83

دو رخی محبت/تحریر/ سعید مسعود ساوند

عجیب بات ہے ہماری محبت اور خلوص ان لوگوں کے لیے تو ہے، جن سے ہمارا واسطہ بمشکل دو سے تین گھنٹے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم ان کے سامنے تصنع بغیر تصنع کے ایسے بچھے ہوتے ہیں، گویا ہم سے کوئی اچھا نہیں، لیکن جو لوگ چوبیس گھنٹے ہمارے ارد گرد ہوتے ہیں، بلکہ جن کی زندگی کا خلاصہ ہی ہم ہیں، وہ ہماری خندہ پیشانی کے مشتاق ہیں۔ انہیں ہمارے خلوص اور محبت کی ضرورت ہے، لیکن ہم ہیں کہ ان سے مسکراتے ہوئے ملنا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔کیا ہم اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ ہمارے رشتہ دار، دکھ سکھ کے سچے ساتھی، ہمارے ملازم اور ہم سے ہر وقت جڑے رہنے والے احباب اس بات کے مستحق نہیں کہ ہم ان سے بھی مسکرا کر ملیں؟ انہیں بھی ہیلو ہائے سے خوش رکھیں؟آخر کون سا ایسا شرعی حکم ہے جو صرف باہر والوں کے ساتھ اچھا رہنے کا حکم دیتا ہے، جبکہ ہمیشہ ساتھ رہنے والوں سے مسکرا کر ملنے کا بھی روادار نہیں۔ سچ پوچھیں تو شریعت نے جتنا مستقل ساتھ رہنے والوں کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آنے کا کہا ہے، اتنا راہ گزر اور دو منٹیوں کے بارے میں نہیں کہا۔ بہت سی احادیث ہمیں اس طرف توجہ کرنے پر ابھارتی ہیں، اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔پیارے! ہماری محبتوں کے سب یکساں مستحق تو ہیں ہی، لیکن اضافی حق ہمارے گھر بار، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا ہے، جن سے آج ہم بے خبر ہیں۔انہیں ہمارے دھن دولت کی نہیں، بلکہ محبت کی زیادہ ضرورت ہے۔ کبھی اپنی بہن سے مسکرا کر ملیں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔میں جب بھی اپنی بڑی بہن سے مسکرا کر ملتا ہوں، تو وہ بے چاری سارے کام چھوڑ کر میرے قریب آ جاتی ہے۔ اس کی محبت کا اندازہ مجھے اس کے چہرے پر محبت بھری مسکراہٹ سے ہوتا ہے۔جب بھی میں رشتہ دار سے فون پر بات کرتا ہوں، تو شروع کے دو تین منٹ اسی میں لگ جاتے ہیں کہ “آپ نے ہمیں یاد کیا”۔ اب آپ ہی بتائیں، ان بے لوث محبتوں کو چھوڑ کر ہم کتنے پریشان ہیں۔ جہاں ہمیں محبت کا جواب محبت سے مل رہا ہے، وہاں تو جا نہیں رہے، اور جہاں مسکرا کر ملنے کا جواب ہی شاید ملے، اس طرف لپکے بغیر مزا نہیں آ رہا۔ بہرحال، لمحۂ فکریہ ہے، اس پر توجہ دینی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں