مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
بابا سائیں بستان خاندان کے ساتھ کب سے رہ رہے تھے یہ تو معلوم نہیں پڑتا تھا مگر یہ سب جانتے تھے کے ان کا کوئی خاندان نہیں ہے، میں جب سے آنکھ کھولی انہیں اپنے گھر میں ایک فرد کی طرح پایا، پورا سال بھی اگر ہنستے نہ تھے ، ان کی شخصیت میں ایک رعب ودبدبہ تھا کوئی ان سے مذاق نہیں کر سکتا تھا، مگر جشن آذادی پہ ان کی خوشی قابل دید ہوتی ، پورا گھر جھنڈیوں سے سجا دیتے۔
چونکہ اگست شروع ہو چکا اور پاں پاں کی آوازوں میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا تھا، بابا سائیں کے کمرے میں بیٹھا میں مطالعہ میں مصروف تھا جب باجوں کے شور سے سر درد شروع ہوا تو میں نے طنزیہ کہا ” لگتا ہے پاکستان ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین بینڈ باجوں کے ساتھ آئے تھے”
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری مذاق میں کہی گئی بات بابا سائیں کی آنکھیں بھگو دیں گی، وہ کبھی روتے نہیں تھے خود کو مضبوط ثابت کرتے کرتے شاید تھک کر گئے تھے ، آج ان کی بھیگی آنکھوں میں دکھ اور کرب کی انتہا میں نے محسوس کی۔
بابا سائیں بولے آج کے بچے تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ دن کس قدر بھیانک اور خوف ناک تھے جب ہندوؤں کو برسوں بعد حکومت ملی تو تکبر و غرور اور بعض و عناد ان کے انگ انگ سے ٹپکنے لگا، اور اسی آگ میں انہوں نے مسلمانوں کو جلا کر خاکستر کر دیا ، آج کے بچے کیسے جان سکتے ہیں کیونکہ انہیں تو اپنی تاریخ پڑھائی ہی نہیں جاتی اگر یہ بچے اپنی سوگوار اور خون میں ڈوبی تاریخ سے واقف ہوتے تو وہ باجے بجا بجا کر مسحرہ پن کبھی نا دکھاتے۔
دادا جان کسی غیر مرئی نقطے پہ نظریں جمائے بول رہے تھے،
وہ ایک کوئلے کی طرح دہکتی ہوئی صبح تھی جب شور اٹھا کہ تحریک آزادی شروع ہو گئی ہے، میرا دوست قاسم چوکھٹ پر گھڑا تھا اندر بلانا چاہا تو صاف انکار کر دیا کہ وقت بہت کم ہے اور کام بہت ہیں ابھی باقی لڑکوں کو بھی اکٹھا کرنا ہے ، ہم ایک ایک کے گھر سے ہوتے ہوئے تقریبآ بہت سارے لڑکے اکھٹے ہو گئے، بہت سے لوگوں کو ابھی آذادی کی تحریک کے لئے قائل کرنا تھا کیونکہ ہجرت کا غم کچھ معمولی بات نہ تھی، بڑے بوڑھے اپنا گھر چھوڑنے پر تیار نہیں ہو رہے تھے، اور بچوں کے لئے ان کو چھوڑ کر نکلنا آسان نہ تھا ۔
مسلمان ہندوؤں کے آئے دن کے فسادات سے تنگ آئے ہوئے تھے، جلد ہی وہ جان گئے کے آذادی کے لئے گرچہ بھاری قیمت چکانی پڑے گی مگر آنے والی نسلوں کے لیے ہمیں قربانی دینی ہی ہو گی، بالآخر وہ قیامت خیز دن آن پہنچا تھا جس کا خیر مقدم کرنے کے لئے ہم مسلمان دل پر پتھر باندھ کر منتظر تھے۔
ان کے رویوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا ہندوؤں اور سکھوں کے اندر ایک خیوانی روح حلول کر گئی ہو، بلوائی ہاتھوں میں ننگی کرپانیں لئے آدم بو آدم بو سونگھتے دوڑتے پھرتے ، ہم سب گھر والے رات کے اندھیرے میں ہی گھر سے نکل کھڑے ہوئے چھپتے چھپاتے سٹیشن پہنچے ، جہاں اک نیا دھچکہ منتظر تھا ، سٹیشن ماسٹر چونکہ ہندو تھے اس لیے اس نے کہا کے رشوت دو گے تو سب گھر والوں کو اکٹھا سوار کیا جائے گا، ورنہ قسطوں میں الگ الگ سوار ہو گے، میرے والد تو ٹھہرے پکے مسلمان، رشوت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ، نا ہی اتنا اضافی پیسہ تھا کہ رشوت دے سکتے ، مجھے اور میری ماں کو ٹرین پر سوار کر کے آبا بھائی اور چھوٹی کے ساتھ رک گئے، کے ہم دوسری ٹرین سے آجائیں گے ، ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے ایک مسلمان بزرگ نے صلاح دی کے مسلمانوں کے حلیے میں تو بلوائی آپ کو پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی کام تمام کر دیں گے ، اس لئے حلیہ تبدیل کر لینے میں ہی عافیت ہے ، جس لباس سے تمام عمر میں نے گھر والوں نے نفرت کی تھی آج وہ پہننا پڑ رہا تھا ، اماں کو بھی ایک سوٹ لا کر دیا پہلے تو انہوں نے مُجھے گھور کر دیکھا پھر سمجھ کر فوراً سوٹ تھام لیا اور قریبی حمام میں کپڑے تبدیل کر کے منہ ڈھانپ کر نکل آئیں ، جیسے ہی ہم ٹرین میں سوار ہوئے ٹرین میں ذیادہ تعداد سکھوں کی تھی، البتہ ایک مسلمان خاتون اور ساتھ چھوٹا بچہ سفر کر رہے تھے، ابھی ٹرین کچھ ہی دور گئی ہو گی ، کہ بلوائیوں کا ایک گروہ ٹرین میں آ دھمکا، مسلمان بچے کو وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا خاتون نے مزاحمت کی تو اس کے پیٹ میں برچھا مار کر کام تمام کر دیا، بچے کو اٹھایا اور اوپر لگی ہک سے لٹکا دیا گویا کسی دکان میں کپڑا اشتہار کے لئے سجایا گیا ہو، پورے ڈبے میں موت کا سناٹا چھا گیا ہر طرف خون بکھر گیا۔
کچھ دیر بعد میں بیٹھے بیٹھے جب اکتا گیا تو پچھلے ڈبوں کی جانب گیا تو اس طرف کا منظر ذیادہ ہولناک تھا کیونکہ اس بوگی میں ذیادہ تعداد میں مسلمان سوار تھے ،ہر طرف خون اور آنتوں کا ڈھیر تھا جو لوگ بچ گئے وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ساکت و جامد بیٹھے تھے، گویا نا مردوں میں شمار ہو نہ ذندہ میں۔
میں نڈھال قدموں سے واپس آ کر اماں کے برابر بیٹھ گیا جو مسلسل کچھ ورد کرنے میں مصروف تھیں ، کچھ دیر بیٹھ کر اکتا گیا تو کھڑکی میں آ کر ابھی کھڑا ہوا ہی تھا کہ خون کا ایک فوارہ آکر منہ پر لگا ، شاید پچھلی بوگی سے کسی مسلمان کو قتل کر کے باہر پھینکا گیا تھا، جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو سارے کریہہ صورتوں والے سکھ مجھ پر قہقے لگا رہے تھے ، اوئے ابے منہ لال ہو گیا ہے چل دھو آ ، ان کی مکروہ ہنسی سے میرا انگ انگ کانپ رہا تھا، مگر میں ظاہر نہیں کر سکتا تھا کے میں مسلمان ہوں ، میں نے سر جھٹکتے ہوئے دوبارہ باہر دیکھنا شروع کیا، باہر کے منظر سے میری نظریں دھندلانے لگیں اور سر چکرانے شروع ہو گیا کیونکہ وہ منظر ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھا، باہر ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ تسلسل سے بھبھوڑی ہوئی لاشیں پڑی تھیں، کوؤں اور گدھ کے غول در غول ان پر جھپٹنے ہوئے تھے، سڑے ہوئے باسی خون اور گلے سڑے انسانی گوشت کی بدبو سے سانس لینا محال ہوا تو میں آکر اپنی سیٹ پر ڈھے سا گیا اماں نے تھکی تھکی اور گہری دکھ بھری نظروں سے میری جانب دیکھا گویا کہہ رہی ہو ہم پہنچ تو جائیں گے نا؟؟ اور میں نے دلاسہ دیتی نظروں سے انہیں دیکھا تو ان کی کچھ ڈھارس بندھی ۔
لاہور سٹیشن پر ٹرین رکی تو چند ایک مسلمان بچے تھے، ذیادہ تر ہندوؤں اور سکھوں کی ننگی کرپانوں کا لقمہ بن گئے ، گویا انہوں نے اپنی پیاسی دھرتی کو مسلمانوں کے خون سے سیراب کیا تھا۔
کچھ خاندانوں کے بعض افراد جو پہلے پہنچ چکے تھے ، اس ٹرین کے رکتے ہی دوڑ دوڑ کر اپنوں کو تلاش کر رہے تھے، مگر چند ایک تھے جن کے ورثاء لٹے پٹے مل ہی گئے تھے ، ذیادہ تر کی یا تو ادھڑی ہوئی لاشیں تھیں یا سرے سے ہی غائب تھے، ایک موت ، وحشت اور قیامت کا سماں تھا۔
میں اور والدہ ٹرین سے اتر کر ایک درخت تلے ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے کہ ابا ، بھائی اور بہن آئیں گے تو ہم اکٹھے کہیں رہائش ڈھونڈیں گے، تین دن ہم مہاجر کیمپ میں انتظار کرتے رہے، بالآخر جب تیسرے دن ٹرین آئی تو میں دوڑ دوڑ کر بوگیوں میں سب کو ڈھونڈتا رہا، جب تھک کر مایوسی سے واپس ہونے لگا تو اچانک کھڑکی سے باہر لٹکے سر پہ نظر پڑی مجھے ٹانگوں سے جان کھنچتی ہوئی محسوس ہونے لگی ، مریل قدموں سے آخری ڈبے کی طرف گیا، بھائی کی کٹی پھٹی لاش پڑی تھی جبکہ ابا اور چھوٹی کہیں نظر نا آئے ۔
اماں کی بے چین نظروں اور ترستے کانوں کو کیا سناؤں گا اور کیا دکھاؤں گا ، میں اپنے اندر خوصلہ نہیں پا رہا تھا کہ لاش اٹھا کر لے جاؤں یا یہں کہیں دفنا دوں ، پھر میں نے ہمت کر کے بھائی کی لاش کندھوں پر اٹھائی اور من من کے ہوتے قدموں سے ماں کی طرف بڑھا، جو بے چینی سے انتظار کرتی ٹہل رہی تھی ، جب انہوں نے مجھے دیکھا اور کندھوں پر بھیا کی کٹے اعضاء والی لاش پر نظر پڑی تو اماں ڈھے گئی ، وہ بے یقین اور پھٹی پھٹی نظروں سے بھائی کے چہرے کو دیکھنے لگیں ۔
میں نے ہمت مجتمع کی اور اپنے پیاروں کے انتظار میں کھڑے کچھ مہاجروں کو بلایا ، لاش اٹھا کر غسل دیا وہی کپڑے کفن کی جگہ پہنا دیے ،کیونکہ کفن کے لئے پیسے نہیں تھے، چند ایک مہاجروں نے ساتھ کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کی ، اور ایک طرف جگہ ڈھونڈ کر دفنا دیا۔
ایک صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور رندھی ہوئی آواز میں تسلی کچھ اس طرح سے دی کہ شکر کرو اپنے ہاتھوں بھائی کو دفنا دیا ہمارے گھر والوں کو جانے قبر بھی نصیب ہوئی ہو گی یا گدھ اور کوؤں کی خوراک ہی بنے ہوں گے ۔
فارغ ہو کر اماں کے پاس واپس آیا تو وہ ابھی تک صدمے میں تھیں، اگلی صبح اماں بھی نہیں جاگیں وہ بھی ہمیشہ کے سو گئیں ، میں کئی دن تک ابا اور چھوٹی کا انتظار کرتا رہا، ہر نئی آنے والی ٹرین کے پیچھے بھاگتا ، پاگلوں کی طرح ہر ڈبے میں چکر لگاتا اور واپس آکر نڈھال ہو کر پڑا رہتا ، بالآخر مایوس ہو کر بھٹکتا پھرتا ، ایک دن مہاجروں کے خیمے میں مہاجروں کی ہمت بندھانے آنے والوں میں بوستان صاحب مجھے اپنے ساتھ لے آئے کہ چلو ہمارے گھر میں رہو اور جو کام کرنا چاہو کر لو، میں شروع میں ان کے گھر کے کام کاج کرتا رہتا اور ساتھ کالج میں داخلہ بھی لے لیا ، میں پڑھتا رہا اور پروفیسر بن گیا، مگر خاندان سے محروم ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر خاندان بنانے سے میں ڈر گیا تھا، اور کبھی شادی نہ کر سکا ، کاش کہ ہماری زندگیاں بھی عام لوگوں کی طرح ہوتیں ، کاش کہ آج کے بچے یہ جان سکتے کہ کیسے ہم آگ اور خون کا دریا پار کر کے پاکستان پہنچے، پاکستان کی ہر ہر اینٹ میں بزرگوں کا خون شامل ہوا تو پاکستان آزاد ہوا، کاش کہ آپ یہ جان سکتے کہ آزادی کی کتنی بھاری قیمت ہم نے چکائی ہے، اگر جان جاتے تو اپنے وطن اور اس کی آن بان شان بڑھانے کے لئے تن من دھن لگا دیتے۔
