29

مسلمان سائنسی و علمی میدان میں پیچھے کیوں ہیں؟ ایک علمی اور فکری جائزہ/تحریر/ثناء شعبان/فیصل آباد

اس جدید دور میں دنیا کی مختلف قومیں ترقی کے راہ پر گامزن ہے۔ عصر حاضر کی قوموں نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کرکے پوری دنیا میں دھاک بٹھائی ہے ۔ عصر حاضر میں بڑھتی ہوئی ٹیکنا لوجی دنیا کی قوموں پر اثر انداز ہو رہی ہے . آج کے دور کے مسلمان مغرب کے پیروکار بن گئے ہیں ۔ ان کے رہنے سہنے کے انداز ، اوڑھنے کے انداز نیز ہر پہلو سے وہ مغرب قوم کی پیروی کر رہے ہیں اگر مسلمانوں کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بہت سے عظیم سائنسدان گزرے جنہوں نے دنیا میں اپنی ساکھ قائم کی اور اگر آج کے مسلمانوں کو دیکھا جائے تو وہ علم سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ وہ تعلیم بھی محض ڈگری لے کے ملازمت کرنے کے لیے، حاصل کر رہے ہیں ۔ علم کا مطلب محض ڈگری حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ علم تو سوجھ بوجھ اور شعور کا نام ہے ۔ اور مسلمان علم اور فکر سے دور ہو تے جا رہے ہیں ہمارے آباء کا قیمتی سرمایہ آج یورپ کی لائبریریوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ کہتے ہیں
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جودیکھیں ان کویورپ میں تودل ہوتا ہے سپارا

مسلمانوں کا قیمتی سرمایہ جو کہ سائنسی و علمی میدان میں ہمار ی مدر کرتا، جس سے ہم اپنی تاریخ، عظیم ماضی کو کبھی نہ بھولتے لیکن افسوس صد افسوس ہلاکو اور چنگیز خان نے وہ سرمایہ دریائے نیل اور انگریزوں کی نذر کر دیا۔ مسلمان اپنے عظیم ماضی کے ہوتے ہوئے، عظیم حال سے محروم ہیں۔ آج ہم اپنی زندگی میں جتنے بھی سائنسی آلات دیکھتے ہیں، اکثر و بیشتر انگریز سائنسدانوں کی مرہونِ منت ہیں۔
مسلمانوں کی سائنسی و علمی میدان میں پیچھے ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک آج بھی ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں کے تعلیمی ادارے اور تجر بہ گاہیں خستہ حال ہیں۔ جہاں تعلیمی اداروں میں سائنس لیب میں پڑا ہوا سامان اور تکنیکی آلات صرف دیکھنے کی اجازت ہے ، استعمال کرنے کی نہیں۔ وہاں کس طرح ممکن ہے کہ اس ادارے سے طالب علم سائنسدان بن کر نکلے گے یا مفکر ۔ ان کو وہ مشینری اور آلات استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں اگر چند ایک اداروں میں اجازت مل بھی جاتی تو اول تو نہ ہونے کے برابر ہوگی دوم ان آلات کی کار گردگی اچھی نہ ہوگی جن کو استعمال کرنا ، گویا کہ نہ کرنے کے برابر ہو۔ ایسے میں طالب علموں کے لیے سیکھنے کے مواقع بہت کم ہو جاتے اور وہ علمی اور فکری لحاظ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس کے برعکس سائنسدان تو علمی تدبر و تفکر سے بنتے ہیں ۔
دوسری اہم وجہ مسلمانوں کی سائنسی اور علمی میدان میں ترقی کے فقدان میں تجربہ کار اور ہنر مند لوگو ں کی کمی ہے ۔ تعلیمی اداروں میں طلباء کو محض نمبر لینے کے لیے پڑھایا جاتا ہے اور بورڈ میں پوزیشنز کیسے لینی ہیں۔ اس طرح بچے کچھ نہیں سیکھ پاتے۔ ہم کسی بھی میدان میں تب تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہمیں اس بارے صحیح سے علم نہ ہو اور مکمل معلومات نہ ہو۔ بچوں کو شروع سے ہی چیزوں کا شعور دیا جائے، انہیں تجربہ کرنے سے کبھی نہیں گھبرانا چاہیے ۔ انسان ہمیشہ تجربہ کرنے سے سیکھتا ہے۔ ہر نئی مرتبہ تجربہ کرنے سے اسے سمجھ آتی ہے کہ میں پچھلی مرتبہ ناکام کیوں ہوا اور اس دفعہ مجھے کسی عوامل پر اچھے سے کام کرنا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی ۔ ( القرآن)
.
اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں تربیت یافتہ لوگ بچوں کی اچھے سے نشوونما اور ان کی تربیت کریں گے تو مسلمان کبھی بھی سائنسی و علمی میدان میں پیچھے نہیں رہ سکتے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

( علامہ اقبال )

مسلمانوں کی سائنسی و علمی میدان میں پیچھے، کی تیسری اہم وجہ تعلیمی بجٹ ہے۔ یہ بجٹ انتہائی کم رکھا جاتا ہے۔ ملک کے تعلیمی اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ اس بات کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مسلم ملکوں میں صرف 498 یونیورسٹیاں ہیں جبکہ امریکہ میں 5758 یونیورسٹیاں ہیں اور بھارت میں امریکہ سے بھی زیادہ 8500 یونیورسٹیاں ہیں۔
مسلم ممالک میں شرح خواندگی 25 سے 28 فیصد کے درمیان ہے اور کچھ میں تو محض دس فیصد ہے ایسے ممالک کی تعداد 25 کے لگ بھگ ہے۔
ایک رپورٹ مطابق او آئی سی میں 76 مسلم ملک شامل ہیں اور اس بین الاقوامی سطح کی محض 5 یونیورسٹیاں ہیں جبکہ امریکہ میں 6 ہزار جاپان میں نوسو پچاس ، چین میں نوسو اور بھارت میں 8500 بھی اور سرکاری یونیورسٹیاں کام کررہی ہیں۔ پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے اور مسلمان سوا ارب یعنی ایک یہودی سو مسلمانوں پر بھاری ہے ۔ گزشتہ ایک صدی میں 71 یہودی تحقیق، سائنس اور ادب کے شعبے میں نمایاں خدمات سر انجام دینے کے عوض نوبل انعام حاصل کرچکے ہیں ۔ جبکہ مسلم ممالک میں صرف 3 افراد نے یہ انعام حاصل کیا۔
یہ بات نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر کے مسلمانوں کے لیے شرم کی باعث نہیں کہ ڈیڑھ کروڑ یہودی ہر میدان میں پیش پیش ہیں۔ اسلام کا فلسفہِ زندگی یہ نہیں چند مفروضوں مبنی عقائد و نظریات کو انسانی صلاحتیوں پر اثر انداز کیا جائے اور حقیقت کے سفر میں انسان کو بوجھل کیا جائے۔ اسلام تو عالمگیر ت ہے۔ اسلام تو تدبر و تفکر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے ۔

إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ وَالْفُلْكِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا ینفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّه مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْیا بِه الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَبَثَّ فِیها مِن كُلِّ دَآبَّة وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَینَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ۔
(البقرہ، ۲:۱۶۴)
ترجمہ:
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دِن کی گردش میں اور اُن جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اُٹھا کر چلتی ہیں اور اُس (بارش) کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے اُتارتا ہے، پھر اُس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے، (وہ زمین) جس میں اُس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اُس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (اِن میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہیہ کی بہت سی) نشانیاں ہیں ۔

      اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے 

وَمِنْ آیاتِه خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ اِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّلْعَالِمِینَ ۔ 
                                             (الروم، ۳۰:۲۲) 

ترجمہ :
اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف اُس کی نشانیوں میں سے ہے۔ بیشک اِس میں علم رکھنے والوں کے لئے (حیرت انگیز اور مستند) نشانیاں ہیں ۔

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کائنات میں اہل علم والوں کے لیے نشانیاں رکھی ہیں۔ غور و خوض اور تدبر و تفکر تو حکم خداوندی ہے ۔ کیوں کہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے کھلتے ہیں اور اگر یہ دروازے مقفل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا ر ک جاتا ہے۔
اور آج کے مسلمانوں نے اپنی سوچ کو مقفل کر دیا ہے ۔

کسی زمانے میں اسلامی حکومتوں کے زیر سایہ نئی نئی ایجادات ہوئیں اور بڑے بڑے سائنسداں ،حکماء اور ڈاکٹر پیدا ہوئے مگر آج حالات اس سے مختلف ہیں۔
آج کوئی ابو علی ابن سینا، ابن ہیثم اور ابن رشد سامنے نہیں آتا۔ جابر بن حیان جیسے کیمیا داں آج دنیا کی رہنمائی کیوں نہیں کرتے ہیں؟ آج کوئی زکریا رازی اور ابوالقاسم زہراوی علم وہنر کے آسمان پر کیوں نہیں چھاتا؟ موجودہ سائنسی دنیا میں مسلمانوں کی بے وقعتی کو دیکھتے ہوئے کسی نے کہا تھا کہ آج اگر مسلم سائنسدان یکسر دنیا سے ختم ہو جائیں تو کسی کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ وہ موجود تھے۔جب مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا اور خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ و بنو عباس کا دور آیا تو جابر بن حیان، زکریا رازی، قاسم زہراوی اور ابن سینا جیسے سائنس و طب کے ماہرین پیدا ہوئے جنہوں نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور ان کی ایجادات و اختراعات اور تحقیقی کتب سے ہی استفادہ کرکے مغرب کے اہل علم نے سائنس و طب کو جدید رنگ و آہنگ عطا کیا۔ اس عہد کے مسلم حکمرانوں نے بھی سائنس و طب کی سرپرستی کی ۔

ذرا اپنے ماضی کی طرف دیکھو ۔
عہد وسطیٰ کے مسلمان سائنس دانوں نے بڑی بڑی ایجاد یںکی ہیں۔ ان میں جابر بن حیان کا نام سر فہرست ہے، جس کی کیمیا میں مہارت کی وجہ سے اسے آج بھی Father of chemistry کہا جاتا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے اس عظیم سائنس داں کو آج کی مغربی دنیا Gaber کے نام سے جانتی ہے اور اس کی تحریر کردہ کتابیں آج بھی علم و فن کے خزانے تقسیم کررہی ہیں۔ الجبرا اسی کی تحریر کردہ کتاب ہے جو مشرق سے مغرب تک اسکولوں مین داخل نصاب ہے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا؟
مسلمانوں نے اپنے سنہرے دور میں بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دیئے۔ طب ، جراحت اور کیمیا ہی نہیں دیگر شعبوں میں بھی ان کی خدمات قابل فخر ہیں مگر کس قدر عجیب بات ہے کہ آج وہی مسلمان سائنس اور طبی علوم میں سب سے آخری صف میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جو اکا دکا سائنس داں موجود ہیں ان کی علمی لیاقت بھی شکوک کے گھیرے میں ہے۔
آج مسلمانوں کو اپنا کھو یا ہوا وقار واپس لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا تعلیمی بجٹ بڑھانا چاہیے تاکہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلباء کو بہتر سہولیات مہیا کی جا سکیں ۔ زیادہ سے زیادہ اعلیٰ یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں طلبا ء کو جدید سہولیات میسر ہوں ۔ مسلمان اپنی شوکت رفتہ کی بازیابی کے لئے سائنس و حکمت میں میدان میں آگے آئیں اور مغرب کے شانہ بہ شانہ چلنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔
آج طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ و یوروپ جاتے ہیں کیوں کہ وہاں پر بہترین سہولیات میسر ہیں ، پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کو سائنس کے میدان میں کمزور پہلوؤں پر توجہ کی ضرورت ہے تا کہ طلبہ اپنے ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں
جس طرح عباسی دور میں بغداد علم و فن کا مرکز تھا مسلمانوں کو اپنی تاریخ زندہ کرنے کی ضرور ہے۔ اگر مسلمان اپنی تدبر و تفکر کی عادت اپنا تے ہیں تو آج بھی مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام واپس کر لیں گے بس پختہ ارادہ کی ضرورت ہے اور علامہ اقبال تو جوانان مسلم کو شا ہین سے مخاطب کرتے تھے ۔

          کبھی اے نو جوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
         وہ کیا گردو ں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں