129

طاغوت کیا ہے؟/تحریر/عبدالجبار سلہری

دنیا کے ہر مذہب یا تحریک کی بنیاد چند فکری نظریات پر ہوتی ہے۔ انسانی معاشرے میں چلنے والے مذہب یا سیاست میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ ہم جس مرضی مذہبی یا سیاسی تحریک کو دیکھ لیں ان میں چند ایک نظریات ملیں گے جو اس کی بنیاد ہوں گے۔جس پر تحاریک اپنا سفر طے کرتی ہیں۔ اسی بنیاد پر اسلام بھی ایک تحریک ہے۔ اسلام نے اپنے شعائر اور اپنے عقائد و نظریات، اور شناخت کی بنیادیں قائم کیں۔ اس پر سب سے بڑا گواہ قرآن ہے۔ جو بھی قرآن مجید کی آیات پر تدبر و تفکر کرتا ہے۔ وہ ان تمام چیزوں کو پا لیتا ہے۔ جو انسان یا معاشرے کی کسی بھی تحریک کی بنیاد ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ دونوں آگے بڑھتے ہیں۔
قرآن نے مختلف مقامات پر بہت سارے الفاظ کی وضاحت بیان کی ہے۔ ان میں سے ایک لفظ طاغوت ہے۔ قرآن میں یہ آٹھ جگہ پر بیان ہوا ہے، سب سے پہلے ہم لغت میں لکھتے ہیں کہ کیا معنی اہل لغات نے بیان کیا ہے۔؟
طاغوت لغت کے اعتبار سے لفظ طغیان سے نکلا ہوا ہے.اس کا معنی حد سے بڑھ جانا اور سرکشی کرنا ہے۔ دریا جب اپنی حدوں سے باہر نکلتا ہے تو یہ طغیانی ہے : ؂
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے !
ابن جوزی رحمہ اللہ طاغوت کی اصطلاحی تعریف کرتے ہیں : طاغوت ہر وہ بندہ ہے جو اپنی حد سے بطور متبوع جس کی اتباع کی جاتی ہے یا معبود یا مطاع جس کی اطاعت کی جاتی ہے تجاوز کر جائے اور وہ اس سے راضی بھی ہو۔
لغوی مفہوم کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی عدولی کرنے والے سارے لوگ خواہ وہ حکمران ہو یا رعایا سب کے سب طاغوت کا مصداق بن سکتے ہیں۔ گو کہ اس درجہ میں بھی حکمران،عام رعایا سے زیادہ ذمہ دار ہونے کی وجہ سے اعلی درجے میں شمار ہوں گے۔
علامہ سیوطی تفسیر جلالین میں یوں رقمطراز ہیں: ”طاغوت“ لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو۔ قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی اور خداوندی کا دم بھرنے لگے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلہ میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں:
1۔ مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً خدا کی فرماں برداری ہی کو حق جانے مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے اس کا نام فسق ہے۔
2۔ مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرمانبرداری سے اصولاً منحرف ہو کر خود مختار ہوجائے۔ یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے یہ کفر ہے۔
3۔ مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک میں اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبہ پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام ”طاغوت“ ہے۔
ایسے تینوں شخصوں سے مراد غیر صالح لوگ ہیں۔ ورنہ صالح لوگ طاغوت نہیں ہیں۔ چاہے وہ معبود ہوں یا ان کی اتباع اور اطاعت کی جا رہی ہو۔ لہٰذا وہ بت جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجے جا رہے ہوں طاغوت ہیں۔ علماء سوء جو کفر و ضلالت کی دعوت دے رہے ہوں، یا بدعت یا حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرنے کی دعوت دے رہے ہوں طاغوت ہیں۔ وہ دانشور جو دین کو صرف کتابوں سے پڑھ کر ہی سیکھ لیں لیکن سمجھ نا ہو وہ بھی طاغوت میں شامل ہیں۔
وہ لوگ بھی جو اپنے بنائے ہوئے فکری عقائد و نظریات اسلام کے خلاف نظام کے ذریعہ حاکموں کے لئے شریعت اسلامی سے باہر ہو جانے کا جواز فراہم کرتے ہوں طاغوت ہیں۔ کیوں کہ یہ تمام لوگ اپنی حد سے آگے نکل جاتے ہیں ۔ ایک عالم کی حد یہ ہے کہ وہ نبی کے لائے ہوئے احکام کا متبع ہو۔ اس لئے کہ علماء ہی حقیقتاً انبیاء کے وارث ہیں ۔وہ انبیاء سے علم ،اخلاق، دعوت اور تعلیم کی شکل میں وراثت پاتے ہیں۔ اگر وہ اس حد سے آگے نکل جائیں اور حکام کے لئے اس طرح کے نظاموں سے شریعت اسلام سے باہر ہو جانے کا جواز فراہم کرنے لگیں تو وہ طاغوت ہیں۔ کیوں کہ اتباعِ شریعت کی جس حد میں رہنا ان کے لئے واجب تھا وہ اس سے آگے بڑھ گئے۔
جس حکمران نے اپنی حاکمیت کا اعلان کیا وہ طاغوت ہے۔ جس نے غیر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا وہ بھی طاغوت ہے اور غیر اللہ کی حاکمیت کے تحت بننے والے سارے ادارے طاغوت ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی خوشنما ادارے ہوں۔ عدلیہ کے نام سے ایک ادارہ اگر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کر رہا، کچھ اور لوگوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کر رہا ہے تو وہ طاغوت ہے۔ مقننہ کا ادارہ اگر اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق قانون سازی نہیں کر رہا تو وہ بھی طاغوت ہے۔ جو کوئی بھی اللہ کے حدود بندگی سے تجاوز کرتا ہے وہ طاغوت ہے۔
وہ حکمراں یا فقہاء جن کی اتباع و اطاعت کی جا رہی ہے۔ اس سے ایسے حکام و فقہاء مراد ہیں جن کی شرعی طور پر یا حیثیت اور مرتبہ کے لحاظ سے اطاعت کی جاتی ہے ۔ حکام کی شرعی طور پر اس صورت میں اطاعت کی جائے گی۔ جب کہ وہ ایسے امور کا حکم دیتے ہوں جو اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف نہ ہوں۔ ایسی صورت میں ان کو طاغوت کہنا بالکل درست نہیں ہوگا بلکہ رعایا پر اس صورت میں اطاعت واجب ہوگی،اور حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت ہوگی۔ اس لئے مناسب ہے کہ جب ہم حاکم اور فقیہہ کی طرف سے اپنے اوپر عائد کسی حکم کا نفاذ کریں تو یہ ملحوظ رکھیں کہ ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔ ایسا خیال رکھنے سے یہ ہوگا کہ اس حکم کے لئے ہماری پابندی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بن جائے گی۔ ایسا خیال اس لئے رکھنا چاہئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی۔
اس حیثیت کے لحاظ سے اطاعت یہ ہے کہ اگر حکام اور امراء اپنی حکومت میں طاقتور ہوں تو لوگ ایمانی جذے کے تحت نہیں تو قوتِ حکومت کی وجہ سے ہی ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ کیوں کہ اطاعتِ حکام ایمانی جذبے کے تحت بھی ہو جاتی ہے اور قوتِ حکومت کی وجہ سے بھی۔ ایمانی جذبے کے تحت ہو تو یہی اطاعت کار آمد ہے۔ حکام کے لئے بھی اور عوام کے لئے بھی۔ اور جو اطاعت خوفِ حکومت کے تحت ہوتی ہے تو وہ اس وجہ سے کہ حکومت طاقتور ہے۔ لوگ اس سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ وہ اپنی مخالفت کرنے والوں کو سزائیں دیتی ہے۔
طاغوت سے دوستی اور اللہ پر ایمان دونوں چیزیں یکجا نہیں ہوسکتیں۔ اللہ کے دشمنوں سے بھی یارانہ ہو اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا دعویٰ بھی ہو یہی تو منافقت ہے۔ جبکہ اسلام تو حَنِیْفًا مُّسْلِمًا کے مصداق کامل یکسوئی کے ساتھ اطاعت شعاری کا مطالبہ کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں