائنات نے زرخیز میدانوں ، بلند و بالا پہاڑوں ،چشموں اور دریاؤں سے نواز رکھا ہے ۔
یہ علاقے ٹورازم کے فروغ کا اہم سبب ہیں ۔ہونا تو یوں چاہئیے کہ حکومتی سطح پر اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاۓ ،ترقیاتی فنڈز صحیح انداز میں استعمال کئے جائیں ، سیاحوں کو آمد ورفت کی خاطر خواہ سہولیات فراہم کرنے پر توجہ دی جاۓ تاکہ پاکستان اس سے قابل قدر زر مبادلہ کما سکے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔جن علاقوں میں سے موٹر وے گذرتی ہے ،وہاں ٹریفک کے مسائل کم پیدا ہوتے ہیں لیکن دیگر پہاڑی علاقوں میں عموماً سڑکیں بہت کم چوڑی ہوتی ہیں ،کئی مقامات پر دو طرفہ آنے جانے والی ٹریفک کا گذرنا مشکل ہوتا ہے ۔ایک طرف کی گاڑی روک کر دوسری گاڑی کے گذرنے کی گنجائش بناتے ہیں۔
میدانی علاقوں کے لوگ خصوصاً پنجاب کے گھرانے سیدھی کارپٹڈ روڈز پر سفر کے عادی ہوتے ہیں ،پہاڑی علاقوں کی سڑکیں اچانک موڑ کھاتی ہیں،سامنے کھائی آجاتی ہے ،ڈرائیور کی توجہ ذرا سی بٹنے پر گاڑی کھائی میں گر سکتی ہے۔سڑکوں پر روڈ لائیٹس سرے سے ندارد ہوتی ہیں۔ کئی مقامات پر ٹریفک سائنز لگانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ آگے سڑک ڈھلوان ہے یا خطرناک موڑ ہے ۔کھائیوں کی جانب نشان زدہ بلاکس بھی نہیں لگاۓ جاتے کہ اندھیرے میں نوواردوں کو سڑک کے دائیں بائیں مڑنے کا احساس ہو جاۓ۔
بارش سے گیلی سڑکوں پر گاڑیوں کے پھسلنے اور اترائی والی جگہوں پر بریک فیل ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں ۔ گاڑی مرمت کروانے کی ورکشاپ بہت کم اور دور دراز واقع ہوتی ہیں۔
سیاح ایسی صورت حال میں مشکلات میں پھنس سکتے ہیں۔ حالیہ سانحہء سوات میں ایک ہی گھرانے کے اٹھارہ افراد تند و تیز موجوں میں بہہ گئے ۔ان میں سے تین افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔ اس سانحہ نے نہ صرف پوری قوم کو سوگوار کردیا ہے بلکہ سوچ کے نئے دریچے بھی وا کئے ہیں۔ سیر وتفریح پر جانے والے گھرانے عموماً خوشی منانے نکلتے ہیں ،راستے کے خوب صورت مناظر کی ویڈیوز اور یادگار سیلفیوں کے علاوہ چند حفاظتی اقدامات کرنے کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے ۔
1: جس علاقے میں سیر و سیاحت کی غرض سے جارہے ہوں ، اس کے راستوں اور پکنک پوائنٹس کا علم ہو اور صرف انھی جگہوں پر رکا جاۓ ۔زیادہ بہتر ہے کہ وہیں کے مقامی ڈرائیور کو ہائر کرلیا جاۓ کیوں کہ اسے راستوں اور خطرات کا بہتر علم ہوتا ہے ۔
2: وہاں کے موسم کی صورت حال ، سردی ،لینڈ سلائیڈنگ ،گلیشیرز ،دریاؤں کے بہاؤ کا بھی کچھ پتہ ہو۔ آج کل ایسے ایپس آگئے ہیں جو بارش ،زلزلے وغیرہ کی پیشگی اطلاع دیتے ہیں۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ایپ بھی انسٹال کرلینا چاہیئے ۔
3: گاڑی میں فیول کے علاوہ کچھ سفری سامان ہو ،مثلا” مضبوط رسی ، جیک لگانے کا سامان ،ایکسٹرا ٹائر وغیرہ رکھیں۔
4: پہاڑی علاقوں میں عموماً میدانی علاقوں کے نیٹ ورک اور فون سمیں نہیں چلتیں ،وہاں جاکے لینا پڑتی ہیں۔اکثر مقامات پر سگنل بالکل نہیں آتے،سیاحوں کو چاہئیے کہ پیچھے گھر والوں کو مقامی لینڈ لائن نمبر مہیا کریں ،جس ہوٹل میں ٹھہریں ،اس کے فون نمبر اور لوکیشن سے بھی باخبر رکھیں ۔
5: مقامی پولیس ،ہسپتال ، ریسکیو والوں کے نمبرز کہیں لکھ کے گاڑی میں رکھ لینے چاہئیں۔
6: سانحہء سوات میں ایک اہم پہلو ” پیغام کا درست نہ پہنچنا ” کئی زندگیوں کو لے گیا۔ لوگوں کو ڈوبتے دیکھ کر کئی افراد نے ریسکیو والوں کو فون کیا مگر انھیں ایمرجنسی کا صحیح مطلب نہ سمجھا پاۓ، ریسکیو والے وہاں ایمبولینس لے کر آگئے ۔جب انھوں نے لوگ ڈوبتے دیکھے تو پھر واپس گئے تاکہ مطلوبہ سامان لا سکیں مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
7: مقامی حکومتوں کا فرض بنتا ہے کہ جہاں ناپختہ پل ہوں ،خطرناک راستے ہوں یا سیلابی ریلے اچانک گذرتے ہوں وہاں ہدایات پر مبنی بورڈز لگاۓ جائیں ،دریاؤں کے ساتھ تجاوزات ختم کی جائیں، دریاؤں کے بیچ میں ناشتے نہ کرواۓ جائیں ۔ ریسکیو کے لئے امدادی چوکیاں بنائی جائیں جن میں جانیں بچانے کے ضروری آلات ، لائف جیکٹس ، رسے وغیرہ اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہو۔
8: جنگلات کی بے تحاشا کٹائی اور دریاؤں کو لیز پر دے کر بجری پتھر نکالنے سے صورت حال انتہائی ابتر ہورہی ہے۔اسے روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
9: عوام کو اپنی جان کی حفاظت کا خود بھی خیال رکھنا چاہئیے ، رسیوں سے بنے پلوں ، خستہ راستوں ، طغیانی والے ندی نالوں کے قریب جانے سے پرہیز کرنا چاہئیے
10: آخری بات یہ ہے کہ اپنے اسفار کو روحانی بالیدگی کا ذریعہ بنائیں ،سفر کی دعائیں اور اذکار ، نمازوں کی پابندی رکھیں ، سیاح خواتین ساتر لباس میں رہیں ،اسلامی تہذیب و معاشرت کا خیال رکھیں ۔بچوں کو رب العالمین کی قدرتوں کا مشاہدہ کرواتے ہوۓ ان کا ربط خدا سے جوڑیں ۔زندگی بھی ایک سفر ہے ،دعا سکھائیں کہ رب العالمین اس کا اختتام بخیر کردے !

سیر وسیاحت

لکھو کے ساتھ لکھو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں